تازہ خبریںخبریںقومی

جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعداہم سیاسی لیڈران کا ردعمل، کس نے کیا کہا!

جموں و کشمیر سے متعلق جو بھی فیصلے گزشتہ 24 گھنٹے میں کیے گئے ہیں، اس سے پورا ملک حیران و ششدر ہے۔ ایک افرا تفری تفری کا ماحول برپا ہے۔ ایک طرف تو جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹا دیا گیا ہے اور دوسری طرف جموں و کشمیر سے لداخ کو الگ کر دیا گیا ہے۔ ایک بڑا فیصلہ یہ بھی ہوا ہے کہ جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری یعنی مرکز کے ماتحت ریاست کا درجہ دیا گیا ہے جہاں اس کی اپنی اسمبلی ہوگی جب کہ لداخ کو صرف مرکز کے ماتحت ریاست کا درجہ ملے گا اور وہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔

مودی حکومت کے ذریعہ کیے گئے ان فیصلوں سے جموں و کشمیر میں ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا ہے اور کئی سیاسی لیڈر اس فیصلے کو مضر اور خطرناک ٹھہرا رہے ہیں۔ خصوصاً جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے کچھ لیڈروں نے تو آج کے دن کو ہندوستانی جمہوریت کی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ اہم سیاسی لیڈران نے جموں و کشمیر کے تعلق سے کیے گئے مودی حکومت کے فیصلوں پر کیا رد عمل ظاہر کیا…

محبوبہ مفتی:

مرکزی حکومت کے ذریعہ جموں و کشمیر سے دفعہ 370(1) کے علاوہ دفعہ 370 کے سبھی شقوں کو ختم کرنے کی تجویز کا پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے مخالفت کی ہے۔ محبوبہ مفتی نے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے ہندوستانی جمہوریت کی تاریخ کا ایک یومِ سیاہ بتایا ہے۔

غلام نبی آزاد:

راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے 370 کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی اختیار دیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ملک کے کئی لیڈروں نے اس کے لیے قربانی دی تھی۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ آئین کے خلاف ہے۔ بی جے پی نے آئین کا قتل کیا ہے۔ جس آئین نے جموں و کشمیر دیا ہے، اسی آئی کا مودی حکومت نے قتل کر دیا ہے۔‘‘

شرد پوار:

این سی پی سربراہ شرد پوار نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے حکومت ہند کو چاہیے تھا کہ پہلے وہ وادی کے لیڈروں کو اپنے بھروسے میں لیتے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ بھروسے میں لینے کے بعد ہی حکومت کو جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹانے کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔‘‘

عمر عبداللہ:

نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ جموں و کشمیر سے متعلق کیے فیصلوں کو پوری طرح غلط ٹھہرا رہے ہیں۔ وہ پہلے سے ہی اس بات کو لے کر پریشان تھے کہ ریاست میں بڑی تعداد میں فوج تعینات کی جا رہی ہے اور کچھ بڑے فیصلے مودی حکومت لے سکتی ہے جو کہ خطرناک ہوں گے۔ پیر کے روز دفعہ 370 ہٹائے جانے کی خبر کے بعد انھوں نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کا فیصلہ درست نہیں ہے۔ اس کے بہت خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘

کے سی تیاگی:

بی جے پی کی معاون پارٹی جنتا دل یو نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹانے کی مخالفت کی ہے۔ جنتا دل یو لیڈر کے سی تیاگی نے اس سلسلے میں اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے سربراہ نتیش کمار جے پی نارائن، رام منوہر لوہیا اور جارج فرنانڈیز کی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس لیے ہماری پارٹی آج راجیہ سبھا میں لائے گئے بل کی حمایت نہیں کر رہی ہے۔ ہماری الگ سوچ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دفعہ 370 کو ختم نہ کیا جائے۔‘‘

ستیش چندر مشرا:

جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کی بی ایس پی نے حمایت کی ہے۔ پارٹی رکن پارلیمنٹ ستیش چندر مشرا نے مودی حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئےر اجیہ سبھا میں کہا کہ ’’ہماری پارٹی اس فیصلے کی پوری طرح حمایت کرتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بل پاس ہو۔ ہماری پارٹی دفعہ 370 بل اور دیگر بل کی کوئی مخالفت نہیں کر رہی ہے۔‘‘

ایم کے اسٹالن:

ڈی ایم کے سربراہ ایم کے اسٹالن نے بھی جموں و کشمیر سے متعلق مودی حکومت کے کیے گئے فیصلوں کی مخالفت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’جموں و کشمیر کے لوگوں سے مشورہ کیے بغیر دفعہ 370 کو ہٹا دیا گیا۔ یہ جمہوریت کا قتل ہے۔‘‘

سولی سوراب جی:

سابق اٹارنی جنرل سولی سوراب جی نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ختم کرنے کے معاملے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ فیصلہ کوئی انقلابی فیصلہ ہے۔ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!