ادبی دنیانثر

اِدارہٴ ادبِ اسلامی ہند کی جنوبی ہند کانفرنس

رپورتاژ: محمد یوسف عبدالرحیم بیدری

(پہلی قسط)

کہاجاتاہے کہ سفر سے تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔(کیاواقعی ہوتی ہیں تبدیلیاں؟) سفر کرنے سے وہ اپنے ہم قافیہ ظفر کاوسیلہ بن جاتاہے۔(اس وسیلہ پر کون کتنا بھروسہ کرے؟) لیکن میرا حال یہ ہے کہ سفر کے نام سے بدک جاتاہوں۔ ایک وحشت سی چلی آتی ہے جسم وجاں میں۔

بہمنی سلاطین کا 150سال پایہ تخت رہ چکامحمد آبادبیدرشریف (اب صر ف بیدر)، کچھ اس قدر کشش اپنے اندر رکھتاہے کہ یہاں سے کہیں اور جانے کے ذکرکے ساتھ ہی جان پر بن آتی ہے۔مجھے پتہ ہے لوگوں کوایسی باتوں پر یقین نہیں آتا، لیکن یہ ایک ناقابل یقین سچائی ہے۔ بیدر سے اگر کوئی کہیں اور جانا چاہتاہے تو وہ مدینہ منورہ کاسفر ہے جس کو ڈاکٹر انجم شکیل احمد جیسے شاعر نے اختیار کرلیااور کامیاب ہوگئے۔ ہرکوئی ڈاکٹر انجم شکیل احمد تو ہو نہیں سکتا۔ باوجود خواہش رکھنے کے علامہ اقبال کی طرح ہم لوگ حرمین شریفین کا سفر کرنہیں پاتے اور یہیں رہ جاتے ہیں۔ ہزار ہا لوگ اسی حنائی سرزمین میں اپنی خواہش ِ حرم کی دید کے ساتھ مدفون ہیں۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بیدر سے حیدرآباد فرخندہ بنیاد کا سفر اہلیان ضلع بیدر کے رگ رگ میں رچابسا ہے۔ اب تو ان کے Menuمیں شامل ہوچکاہے۔ بریانی کھانے کازمانہ گزرگیا۔ اب مندی کھانے حیدرآباد کے چاؤش علاقے بارکس جانا کچھ خوشحال نوجوانوں اور سیاست دانوں کامحبوب مشغلہ بن چکاہے۔ رات کاکھانا بارکس اور دیگر ہوٹلوں میں کھاکر فجرتک بیدر واپس پہنچنا ایک فیشن سابنتاجارہاہے۔ کل تک ظہیرآبادکے ڈھابوں پر کھانا کھانے والے بیدریوں نے حیدرآباد کو اپنا”فوڈ کورٹ“ بنالیاہے۔

بہرحال ہم نے بادلِ ناخواستہ حیدرآباد جانے کاقصد کیا اور کمرکس لی۔اِ دارہئ ادبِ اسلامی ہند کی دوروزہ جنوبی ہند کانفرنس حیدرآباد میں رکھی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں شریک ہونا تھا۔ چونکہ اس سے قبل بنگلور کے اجلاس میں شریک نہیں ہوسکاتھا۔ حیدرآباد کی کانفرنس میں بھی شرکت نہ ہوتی تو دل کے شیشے میں بال آتے دیرنہیں لگ سکتی تھی۔ کچھ یہی سوچ کر عازم سفر ہوا۔ ادارہ ئادبِ اسلامی ہند تلنگانہ کے صدر جناب وسیم احمد کاوطن ظہیرآباد ہے۔ میں نے نوجوان صحافی جناب محمد نصیرالدین کوفون کرکے دریافت کیاکہ وسیم احمد صاحب قبلہ حیدرآباد میں ہیں یا ظہیرآباد میں؟ انھوں نے دریافت کرکے بتایاکہ وہ ظہیرآباد ہی میں ہیں اور 28ستمبر کی صبح 6بجے ظہیرآباد سے ادارہ ئ ادب ِ اسلامی ہند کی جنوبی ہند کانفرنس میں شرکت کے لئے حیدرآباد جائیں گے۔ میں نے وسیم احمد صاحب کو فون کیاتو انھوں نے ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

نمازِ فجر گھر میں اداکرکے میں اپنے فرزند محمد ابوبکر کے ساتھ نئی کمان پہنچا اور بس کا انتظارکرنے لگا۔ بس کے آنے میں تاخیر ہورہی تھی۔ میں نے وسیم احمد صاحب کو فون کرکے بتایاکہ بس کے آنے میں تاخیر ہورہی ہے۔انھوں نے تسلی بخش جواب دیا اور کہاکہ میں بس اسٹائنڈ پر آپ کا انتظار کروں گا۔ کچھ دیر بعد کرناٹک کی”لال بس“ آئی تو جان میں جان آئی کہ وسیم احمد صاحب کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ جس وقت ہماری ”لال بس“ ظہیرآباد کے ڈھابے پہنچ کر ناشتہ کے لئے رک گئی اور میں نے انہیں فون کرکے بتایاکہ ڈھابے پر رک گئی ہے بس تو انھوں نے کہاکہ آدھا گھنٹہ برباد ہونے والا ہے۔ میں نے کہاکہ ایسا نہیں ہوگا۔ بس تاخیر سے آئی ہے اسلئے ڈرائیوربھی جلدی میں نظر آرہاہے۔ میری بات پر وہ مطمئن ہوئے یانہیں لیکن 14منٹ بعد ڈرائیور ڈھابے سے بس نکال کر ظہیرآباد کے بس اسٹائنڈ کی طرف دوڑانے لگا۔ جس وقت ظہیرآباد کے بس اسٹائنڈ کو بس پہنچی۔ کافی ہجوم حیدرآباد جانے کے لئے بس پر ٹوٹ پڑا۔ چونکہ میں نے سیٹ سنبھال رکھی تھی اور انھوں نے بتایاتھاکہ ساتھ میں نواسہ بھی ہے، تو تین آدمیوں کی ایک سیٹ ہمارے لئے کافی ہوگئی۔

وسیم احمد صاحب جس وقت بس میں بیٹھ گئے، غیر مطمئن لگ رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایاکہ رات میں سو نہیں سکا۔ بیٹے کی بیماری نے آنکھ لگنے نہ دی۔ چونکہ جنوبی ہند کانفرنس کی نشست اول کی ذمہ داری مجھ پر ہے، اسلئے کانفرنس جارہاہوں۔ ذمہ دار ی نہ ہوتی تو کانفرنس سے چھٹی لے لیتا۔ واقعی نوجوانی نعمت ہے، اس حوالے سے کہ اللہ تعالیٰ بہت سے امور سے بے فکری عطاکردیتاہے۔ بوڑھاپے میں خود بڑھاپے کے علاوہ بچوں کی ذمہ داریاں پاؤں ہی نہیں سوچ میں تک زنجیرسی ڈال کر آدمی کو جکڑ لیتی ہیں۔ تازہ ہواکاکوئی جھونکا نعمت بن کرچلاآتاہے تو جینے میں لطف آتاہے ورنہ یہی سوچ غالب کہ چلو چلتے ہیں، دوسری دنیا کی سیر کے لئے۔اِس دنیا سے جی بھر گیاہے۔ کچھ دیرتک خاموشی رہی۔ وہ بار بار اپنے قریب الشباب نواسے کو کچھ ہدایات دے رہے تھے۔ نواسے کو بذریعہ طیارہ خلیج کے کسی ملک جاناتھا۔ اور ان کاکام یہ تھاکہ وہ حیدرآباد میں واقع نواسے کے چچا کے گھراس کوپہنچادیں۔

سفر کے دوران مولوی محمدفہیم الدین کا ذکر خیرنکلا تو میں نے کہا”بیدر والوں سے مولوی فہیم الدین کی بابت پوچھاجاتاہے اور ظہیرآباد والوں سے وسیم احمد کی بابت پوچھاجاتاہے کہ شکتی بریڈ والے وسیم احمد کیسے ہیں؟“وسیم احمد صاحب نے مسکراکر کہا”شکتی بریڈ کے کام کو ختم ہوئے عرصہ گزرا۔ لیکن شکتی بریڈ نے کافی عزت دی،پہچان دی۔
(………جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!