سماجیمضامین

ٹرپل طلاق بل کی مذمت کے ساتھ ایک نئے لائحہ عمل کی ضرورت

خان مبشرہ فردوس، اورنگ آباد

ٹرپل طلاق بل کی منظوری کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ مجموعی اعتبار سے حکومت کے سامنے صرف مسلم ایجنڈا ہے ۔۔مسلم پرسنل لا پر حملہ ہے ۔۔انصاف اور جمہوریت اور اسکے اصول سے حکومت کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔
مورخ ھندوستان کی تاریخ میں ایک ایسی منافرت پھیلانے والی اور جمہوری ساکھ کو کمزور کرنے والی حکومت کی تاریخ بھی رقم کرے گا اور ھندی مسلمانوں کا امن پسند کردار بھی لکھے گا۔

ایک جمہوری حکومتِ وقت کے اتنی بڑی آبادی اور ان گنت مسائل کے مقابل ، بے شمار ترقیاتی کاموں کے بجائے ایک اقلیت اور اسکے پرسنل قوانین کا دل وذہن پر چھاجانا اور مستقل حکومت کو بے قرار رکھنا،، یہی ایک بہت بڑی نشانی ہے عقل رکھنے والوں کے لیے۔۔۔

کبھی دعوتِی فکر نے بے چین رکھا تو گھر واپسی کا شاخسانہ تو کبھی ٹرپل طلاق کے حوالے سے تو کبھی تعدد ازدواج،، بابری مسجد سے لیکر اذان،، اور روڈ پر نماز ۔۔وغیرہ کو نشانے پر رکھ کر پچھلے پانچ سالہ میقاتی ایجنڈے سے لیکر اب تک طلاق منظوری بل تک جو بات ہمارے سمجھ میں آئی ہے وہ یہی ہے کہ
اور حکومت کے اعصاب پر مسلمان چھائے ہوئے ہیں۔۔۔۔یہ بات اس پہلو سے بہت اچھے اور اسلام اور شرعی قوانین کے حق میں نہایت بہترین ہے ۔۔۔کہ

تاریخ شاہد ہے مخالف ماحول میں ہی اسلام کو نفاذ کے اعتبار سے عروج ملا ہے ،، اور سخت مصائب نے امت مسلمہ کو تپ کر کندن بننے کا موقع عطا کیا۔

اب ھندوستان کا بچہ کیا بڑا مسلم اور کیا غیر مسلم بڑے ہوکر اس بل کی اسٹڈی کرے گا، اور تمام قوانین کے بالمقابل اسلامی عالی قوانین پر نظر ثانی کرے گا تو ان قوانین کی حقانیت پر دل ہی دل میں ایمان لائے گا
اور ہم نہ صرف جانتے ہیں بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے انسانی طبیعت پر شرعی قوانین کا راس آنا لازم ہے۔

مطالعہ کرنے والے جاننے والے کہ جب گہرائی سے مطالعہ کریں گے یہ بھی جان لیں گے کہ کتنی باتیں احکام تھیں اور کتنی چیزیں بدعت کی شکل اختیار کرلی گئی تھیں

آج باطل قوتوں کا حملہ ہمیں برا نظر آرہا ہے لیکن یہ تو سمندر کے ٹھہرے ہوئے پانی ارتعاش پیدا کرکے ایک طوفان عظیم کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے

وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ” ممکن ہے جو چیز تمہیں بری نظر آتی ہے ہوسکتا ہے کہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور عین ممکن ہے کہ جو چیز تمیں بہتر نظر آتی ہو تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے”
اور بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ۔۔؟؟

اسلام کو بدنام کرنے کی اس کوشش کو مغربی دنیا دیکھ چکی ہے ان شاء اللہ اس کے ثمرات ھندوستان میں بھی دیکھنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
بلکہ ہم ان سازشوں کو پرسنل پر حملے کی ایک طرف مذمت کریں کہ ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں وہیں ہم اس کو مزید ٹھہرے ہوئے سمندر میں پتھر مار کر ارتعاش پیدا کرنے کی صورت کو دیکھیں کہ جو نہ جانتے تھے وہ بھی مائل بہ کرم ہیں۔

اب ہم اپنے لیے اپنی ذات، اپنے گھروں کی چہار دیواری کے لیے اچھا، سا لائحہ عمل ترتیب دیں ۔
اس بات پر غور کریں ہماری زندگی میں نافذ قوانین ہماری ذاتی وضع کردہ نہیں ہیں ۔۔۔ہماری جنگ اپنی قوانین کی بقا کی نہیں ہے ہمارا ایمان ہے کہ یہ قوانین شریعت اس رب کائنات کی جانب سے ہے جو خالقِ کائنات ہے جس نے انسانوں کو بنایا وہ انسانوں کے مزاج سے واقف ہے وہ اپنی مخلوق کی فطرت سے واقف ہے سو بس اسی کے وضع کردہ قوانین کبھی غلط نہیں ہوسکتے۔

تب ہم کیوں اس بات سے نالاں ہوں کہ باطل قوتوں کا نہج کیا ہے ۔۔۔؟؟

اور کیوں یہ سمجھیں کہ وہ اسے مٹا سکتے ہیں ۔۔۔؟؟
اور کیوں ہم ان کو مٹانے میں کامیاب ہوتے دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔؟؟
انکی نسلیں بشمول ہماری نسلیں پورے شعور کے ساتھ پڑھ کر ان قوانین کی حقانیت کی گواہ بنیں گی ان شاء اللہ۔
اب ہم ان قوتوں کے ارداے سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔

امت مسلمہ کے باشعور تعلیم یافتہ اکابرین
امت مسلمہ کے لیے ایک نیا لائحہ عمل مرتب کریں
اسلامی شرعی قوانین کو امت میں نافذ کرنے کے لیے ذاتی تگ ودو کی جانب قدم بڑھائیں۔
اسکے نفوذ کی نئی اور جدید راہوں پر ہم غور کریں ۔
ایک اسٹیج سے ہم مسلم امت کے نوجوانوں کے لیے پری میرج اور پوسٹ میرج ٹرینگ کا نصاب ترتیب دیں
دور رس نگاہ رکھنے والے اکابرین اس نصاب میں ہر اس جہت پر کام کریں جس سے فیمیلی میں عموما انتشار پھیلتا ہے۔

میاں بیوی میں کمپیٹیبلٹی کے لیے صحت منت طرزِ زندگی کے لیے باقاعدہ ٹرینگ کورسیسز عام کریں ۔
نکاح کو آسان کرنے سے لے کے گھر کے نظام کو بہترین بناکر بہتر نسلیں تربیت دینے کی جانب ہر فرد ذمہ دارانہ قدم بڑھائے، اس نصاب کو اسی طرح امت مسلمہ کا فریضہ بنادیں جس طرح حج سے پہلے حج ٹرینگ کورس کو لازم جگا جاتا ہے ۔

مزید ترویج کے لیے سوشل میڈیا پر ملک کے مختلف زبانوں میں سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا میں عام کریں۔
افہام و تفہیم سینٹرز کا قیام، مساجد میں دی جانے والی تعلیم میں روحانی پہلو پر خوب توجہ دی جائے۔

دیگر تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنا ذاتی مشن بنالیں کہ وہ اس شعور کو امت میں پیدا کرے گی ہمیں اس ملک اپنے گھروں کی چہار دیواری ہی میں نسلوں کے ایمان کی بقا کی کوشش کرنی ہے ۔گھروں میں شریعت کی تعلیم اور بچوں میں لللہیت، خدا ترسی، خدا خوفی،، دینی و ملی و فکری شعور،، اور اللہ کے پیغام کو عملی کردار کے ساتھ پیش کرنے کی اب واضح ذمہ داری اب گھروں کی چہار دیواری کی ذمہ داری بن چکی ہے ۔

آپ چاہیں غلط سمجھیں لیکن تجدید شریعت کے لیے اس سے بہترین وقت شاید امت نہ پاسکے۔ ہم دفاعی و نزاعی پوزیشن میں چیختے رہنے کے بجائے سوشل میڈیا پر ۔۔ایک ہیلتھی سٹرانگ،، مضبوط نظامِ فکر کے ساتھ عملا اتر آئیں۔

مثال سے سمجھیں ۔۔
لفظ” طلاق ” حکومت کے پاس آیا کہاں سے اسلام سے اسلامی شریعت سے اس لفظ نے برساہا برس سے سناتھن مذہب پر کاری ضرب لگائی ہے۔

انسانوں کے وہ وضع کردہ سناتھنی قوانین جہاں مرد کو عورت پر تصرف کی اتنی آزادی دنیا چاہتے تھے کہ عورت مرد کی غلام رہے اور غلامی کا طوق، اسے اپنے شوہر کی موت کے بعدبھی آزادی دینا نہیں چاہتا تھا۔

لیکن آہستہ آہستہ جب مسلمانوں کے درمیان رہ کر لفظ طلاق ” سے واقف ہوئے طلاق کی موجودگی اسلامی شریعت میں ناگزیر حالات میں انسان جان کو عاجز آکر قتل کرنے کے جرم سے بچنے کے لیے تھی ۔۔۔اسلام کے علاوہ طلاق ھندوازم میں اسکا تصور بھی نہیں تھا لیکن اس قانون نے ازخود لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا
تو سب جانتے ہیں آج طلاق ھندوستان میں مسلمان نہیں غیر مسلم بھی طلاق کے ذریعہ علحیدگی اختیار کرتے ہیں۔ اسی لیے تو، حکومت نے لفظ طلاق سے زیادہ ٹرپل کا لاحق، استعمال کرکے اسکو اسلامی شریعت پر نقب کی صورت استعمال کیا ۔

وہیں اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ھندوستان میں برساہا برس کی ھندوستان میں دیگر اقوام کے ساتھ رفاقت نے ہمیں بھی فضول رسم و رواج سے متاثر کیا ہے اور اسکی واضح مثال مسلمانوں کا شرعی قوانین کے علاوہ فضولیات میں الجھ جانا یا مادہ پرست فکر کا حا۔مل ہوجانا ہے۔

ہمارے امتِ مسلمہ کی اصلاح کا بہترین موقع اس سے بہتر نہیں۔ سوچیں کہ ہم شادی سے پہلے تربیت کا نصاب اسلامی احکامات کی روشنی میں ملک کی مختلف زبانوں میں پیش کریں ۔۔۔آسان نکاح،، اور نکاح کے واضح مقاصد کے ساتھ ہوں ہم اپنے سادگی سے کی گئی شادیوں کی ترویج، کے ساتھ ہم میاں بیوی کے حقوق اور ۔۔۔مستحکم خاندان کے لیے میاں بیوی دونوں کے تصور کو بدلنے کی ضرورت خاندان میں پرورش پانے والی کارآمد نسل کا نمونہ پیش کرنے لگیں بلکہ زبانِ زد عام کریں تو ملک کا وہ طبقہ جو خواتین کو حیثیت اور حقوق دینے کے نام پر جو استحصال اور محرومی عملا روا رکھتا ہے اس کے بالمقابل اسلامی احکامات کی ان تک رسائی ۔۔۔۔ہمارے کاز میں اپنے مقصد وجود کی تگ ودو کی راہ میں ایک عمدہ اقدام ثابت ہوسکتی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!