سماجیمضامین

…کوئی صورت نظر نہیں آتی!

شاہانہ خانم، حیدرآباد

خطروں کے کھلاڑی ایک سیریل ٹی پرآتا تھا جس کو اکشے کمار ہوسٹینگ کرتے تھے جس میں ایسے ایسے خطرناک انسٹن کرتے تھے کہ کلیجہ منہ کو آجاتا تھا جس سے خوف اور پریشانی ایسی ہم طاری ہوجاتی تھی کہ ہم بالکل پریشان ہوجاتے تھے کہ اب کیا ہوگا؟ کبھی ہمیں بڑا مزاج آتا تھا تو کبھی ڈربھی جاتے تھے، کبھی اس ایڈونچر سے حیرت بھی ہوتی تھی۔ اس سیریل کئی سیزن چلے۔خیر ان کھلاڑیوں کی واقع ہمت اور خطروں سے کھیلنے کی داد دینی چاہیے کیونکہ وہ چاہے کتنے ہی ہمت والے ہوں یا نہ ہو لیکن جب یہ انسٹن کرتے ہونگے تو کہیں نہ کہیں جان کا خطرہ ضرور ہوتا ہوگا۔ لیکن کچھ کر گذرجانے کی چاہ میں وہ اتنا بڑا جوکھم یعنی جان پر کھیل جاتے تھے۔ ایسے ہی کچھ حالات تلنگانہ میں بھی واقع ہورہے ہیں آرٹی سی بس ہرتال؟؟؟؟

روز مرہ کی پریشانیاں کم تھی جو یہ نئی پریشانی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ اس ہڑتال سے سب سے زیادہ نقصان مزدور پیشہ،ڈیلی ویزس پر کام کرنے والوں کو ہورہا ہے جو اپنی دو وقت کی روٹی کیلئے صبح سے شام محنت کرتے ہیں جب جاکے ایک وقت کی روٹی میسر ہوتی۔ اوپر سے یہ مصیبت جو اس کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا۔5/اکٹوبر2019ہفتے کے دن سے آرٹی سی بسوں کی ہرتال ہوئی اس ہرتال کا مقصد یہ ہے کہ آرٹی سی بسوں کے ڈرائیوں کی کچھ مانگیں ہیں جن کوکے سی آر صاحب نے منظور کرنے سے انکار کردیا۔ملازمین اپنی مطالبات لے کربضد ہیں اور حکومت بھی اپنے موقف پر قائم ہیں۔اور ہائی کورٹ بھی اس ہرتال لے کر برہم ہے۔

اس ہڑتال سے سب سے زیادہ پریشانی کا سامانہ کرنا پڑرہا ہے عام عوام کو۔تلنگانہ آرٹی سی ملازمین کی ہڑتال جاری۔اس ہڑتال کی تاعائد میں کئی سیاسی پارٹیاں بھی ہیں جن میں ریاستی وزیر ٹرانسپورٹ اجے کمار نے بھی دھمکی دی ہے کہ ہڑتالی ملازمین کو ملزم نہیں کہا جاسکتا ہے۔جب سے یہ ہڑتال شروع ہوئی سٹرکیں تو ایسی بے نور ہوگئی ہے۔ حالانکہ کچھ پروائٹ کمپنیوں نے ایسے مشکل وقت میں عوام کے ساتھ دے رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے سی آر کی انانیت اور ہڑتال کرنے والے آرٹی سی ملازمین کی ضد کی وجہ سے عام آدمی اور غریب عوام پچھلے 25 دنوں سے پریشان ہیں۔

اگرچہ کہ چیف منسٹرنے بسوں میں سفرکرنے والے مسافروں کی سہولت کے لیے خانگی بسوں کا انتظام کیا ہے، لیکن خانگی بسوں کے کرائے غیر معمولی زیادہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو ایسی بسوں میں سفر کرنے کے لیے سوچنا پڑرہا ہے، اور مالی دشو اریاں پیش آرہی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے آرٹی سی کی ہڑتال کوغیرواجبی اور ناجائز قرار دیتے ہوئے اڑتالیس ہزار ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے برخاست کرنے کا کچھ دن پہلے جواعلان کیا،وہ شاید ان کا یکطرفہ فیصلہ تھا، جس پر دوبارہ غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

کے سی آر صاحب کو اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ آخر کیوں ایک آرٹی سی ڈرائیور نے دو دن قتل اور خود سوزی کا فیصلہ لیا۔ یہ واقعات کے سی آر صاحب اور ٹی آرایس حکومت کے لئے مشکلات کھڑے کرسکتے ہیں۔ اور اپوزیشن پارٹیوں کوسیاسی فائدہ حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ جس کا خمیازہ ٹی آرایس پارٹی کو آنے والے وقتوں میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔ لہٰذا وزیراعلیٰ جناب کے شیکھر راؤ سے گزارش ہے کہ وہ سنجیدگی سے سوچتے ہوئے آرٹی سی کی ہڑتال کے مسئلے کا حل بلا تاخیر تلاش کریں تاکہ بس مسافرین کومزید مشکلات جھیلنے سے بچا یا جاسکے۔

جب سے آرٹی سی کی ہڑتال شروع ہوئی ہے عوام کو اپنے روزمرہ کے کاموں کے لئے بسوں کے ذریعہ جانا سوچ کر بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس خطرناک انسٹن کو کیسے عبور کرسکتے ہیں اور اپنے منزلِ مقصود پر پہنچ سکتے ہیں۔ جب ہم گھر سے نکلتے ہیں تو یہ بھی پتہ نہیں ہورہا ہے کہ آج بس ہمیں مل سکتی ہے یا نہیں یا پھر گھنٹوں کے انتظار کے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں ہم بے وقوفی نہیں کررہے ہیں چلئے آج ہم بس کے بجائے آٹو سے چلے جائیں گے جیسے ہم نے آٹو کو اشارہ دیا وہ تو ایسے لپکے کہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دینگے۔

اور ہم کو اپنے آٹو میں لے جانے کی اتنی رقم طلب کرے گے کہ ہم فوراً اپنے ارادے سے باز آجائیں ہائے! ہم آج اپنے کام سے چھٹی ہی کیوں نہ لیں لے کیا؟یاپھر اور تھوڑی دیر بس ہی کا انتظار کرلیں یہاں ہر کوئی موقع کافائدہ اٹھاتے ہیں۔ موقع کا فائدہ اٹھانے میں ہمارے لیڈر اس کام میں بڑے ماہر ہوتے ہیں۔ اگر فائدہ نہیں ہوتو مینڈک کی طرح پھدک کر پارٹی بدل دیتے ہیں۔ مینڈک کو چاندی سونے کرسی پر بھی بیٹھا دو،وہ پھدک کر کیچڑ میں ہی جائے گی۔ جوپارٹی میں شامل ہوتے ہیں تعریف کے پل باندھ دیتے ہیں، تعریف کے پل کے نیچے مطلب کی ندی بہتی ہے۔

خیر آج آرٹی سی بسوں کی ہڑتال کا مہینہ ہونے کا آرہا ہے۔ پھر بھی اس مسئلے کوئی حل نہیں ہوا19/اکتوبر کا تلنگانہ میں آرٹی سی بسوں کی ہڑتال کا فیصلہ ہونے والاتھا۔پھر بھی معاملہ جہاں کا وہی رہا۔ابھی کب تک انتظار کرنا ہوگا؟ کے سی آر صاحب اپنے فیصلے میں عوام اور بس ڈرئیوروں کی بھلائی کا کیا فیصلہ لیتے ہیں۔ تلنگانہ کی عوام کے لئے ایک شعر ملا خطہ فرمائیے۔
جگر والوں کا ڈر سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا
ہم قدم وہاں رکھتے ہیں جہاں راستہ نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!