ہماری تعلیم: ہماری پہچان
حا فظہ فا ریحہ مریم بنت خواجہ سر تاج الدین بسواکلیان
اگر ایک طلب عِلم اسلامی تصوّر تعلیم کی اسپرٹ سے آشنا ہے تووہ سیکولر اداروں میں زیر تعلیم رہنے اور ”جدید“ سائنسی سماجی علوم حا صل کر نے کے با وجود بادِسموم سے اپنے آپ کومحفوظ رکھ سکتا ہے اور اپنی فیلڈ میں ایک مسلمان کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
کہا جا تا ہے کہ علم طا قت ہے، اور یہ بات کچھ غلط بھی نہیں۔اس کو اُلٹ کر دیکھے جو شخص بے علم اور بے خبر ہوتا ہے وہ اپنی حفا ظت نہیں کر پا تا،بادِ مخا لف اسے سو کھے ہوئے پتے کی طرح اڑا لے جا تی ہے،کٹی ہوئی پتنگ کی طرح۔جا نوروں کے لئے تو یہ وضع زندگی سمجھ میں آسکتی ہے لیکن اشر ف المخلو قات کے لئے جسے باری تعالیٰ نے اپنی نیابت، اپنی خلا فت اپنی عبادت سیسر فراز فرما یا ہے،یہ حیثیت سمجھ میں آنے والی نہیں۔جو چیز انسان کو جا نوروں سے الگ اور ان سے اونچا کر تی ہے وہ عقل ہے۔ عقل دوسری باتوں کے علاوہ اچھائی اوربُرائی،خیر وشر میں امتیاز کر ناسکھا تی ہے،اورعقل میں طا قت علم سے آتی ہے۔
علم نہ ہو توعقل کے آئینہ میں زنگ لگ جا ئے،کوئی شئے صا ف نظر نہ آئے، جو کچھ دکھائی دے اُلٹا سیدھا،ٹیڑھا ترچھا دکھا ئی دے۔تا ریخ بتاتی ہے کہ انسان نے جو کچھ تر قی کی ہے علم سے کی ہے۔ انسان تواس وقت بھی انسان تھا،اُس وقت بھی جیتا تھا،جب عِلم کو منتقل اور منتشر بلکہ محفوظ کر نے کے ذرائع بھی نہ تھے۔نہ کا غذتھانہ قلم تھا،نہ کتا بیں تھیں۔غور کیجئے۔۔۔
ابتداء سے اب تک انسان نے جو تر قی کی ہے وہ اس کے جسم نے نہیں کی، بلکہ اس کے ذہن نے کی ہے۔ اس کی عقل نے کی ہے اور ان دونوں نے یہ تر قی علم کی بدولت کی ہے۔
کسی ایک انسان کے لئے وہ خواہ کتنا ذہین ہو یہ ممکن نہیں کہ اپنی محدود زندگی اور محدود زاویہ نظریہ حقیقت کے ہر گوشہ کو پا جا ئے۔عقل کو ہم نے رہنما بنا لیا اور علم سیاسے پہیمچمکاتے رہے،لیکن ہماری رہبری کو تنہا عقل کا فی نہیں ہے۔عقل خودکبھی کھبی دھوکہ کھاتی ہیاور دھوکہ دے بھی دیتی ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ گاہ گاہ غرض،خوا ہش اور آرزو کی تابع فرمان بن جا تی ہے۔ کسی ایسے ہی مر حلے میں پھنس کر شاعر نے فر یا د کی تھی۔
اب کو ئی کس پہ اعتبار کرے
عقل ہے آرزوکی حلقہ بگوش
اسلام نے تعلیم پر جتنا زیادہ تو جہ دی ہے دُنیا کے کسی مذہب میں اس کی مثال نظر نہیں آتی۔ لیکن یہ تصور موجودہ مغربی نظام تعلیم سے بلکل مختلف ہے۔ پہلے تعلیم کو اعلیٰ مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا تا ہے جب کہ دوسرا اپنے طلب علموں کو اس کی مدد سے محض معا شی وما دّی جدّو جہد کے لئے تیار کرتا ہے۔ پہلا اشخاص کی زندگی کوبا مَقصد مہذّب اور سلیقہ مند بنا تاہے جب کہ دوسرا اَفراد کے مجموعے کو محض کسی مخصوص قوم کے مخصوص مفا دات کے لئے تیار کرتا ہے۔
اسلا می نظا م تعلیم توحید کے سر چشمے سے چڑ نے کی وجہ سے انسانوں کے سا منے انتہائی بلند اقدار و مقاصد رکھ کر ان کے اندر حق اور با طل کی تمیز اور اصل حقائق تک پہنچنے کی صلا حیت پیدا کرتا ہے۔اور انھیں فطری انداز میں سب سے پہلے اپنے نفس پر پھر اس وسیع کا ئنا ت پر اور پھر ان دونوں کے اصل خالق و ما لک پرغور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔
چنا نچہ قر آن کریم کی پہلی آیت کی صورت میں اسلام کی پہلا سبق ہی یہی ہء ”اقراء باسم ربک الّذی خلق٭خلق الانسان من علق ٭اقراء وربک الاکرم٭ الّذی علمّ با لقلم٭ علمّ الا نسان ما لم یعلم ٭“
یہ تصور صحیح معنوں میں کسی شخص کو انجینئر،ڈا کٹر،سائنس داں،فلسفی یا کچھ اوربنا نے سے پہلے اسے اسکے پیدا کر نے والے کا ایسامخلص بندہ بنا تاہے۔ جو اپنی فطرت وطبعیت اوراخلاق وکردار کے لحا ظ سے ایک طرف اپنے رب کا سچاوفا دار ہو تو دوسری طرف خدا کے بندوں کے لئے سر اپا خیر ثابت ہو۔ یہ تصور انہیں یہ بات کی بھی تعلیم دیتا ہے کہ ایک شخص پراسدنیا میں بحثیت انسان کیا کیا ذمہ ّداریاں عائد ہو تی ہیں اس کے حقوق واختیارات کیا ہیں؟اس کے اپنے نفس،اس کے وا لدین،اسکے احباب،اس کی قوم،اس کے دین،اور اس کے رب کے اسپرکیا حقوق ہیں؟
کافر کی یہ پہچان کہ آفا ق میں گم ہے
مومن کی پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
معلومات کی حد تک تو یہ بات ہر مسلمان جا نتا ہے کہ مسلما نوں کا مقصد ِحیات محض معا شی کیر یئر یا دو وقت کی روٹی نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔وہ یہ بھی جا نتا ہے کہ مسلمانوں کے مستقبل کا سر اآخرت سے ملا ہواہے اور وہ اپنی آخرت کا تباہ کر کے اس ملک میں بحثیت ایک قوم اپنے وجود کو با قی نہیں رکھ سکتا ایک مسلمان کے لئے بظا ہر یہ باتیں بہت ہی سیدھی اورصاف ہیں لیکن عمل کی دُنیا میں اور تعلیمی اداروں کے سیکو لر ما حول میں پہنچ کر یہ انتہائی پیچیدہ مسائل کی شکل اختیا ر کر لیتی ہیں،اس لئے کہ یہ سیکو لر ادارے ان کے لئے ایک ایسی خا ردارجھا ڑی ہیں جن کے درمیان سے انھیں گذر نا بھی ہے اور اپنے جیب ودامن کو بھی چاک ہونے سے محفوظ رکھنا ہے۔
یہ مسائل پیچیدہ ضرور ہیں لیکن جو طلبہ اپنے دین پر مکمّل ایمان رکھتے ہوں اور اپنے تمام مشکلات ومسائل کو اسی کے دا ئرے میں حَل کرنا چاہتے ہوں ان کے لئے یہ مسا ئل مشکل ترین ہو نے کے باوجود لَا ینحل نہیں ہیں۔اَصل سوال اخلا ص نیت اور مخلصا نہ سَعی و کوشش کا ہے۔قا نون قدرت یہی ہے کہ ایک شخص وہی پاتا ہے جو وہ کرتا ہے اور وہی کا ٹتا ہے جو وہ بو تا ہے۔
قر آن کریم بھی مسلما نوں کواسی بات کی تذکیر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حا لت اس وقت تک نہیں بدلتا جن تک کہ وہ خوداپنے آپ کونہ بَد لے۔ اپنی شنا خت باقی رکھنے کے لئے اپنی یونیورسٹیوں،کا لجوں اور اسکولوں کے غیر اسلامی نظام کے نقصانات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں نیز مختلف میدان میں اپنا معاشی مستقبل یا آج کی زیادہ معروف اصطلاح میں اپنے کیر یئر کوتعمیر کریں۔
ارشاد نبوی ہے کہ:جوشخص حصول ِعلم کے لئے کو ئی مسافت طے کرتاہے،اللہ تعا لیٰ اسکے لیے جنّت کی راہ آسان کردے گا اور فرشتے طلب علم کی خوشی کے لئے اپنے بازوبچھا تے ہیں اورعالم کے لئے آسمانوں اور زمین کے رہنے والے یہاں تک کہ مچھلیاں بھی مغفر تکیدعا کرتی ہیں اورعالم کی فضیلت عا بدپرایسی ہے جیسے چو دھویں رات کے چاندکی فضیلت با قی سب تاروں پر۔
ترقیوں کی دوڑ میں زور اس کا چل گیا
بنا کے اپنا را ستہ جوبھیڑ سے نکل گیا