سیاسیمضامینمہاراشٹرا

"21/اکتوبر مہاراشٹرا کے مسلمانوں کے سیاسی شعور امتحان”

محمد خالد داروگر، سانتاکروز، ممبئی

21/اکتوبر بروز پیر کو مہاراشٹرا اور ہریانہ میں اسمبلی کے انتخابات ہونے جارہے ہیں اور یہ انتخابات بڑے اہمیت کے حامل ہیں اور خاص طور پر ریاست مہاراشٹرا جہاں مسلمانوں کی خاطر خواہ اچھی خاصی تعداد ہے۔ مہاراشٹرا کے 40/اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹ اگر تقسیم نہ ہوں اور مسلمان صد فیصد ووٹنگ کریں تو مسلمان اپنی پسند کا نمائندہ منتخب کرسکتے ہیں۔ مسلم اکثریتی حلقوں سے کئی کئی مسلم امیدوار میدان میں ہیں اور ہر ایک دعوا ہے کہ اس کی جیت یقینی ہے۔

الیکشن سے قبل یہ لوگ مسلمانوں کو متحد ہونے کا مشورہ دیا کرتے تھے اور حال یہ ہے کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد اپنے ذاتی و مالی مفاد کی منتشر ہوکر رہ گئے۔ اب ایسے مخلص مسلم رہنماؤں اور دینی جماعتوں کا کام ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کریں اور اجتماعی طور پر کسی ایسے امیدوار کا انتخاب کرنے کی طرف نشاندہی کریں جو فرقہ پرست پارٹیوں کو شکست فاش دے سکے۔

ہمارے ملک میں جمہوری نظام حکومت ہے جہاں ووٹ اور الیکشن کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور جمہوری نظام حکومت میں ایک ایک ووٹ بڑا قیمتی ہوتا ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں بندوں کو تولنے کے بجائے بندوں کو گنا جاتا ہے۔ جو قوم گنتی میں زیادہ ہوگی اور وہ جس کو چاہے گی وہی حاکم ہوگا یا پھر عوام پر حکومت کرے گا۔ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے اور اپنے ووٹنگ کے حق کو موثر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔

یہ الیکشن ہماری ریاست مہاراشٹر کے لیے بہت اہم ہے اور یہاں پر ایسی سیاسی قوتیں سرگرم عمل ہیں اور دن بدن مضبوط ہوتی جارہی ہیں جو اس ملک کے جمہوری نظام حکومت کے تانے بانے کو بکھیر دینا چاہتی ہے۔ جن کا مقصد مسلمانوں کو سیاسی اعتبار سے بالکل بے وزن کردینا ہے۔ جو ملک میں ہندوتوا کی حکمرانی کے ذریعے مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا چاہتی ہیں۔ جہاں نہ ان کے حقوق ہوں اور نہ ہی اختیارات، طلاق ثلاثہ بل کی منظوری سے ان کے عزائم پوری طرح واضح ہوچکے ہیں۔ اگر انہیں مزید قوت و طاقت ملی تو یہ یکساں (کومن) سول کوڈ کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے اور شریعت پر جو تھوڑا بہت عمل کے مواقع ہمیں حاصل ہیں اس کو بھی ختم کردینے کی پوری کوشش کریں گے۔

این آر سی کو پورے ملک میں لاگو کرنے کا مقصد بھی مسلمانوں کو حیران و پریشان کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور اس کے ذریعے سے مودی حکومت مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا چاہتی ہے اور پھر اس کے بعد مسلمانوں کو جمہوری حقوق سے محروم کرکے ان کے حق رائے دہی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ ان حالات میں یہ الیکشن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم میں سے ہر فرد کو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارا ووٹ لازماً ڈالا جائے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ایک ووٹ سے کیا آخر کیا حاصل ہوگا۔ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے۔ ایک ایک ووٹ مل کر ہی ہزاروں لاکھوں ووٹ میں تبدیل ہوتے ہیں۔

موجودہ انتخابی نظام میں بہت سے امیدوار جند سو ووٹوں یا پھر صرف چند ووٹ کے فرق سے ہار جیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ ووٹ نہ ڈالنا یا پھر ووٹ کا صحیح استعمال نہ کرنا ایک ملی جرم ہے۔ جس پر ہم مواخذہ سے نہیں بچ سکتے ہیں۔ اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر ڈالیں اور کسی ایسی پارٹی کو ہرگز ووٹ نہ دیں جو کھلم کھلا مسلم دشمنی کا اظہار کرتی ہو اور مسلمانوں کے درپے آزار رہتی ہو۔

الیکشن میں صحیح امیدوار کی تلاش کوئی بہت زیادہ مشکل کام نہیں ہے اگر ہمارے اندر سیاسی شعور کی بیداری ہے اور حالات واقعات پر گہری نظر ہے تو یہ کام ہمارے لیے بہت آسان ہے۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح نمائندے کی تلاش کے بارے میں”تفہیمات پنجم”میں بہترین مثال پیش کرتے ہوئے لکھا ہے جو جمہوری نظام حکومت اور انتخابی سیاست کے بارے میں نہیں لیکن اس مثال سے ہم موجودہ حالات میں رہنمائی ضرور حاصل کرسکتے ہیں۔

مولانا نے لکھا ہے کہ”کیا فی الواقع لوگ یہ نہیں جانتے کہ سوسائٹی میں جھوٹے اور حرام خوری کرنے والے لوگ کون ہیں اور سچے اور دیانتدار کون ہیں؟ اگر لوگ مرض کا علاج کرانے کے لیے یہ جان سکتے ہیں کہ فلاں ڈاکٹر اچھا ہے، مقدمہ لڑنے کے لیے یہ جان سکتے ہیں کہ فلاں وکیل قابل ہے اور خرید وفروخت کرنے کے لیے یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ فلاں تاجر بھروسے کے لائق ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ یہی بات نہ جان سکیں کہ اسلامی نظام زندگی کی تعمیر کے لیے ان کے درمیان کون سے لوگ ایسے ہیں جن پر بھروسہ کیا جائے!”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!