نبی کریم ﷺ: د نیا کے سب سے عظیم معلم
میر اقبال علی، بسوا کلیان
نبی کریم ﷺ کی حیات مبار کہ قیام تک انسانیت کے لئے پیشوائی ورہنمائی کا نمونہ ہے۔ قرا ن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ترجمہ ”تحقیق تمہار ے لئے رسول اللہ کی رندگی میں بہترین نمونہ ہے“ زندگی کے جملہ پہلون کی طرح
معلم کی حیثیت سے بھی نبی اکرم کی ذات اقدس ایک منفر اور بے مثل مقام رکھتی ہے۔ نبوت اور تعلیم و تربیت آپس میں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی لئے آپ نے اپنے منصب سے متعلق ارشادفرمایا ہے۔ ترجمہ:”بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں“ یہ وہ معلم تھے جن کی تعلیم و تدریس نےصحرا کے بدو ں کو پورے عالم کی قیادت کے لئے ایسے شا ندار اوصاف اور اعلیٰ اخلاق سے مزین کیا جس کی مثال تاریخ انسانیت میں کہیں نہیں ملتی۔تمام بھلائیاں بھی اس میں پوشیدہ ہیں۔
آپ ایک مثالی معلم تھے۔ آپ کی تعلیم وتربیت کردار، قول و فعل میں ہم آہنگی راست بازی تحمل وبرداشت ایثار عدل استقامت اور ان جیسی بے شمار خوبیوں نے کفر و جہالت کی گھٹاٹوپ اندھیروں میں اسلام کی شمع روشن کی۔ آج کے معلمین اور اساتذہ اکرام کو بھی چاہئے کہ وہ آپ کے اوصاف کو اپناتے ہوئے اپنے معلمانہ پیشے کو باخوبی ادا کرسکتے ہیں اور لوگوں کی رہنمائی اور بھلائی کا فریضہ بہترین طریقہ سے سر انجام دے سکتے ہیں۔
چودہ سوسال پہپے عرب کے قبائل معاشرے میں عمر کے چالیس برس گزارنے والے امی(غیر پڑھے) فرد کے قلب پر وحی کا نزول ہوتا ہے اور وہ رہتی دنیا کیلئے معلم اعظم بن جاتے ہیں۔ آپﷺ نوید مسیحا اوع دعائے خلیل ہیں۔ ابراہیمؑ،بیت اللہ کی دیواریں اٹھاتے ہوئے دعا کرتے ہیں
’’اے رب ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیے جو انھیں تیری آیات سنائے،ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوار دے‘‘ البقرہ ۱۲۹
لفظ اقرا سے نبوت کا آغاز ہوا۔ آپﷺ کی ذات تمام انسانوں کےلئے نمونہ قرار پائی۔ آپﷺ نے ’’انما بعث معلما‘‘ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے، کے ذریعہ اپنا مقام واضع کردیا۔
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور ایک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
تہذیب وتمدن سے عاری انسانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ صبر آزماکام تھا۔مگر آپﷺ نے تعلیم کے جواصول، تکنیک استعمال کیے وہ آج بھی عین حق ہیں۔ جن کے بنا سکھانے کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ آپﷺ بحثیت معلم عمل پیرا ہے۔
موثر ابلاغ کی مہارت آپﷺ میں بدرجہ کمال موجود تھی۔ آپﷺ کی گفتگو اول سے آخر تک نہایت صاف ہوتی، کلام جامع فرماتے تھے جس کے الفاظ مختصر مگر پُراثر ہوتے تھے۔ حضرت ام معبد کی روایت ہے کے آپﷺ شیریں کلام اور واضع بیان تھے۔ نہ کم گو تھے اور نہ زیادہ گو تھے، آپﷺ کی گفتگو ایسی تھی کے جیسے موتی کے دانے پرودیے گئے ہوں۔ حضرت عائشہ کی روایت کےمطابق آپﷺ کے کلمات میں فضاحت وبلا غت جھلکتی تھی۔ آپﷺ تبلیغ کی حکمت سے مالامال تھے۔ اگر کوئی آپﷺ کے الفاظ شمار کرنا چاہتا تو کرسکتا۔ آپﷺ کی گفتگو عام لوگوں کی طرح جلدی جلدی نہیں ہوتی بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے مضمون سے ممتاز ہوتا تھا۔ پاس بیٹھنے والے اچھی طرح سے ذہین نشین کرلیتے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کے آپﷺ بعض مرتبہ کلام کو حسب ضرورت تین تین بار دہراتے تاکہ مخاطیبین آپﷺ کے الفاظ کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جس بات کا تفصیل سے کرنا تہذیب سے گراہوا ہوتا تو اس کو حضورﷺ کنایہ میں بیان کرتے بات کرتے وقت آپﷺ مسکراتے اور نہایت خندہ پیشانی سے گفتگو فرماتے۔
آپﷺ کا فرمان تھا: ’’آسانیاں بہم پہنچائو مشکلات میں نہ ڈالو‘‘ آپﷺ صحابہ کی کسی مجلس میں تشریف لاتےہی تعلیم کا آغاز نہیں کردیتے بلکہ جو گفتگو چل رہی ہوتی اس میں شامل ہوجاتے یاان کی توجہ مبزول کراتے پھر تعلیم کا سلسلہ شروع کرتے۔اصول آمادگی کو مد نظر رکھتے لیکچر یا خطبے کاطریقہ اختیار کرتے وقت آپﷺ بہت لمبے لیکچر نہیں دیا کرتے تھے۔ طلبہ سے سوال و جواب کیا کرتے تھے،تاکہ سامعین کی توجہ برقرار ہے بلکہ کبھی کبھی آغاز ہی سوال جواب سے کرتے تھے۔
سبق کودلچسپ بنانے کےلیے آپﷺ قصے،کہانیوں بھی سنایا کرتے تھے۔ مظاہراتی طریقہ کی مثال آپﷺ نے دین کےاعمال مثلا وضو،نماز،حج اور اس کےمناسک وغیرہ اسی طرح سکھائے۔ مثالیں تشبیہات، وغیرہ کا استعمال بھی آپﷺ کی طریقہ تدریس میں بکثرت نظر آتا تھا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپﷺ کے انداز تعلیم و تدریس کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔