قانون سے بالاتر کوئی نہیں: یہ اسلامی تصور ہے۔
محمد خالد داروگر، سانتاکروز، ممبئی
سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما سوامی چنمیانند پر جنسی استحصال اور عصمت دری کا سنگین الزام لگانے والی 23/سالہ قانون کی متاثرہ طالبہ کی جانب سے خود کشی کی دھمکی کے بعد معاملے کی جانچ کررہی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) نے سوامی چنمیانند کو شاہجہاں پور میں واقع”دیویہ دھام”سے گرفتار کرلیا اور انہیں سی جی ایم کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سے انہیں 14/دن کی عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا گیا۔
گرفتار ہوتے ہی سوامی چنمیانند نے اقبال جرم کیا اور اپنا گناہ قبول کرتے ہوئے ویڈیوز میں خود کے ہونے کی بات قبول کی ہے۔ ساتھ ہی اپنی اس بد عملی پر شرمندگی کا اظہار کیا اور معافی بھی مانگنے لگے۔ یعنی یہ بلکل صاف ہوگیا تھا کہ سوامی چنمیانند پر ایل ایل ایم قانون کی متاثرہ طالبہ نے جنسی استحصال اور عصمت دری کے جو الزامات عائد کئے وہ بالکل صحیح تھے۔
اس کے باوجود بھی ان پر عصمت دری کا کیس درج نہیں کیا گیا ہے۔ جیل کا نام سنتے ہی سوامی چنمیانند کی حالت بگڑ گئی، سینے میں درد کی شکایت پیدا ہوگئی اور شوگر بھی بڑھ گیا پھر کیا تھا انہیں پی جی آئی کے کارڈیولوجی ڈپارٹمنٹ کے انٹینسیو کیئر یونٹ میں رکھا گیا ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ ان کی صحت کا بلیٹن بھی جاری کیا جائے گا۔
اقبال جرم کرنے والے مجرم سوامی چنمیانند کو وی آئی پی سہولیات دی جارہی ہے۔ سوامی چنمیانند عدالتی تحویل کے دن جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں بلکہ اسپتال کے اے سی روم میں ڈاکٹروں کی نگرانی میں گزار رہے ہیں۔ یہاں سے سوامی چنمیانند اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے کیس کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی سے ان کے قریبی تعلقات ہیں اور پھر دہلی میں بھی ان ہی کی سرکار ہے اور وزیر اعظم مودی ان ہی کا سرغنہ ہے اور وزیر داخلہ امیت شاہ ان ہی کے قبیل کا آدمی ہے۔
بالآخر جس کا خدشہ تھا وہی ہوا اور پانچ دنوں کے بعد سوامی چنمیانند پر جنسی استحصال اور عصمت دری کا الزام لگانے والی قانون کی متاثرہ طالبہ کو ہی ایس آئی ٹی نے بلیک میلنگ کے الزام میں اس کو اس کے گھر سے گرفتار کرلیا۔ اس کے بعد ایس آئی ٹی متاثرہ طالبہ کو اے سی جی ایم کورٹ میں پیش کیا جہاں اسے 14/دن کے عدالتی حراست میں جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ پورے ملک میں موضوع بحث بننے والے اس کیس میں متاثرہ طالبہ کی ہی گرفتاری سے یوپی حکومت اور اس معاملے کی تفتیش کرنے والی ایس آئی ٹی پر چہار جانب سے سوال اٹھ رہے ہیں۔
متاثرہ طالبہ کے والد اور بھائی نے ایس آئی ٹی کی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سوامی چنمیانند کو بچانے کی کوششیں پہلے دن سے شروع ہو گئی تھی اور یہ گرفتاری اس کا واضح ثبوت ہے۔ سوامی چنمیانند بی جے پی کے لیڈر ہیں اور سابق مرکزی وزیر بھی رہ چکے ہیں نیز آشرم بھی چلاتے ہیں۔ ریاست اترپردیش اور مرکز دونوں جگہ بی جے پی کی حکومت ہے اور اس کا پورا پورا فائدہ سوامی چنمیانند کو مل رہا ہے۔ حکومتی عملہ پولیس اور عدلیہ سوامی چنمیانند کے دائیں اور بائیں جانب مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دوسری جانب متاثرہ طالبہ تنہا پڑ گئی ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کے پاس اثر و رسوخ، طاقت اور اقتدار ہے انصاف اسی کے ساتھ ہوگا چاہے وہ کتنا ہی بڑا مجرم ہی کیوں نہ ہو اور جو کمزور ہے چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ اس کے لیے انصاف نہیں قید و بند کی سزا ہے۔
انسانوں کے ہاتھوں کے بنائے قوانین کھبی بھی انصاف کا تقاضا پورا کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ قانون بنانے کا حق صرف اور صرف انسانوں کے پیدا کرنے والے خالق ومالک کو حاصل ہے اور اسی کا قانون انصاف کے تقاضے کو پورا کرسکتا ہے اور اسی خالق ومالک نے دنیا میں عدل و قسط قائم کرنے کے لیے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور اس کی آخری کڑی خاتم النبیین حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ان پر قرآن مجید نازل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ نے لوگوں کے سامنے دین اسلام کو پیش کیا جو دین فطرت ہے۔ اسلامی نظام حکومت میں کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے اور یہی اس کا خاصہ ہے۔
اس کی بہترین مثال عہد نبوی میں بنی مخزوم کے خاندان کی ایک معزز خاتون فاطمہ بنت الاسود کا واقعہ ہے۔ اسلام میں چوری کی سزا یہ ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے چاہے وہ امیر ہو یا غریب، سن 8/ہجری میں بنی مخزوم کے خاندان کی ایک معزز خاتون فاطمہ بنت الاسود نے زیور چوری کیے۔ یہ ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے سابق شوہر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی بھتیجی ہیں۔ خاندان میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی کہ اب اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ان کا خیال تھا کہ شاید حد معاف ہوسکتی ہے یا فدیہ ادا کرکے اس سے بچاؤ کی صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
لیکن سوال تو یہ تھا کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کون کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب کی وجہ سے اس مقصد کے لیے کوئی شخص آمادہ نہ ہوسکا۔ آخر ان کی نگاہ انتخاب اسامہ رضی اللہ عنہ پر پڑی، ان کے والد زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا”اے اللہ میں اسامہ سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔”
بالاآخر وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فاطمہ کے لیے سفارش کریں کہ وہ اس کا ہاتھ نہ کاٹیں اور معاف فرمادیں یا ہم سے 40/اوقیہ فدیہ لے لیں۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کیا تو سفارش کرتا ہے کہ میں اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں میں سے ایک حد کو نافذ نہ کروں؟”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر تقریر کی،
فرمایا:- لوگوں! تم سے پہلے امتوں کی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ جب معزز آدمی نے چوری کی تو اسے چھوڑ دیا (سزا نہ دی) اور جب کمزور آدمی نے چوری کی تو اس پر حد قائم کردی اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے چوری کی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ (بخاری و مسلم کتاب الحدود) پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا کیونکہ اسلامی قانون میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔
اسلامی قانون عدل و انصاف کا بےلاگ پیمانہ ہے۔ یہ غریب اور امیر میں کسی قسم کا امتیاز قائم نہیں کرتا۔ مجرم چاہے اونچے خاندان کا چشم و چراغ ہو یا دولت مند اور حاکم اعلیٰ کا فرزند ہی کیوں نہ ہو۔ اسلامی ریاست کا بے لاگ قانون اس پر بھی نافذ ہوکر رہتا ہے مجرم کی سزا نہ تو سفارش ٹال سکتی ہے اور نہ کسی قسم کا اثر و رسوخ، قانون اور مجرم کے درمیان حائل ہوسکتا ہے۔
اسلام کے قوانین عدل و قسط پر مشتمل ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں بڑے پیمانے پر متعارف کرانا چاہیے۔ مودی کے برسراقتدار میں آنے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے اور یہ کام منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا ہے۔ نفرت کے اس ماحول کو برادران وطن میں دعوت دین کے حقیقی پیغام کو ان کی اپنی زبان میں پہنچا کر دور کیا جاسکتا ہے۔
حال ہی میں ہندوستان کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے چینئی میں منعقدہ ایک تقریب میں کہا کہ”ہمارے پاس ایسے مبلغین موجود ہوں جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ پورے سماج کو بھی اسلام کی صحیح تعلیمات اور اس کی حقیقی معلومات فراہم کریں۔
آرمی چیف جنرل بپن راوت نے یہ بات کس پس منظر میں کہی اس سے قطعہ نظر ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ سامنے سے ہم سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیمات کو ہندوستانی سماج میں پہنچایا جائے۔
قرآن مجید نے ہمارا (امت مسلمہ) مقصد وجود ہی یہ بتایا ہے کہ”تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی اصلاح) کے لئے پیدا کیا گیا ہے، تم نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔”(سورہ آل عمران آیت نمبر 110) اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ اس اہم ترین کرنے کے کام کو ہم نے سرے سے بھلا دیا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم اس ملک میں مسلسل پریشانیوں سے دو چار ہورہے ہیں۔