مظلوم موت۔۔۔ کیاامت کا وجود ظلم اور ظالموں کا خاتمہ نہیں!
آصف انظار ندوی
“ظالم بن کر جینے سے اچھامظلوم بن کر مر جانا ہے”
اس جملے میں نہ گرامر کی خرابی ہے نہ ہی فلسفے کی
محاورۂ زبان میں ایسی بیسیوں ترکیبیں مستعمل ہیں
بس جملے کی واحد اور قاتل خرابی ٹائمنگ کی خرابی ہے۔
امت بدحواسی میں ہے،ماب لنچنگ کے متعدد واقعات، طلاق ثلاثہ کے علاوہ شناختی اور دہشت گردی کے روک تھام کا بل پاس ہوچکا ہے ان تینوں بلوں کا راست نشانہ مسلمان ہے۔
ہر طرف مایوسی کی ایک بسیط اور سہمی ہوئی سوگوار فضا ہے ایسے وقتوں میں عزم وہمت کے خوابیدہ جذبوں کو جگانے کے لئے رزم گاہ حق و باطل کے لازوال جوشیلے نغموں اور جوانمردی وجانسپاری کے قصوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں حوصلے بڑھانے کے وقت میں بزدلی کی تعلیم دی جارہی ہے اور ان کو دی جارہی ہےجو ظالم قطعاً نہیں ہیں۔۔۔
اگر یہ جملے ظالموں کے مجمعے میں کہے جاتے “کلمۃ حق عندسلطان جائر” کی مثال ہوتے اور کچھ خرابی نہ تھی کہ ظالموں کو ظلم سے رکنے کی ترغیب ہوتی مگر یہ جملہ ڈرے ہوئے مظلوموں کو مخاطب کر کے کہا جارہا ہے مطلب ہمت بالکل نہ دکھائیں چپ چاپ مر جائیں
جب کہ یہ امت ظلم اور ظالموں کو ختم کرنے کے لیے خاص طور پر بھیجی گئی ہے۔
مسلمان ظالم نہیں ہوسکتا
اور جان بوجھ کر اپنے ارادے سے مظلوم بن جانا تو ذلت کی انتہا اور رسوائی رسول اعظم ہے۔۔ مرنا اگر طے لگنے لگے تو۔۔۔۔مظلوم بن کر مرنے سے اچھا ہے کہ عزم و حوصلے سے مرے
حالانکہ مظلومی میں بھی عزت کی موت وہ ہوتی ہے جو سولی پر چڑھے خبیب ابن عدی کی تھی۔۔۔۔
وذلك في ذات الإله وإن يشأ
يبارك على أوصال شلو ممزع
فلست ابالی حین اقتل مسلما
علی ای جنب کان فی اللہ مصرعی
یہ جو کچھ ہو رہا ہے خدا کی محبت میں اگر وہ چاہے تو
ان کٹے ٹکڑوں پر برکت نازل کرے
اگرمسلمان رہ کر میں ماراجاؤں تو مجھے غم نہیں کہ کسی پہلو پر خدا کی راہ میں میں پچھاڑاجاتا ہوں