خواتینسماجیمضامین

خواتین کی نگرانی اور خبرگیری میں کوتاہی کا مرد ہوگا ذمہ دار

مضمون نگار: سرفراز احمد ملی القاسمی

شریعت اسلامیہ نے لوگوں کو جوہدایات اورتعلیمات عطا کی ہیں اسکامقصد صرف اوریہ صرف یہ ہےکہ انسان کےاندر خوف خدا پیداہو،اور جب یہ چیز لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگی تو وہ غلط چیز،بے شرمی، بےحیائی اورعریانیت جیسی تباہ کن چیزوں سے باز رہےگا اورپھر اسکے نتیجے میں ایک ایسامعاشرہ وجود میں آئےگا جوانسانیت کی اہم اورشدید ضرورت ہے اوروقت کا تقاضہ بھی، لیکن اگرمعاشرے میں افراتفری عروج پرہو،بداخلاقی کابول بالاہو، بےحیائی، بےشرمی اورعریانیت کادوردورہ ہو، دنیاکمانے کےلئے اپنی ذمہ داریوں سےراہ فراراختیار کیاجائے،تباہی وبربادی میں روزبروز اضافہ ہورہاہو،انسانیت سسک رہی ہو، ہمدردی اورخیرخواہی کاجذبہ رفتہ رفتہ سرد پڑرہاہو،خود غرضی اورمفاد پرستی اپنی جڑیں مظبوط کرچکی ہوں توبتائیے ایسی صورتحال میں ایک پاکیزہ اورمثالی معاشرے کی تشکیل کیسے ہوگی؟

یہ تواسی وقت ممکن ہے جب آدمی ذمہ داری، اورجواب دہی کااحساس اپنے اندر پیداکرے،اچھائی اوربرائی کی تمیز کرسکے اوربرائی کوختم کرنےکےلئے اپنی طاقت کااستعمال کرسکے،اچھائی کوفروغ دینے میں اپناکردار اداکرسکے،معاشرے پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ بات بخوبی سامنے آجاتی ہے کہ سماج کی تباہی وبربادی کےجہاں بہت ساری وجوہات ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے ہرآدمی دنیاکمانے کے پیچھے پڑاہے،نہ انکو اپنے والدین،بھائی بہن، عزیز واقارب اوراہل عیال کے حقوق سے بےپرواہ اورلاتعلق کردیا حصول دنیامیں آدمی اس قدرمصروف ہے کہ دوسری اوربہت سی چیزیں انکی نظروں سے اوجھل ہیں۔

اسلام نے انسانی اور فطری بنیاد پر لوگوں کی ذمہ داریاں سپرد کی تھیں اورہرایک کےلئے حدود مقررکیاتھا، لیکن عصری اور مغربی تعلیم کی وجہ سے لوگوں کی سوچ وسمجھ میں کافی تبدیلی آگئی اورتبدیلی ایسی آئی کہ اب مرد،عورت اورعورت مرد کی ذمہ داری سمجھنے لگےاوراپنی ذمہ داریوں کویکسر بھلادیاگیا۔

جب لوگوں کے اندر اسطرح کی سوچ اور خیال پروان چڑھنے لگے تو اسکے خطرناک نتائج بھی برآمد ہونا شروع ہوگئے اوراسکانتیجہ یہ کہ آج  معاشرہ اورہماراسماج تباہی وبربادی کی دلدل میں پھنستاجارہاہے اور روزبرو اس میں اضافہ ہوتا جارہاہے، کیاہم نے کبھی ان چیزوں پرغور وفکرکرنے اورلائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش کی؟ ہرگھر میں دراڑ اورانتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے آخر کیاوجوہات ہیں اسکے؟

کیایہ سوالات غورطلب نہیں ہیں؟ کیااسکے حل کےلئے ہمیں کوئی کوشش اورسدباب نہیں کرناچاہئے؟گناہوں اورفحاشیت کو ختم کرنے کےلئے اسلام نے نکاح کانظام قائم فرمایا اور پھرازدواجی زندگی کاایک بہترین چارٹ اورفہرست مرتب فرمائی اورمردوں کو خواتین کے اوپر حاکم بنایاقرآن کریم میں ایک جگہ ہے”مرد عورتوں پر نگہبان اور منتظم ہیں”(سورہ النساء)

حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب ایک جگہ رقمطراز ہیں کہ

“بعض حضرات نے اسکا یہ ترجمہ بھی کیا ہے کہ مرد عورتوں پرحاکم ہیں”قوام”اس شخص کو کہاجاتاہے جو کسی کام کے کرنے یااسکاانتظام کرنے کا ذمہ دار ہو،گویا کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں انکے کاموں کے منتظم ہیں اورانکے حاکم ہیں،یہ ایک اصول بیان فرمادیا اسلئے کہ اصولی باتیں ذہن میں نہ ہونے کی صورت میں جتنے کام انسان کرےگا وہ غلط تصورات کے ماتحت کرے گا،لہذا مرد کے حقوق بیان کرتے ہوئے عورت کو پہلے اصولی بات سمجھادی کہ وہ مرد تمہاری زندگی کے امور کانگہبان اور منتظم ہے”

(شوہرکے حقوق)

اسی طرح ایک حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا”ان لزوجک علیک حق” کہ تم پر تمہاری ںیوی کابھی ضروری حق ہے،غور کیاجائے تو معلوم ہوگاکہ اس مختصر حدیث میں شوہر کو بیویوں کے حقوق کااجمال نقشہ دے دیاگیا،اس ارشاد گرامی میں آپ ﷺ نے نہایت جامعیت کےساتھ شوہروں کو ہدایت نامہ جاری فرمایا کہ یہ چیز ہمیشہ اور ہروقت تمہارے سامنے رہنا چاہیے،تم گھر میں ہو تب بھی،دکان میں ہو تب بھی، سفر میں، حضر میں، دوستوں کی محفل میں، دسترخوان پر،غرض تم جہاں کہیں بھی ہو،تم پر تمہاری بیوی کاحق ہے،اسکے آرام، اسکے لباس،اسکی خوراک،اسکی ضروریات اوراسکے  رہن سہن، اسکی نقل وحرکت گویاہرچیز کاخیال رکھنا اوراسکی خبرگیری کرنا،جسطرح تم سب کچھ اپنےلئے کرتےہواوراپنا خیال رکھتے ہو،اسکے حقوق کی ادائیگی میں کوئی خیانت پیغمبر اسلام کوہرگز برداشت نہیں،اسکے حقوق کی ادائیگی تمہارے فرائض میں شامل ہے۔

حجة الوداع کے موقع پر رسول اکرم ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

“عورتوں کے بارے میں خداسے ڈرتے رہناکیونکہ تم نے انکو اللہ کے عہد کے ساتھ اپنے قبضہ میں لیا ہے اوراللہ کی شریعت کے سبب ان سے نفع حاصل کرنے کے مستحق ہوئے ہو”(اکرام المسلمین)اور مفتی سلمان منصور پوری صاحب ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ”خواتین کو اللہ تعالی نے مردوں کی نگرانی میں دیدیا ہے اسلئے کہ وہ خود اپنی فطری کمزوریوں کی بنا پردنیوی انتظامات بہتر طورپر باسانی انجام نہیں دے سکتیں، اورچونکہ مرد انکا حاکم اورنگراں ہے لہذٰا خواتین پر اپنے حاکم کی اطاعت ضروری قراردی گئی ہے،جو خوشگوار ازدواجی زندگی کی بنیاد ہے عورتوں کےلئے اس بڑھکر اور کوئی سعادت نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت گذارہو”

(اسلامی معاشرت)

اسلامی تعلیمات کااگر جائزہ لیا جائے تو یہ بھی معلوم ہوگا کہ خواتین کی جملہ سرگرمیوں کامرکز گھر کی چہاردیورای ہے،قرآن کریم میں ایک جگہ ہےکہ اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ جمی بیٹھی رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگار کرکے لوگوں کی نمائش اورتوجہ کامرکز نہ بنو”(احزاب)جب کوئی عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اور خبیث لوگ اسکو جھانکتے ہیں  اسی لئے عورت بے ضرورت  تفریح کےلئے گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے،ایک حدیث میں آپ ﷺ کاارشاد ہے”عورت چھپانے کی چیز ہےجب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسکو گھورکر دیکھتا ہے”(ترمذی)

اب سوال یہ ہے کہ آخر عورت بھی توایک انسان ہے اسکو بھی گھر سے باہر جانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے،اسکے دل میں بھی گھر سے باہر نکلنے کی خواہش ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے عزیزوں اوررشتہ داروں سے ملاقات کرے،اور بعض اوقات اپنی ضرورت پوری کرنے کےلئے باہر نکلنے کی ضرورت ہوتی ہے، تو اسکاجواب یہ ہے کہ قرآن میں یہ جوکہاگیا کہ”گھر میں قرار سے رہو”اسکا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ گھرمیں لاک ڈال کر عورت کواندر بند کردیاجائے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ بلاضرورت گھر سے نہ نکلے البتہ ضرورت کے وقت وہ گھر سے باہر بھی جاسکتی ہے،اور ویسے اللہ تعالیٰ نے عورت پر کسی زمانے میں بھی روزی کمانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی، شادی سے قبل اسکی مکمل کفالت باپ کے ذمہ رکھی گئی،اور شادی بعد اسکی ساری کفالت شوہر کے ذمہ ہے،لیکن جس عورت کانہ باپ ہو،نہ شوہر ہو،اور نہ معاشی کفالت کاکوئی ذریعہ ہوظاہر ہے کہ اسکو معاشی ضرورت کےلئے گھر سے باہر جاناپڑےگا جسکی شریعت نے اجازت دی ہے،بلکہ جائز تفریح کےلئے بھی باہر جانے کی اجازت ہے۔

رسول اکرم ﷺ بعض اوقات حضرت عائشہؓ کو گھر سے باہر اپنے ساتھ لیکر جایاکرتے تھے،ایک مسئلہ جو انتہائی  تشویشناک ہے اور وہ یہ کہ شوہر کی عدم موجودگی میں غیرمحرم رشتہ داروں یعنی ایسے لوگ جن سے نکاح ہوسکتاہے کی گھر میں آنے کی ممانعت میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہوناچاہیے اس پر بہر حال نکیرہونی چاہیے اور شوہرکی عدم موجودگی میں کسی ایسے شخص کاآنا خطرہ سے خالی نہیں،جس پرخصوصی توجہ کی ضرورت ہے،اگراس پر کنٹرول نہیں کیاگیاتو یہ گھرکی بربادی کاپہلازینہ ثابت ہوتاہے،جسکو ہمارے میں معیوب نہیں سمجھاجاتا،معاشرے کو پاکیزہ بنانے کےلئے نہایت ضروری ہے کہ کوئی مرد کسی اجنبی عورت سے تنہائی میں ہرگز نہ ملے،جب کوئی مرد تنہائی میں کسی عورت سے ملتاہے تو شیطان انکو گناہ میں مبتلا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔

ترمذی کی ایک حدیث میں آپ ﷺنے ارشاد فرمایا”کوئی مرد کسی عورت سے تنہائی میں ہرگزنہ ملے ورنہ انکا تیسرا شیطان ہوگا،ایک حدیث میں تو دیورکو”موت”بتلایا گیاہے مطلب یہ ہے کہ دیور اور بھابی بھی تنہائی میں نہیں مل سکتے،دوسرےلوگوں سے اسکو زیادہ سختی سے روکناضروری ہے۔.

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتےہیں کہ رسول اکرم ﷺ نےارشاد فرمایا”تین آدمی ایسے ہیں جن پراللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کردیا ہے،ایک ہمیشہ شراب پینے والا،دوسرا والدین کانافرمان اور تیسرا دیوث جواپنے بیوی بچوں میں بےحیائی وعریانیت کو برداشت کرتاہے”(مسنداحمد)یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دیوثیت معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیل رہاہے اوریہ معاشرے کےلئے انتہائی خطرناک ہے،جس خصوصی توجہ کی ضرورت ہے،دیوث کی تعریف میں ایسے بھائی،باپ اور شوہر شامل ہیں جواپنی بہن، بیٹی اوربیوی کو نیم عریاں،فیشن زدہ لباس پہناکر مارکٹ، بازاروں اورتقاریب کی زینت بناتے ہیں۔

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ”دیوث کواس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اسکے گھرکے لوگوں سے کون لوگ مل رہےہیں اورکس طرح کےماحول میں انکاآنا جاناہے”(شعب الایمان)اتنی سخت وعید کے بعد ہرمرد کی  یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کی عورت اورخواتین کی نگرانی اور خبرگیری کرے، گھروباہر آزاد اوراکیلے نہ چھوڑےکیونکہ خواتین شیطان کے پھندے میں بہت جلدی آجاتی ہیں اور اور اپنے مکروفریب کے ذریعے شیطان بہت جلد خواتین کوقید کرلیتاہے اسلئے ایک پاکیزہ اورمثالی معاشرے کی تعمیر جووقت کی اہم ضرورت ہے اسکے بغیر نہیں ہوسکتی،اللہ ہم سبکی ان چیزوں سے حفاظت فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!