مذہبیمضامین

سوال کرنا ضروری ہے!

ابوفہد

فرشتوں نے سوال کیا اور ابلیس نے انکار کیا، فرشتے اللہ کی نظر میں بدستور محبوب رہے اور ابلیس اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث راندۂ درگاہ ٹہرا۔فرشتوں کا سوال یا توصورت حال سے آگاہی حاصل کرنےکے لئے تھا، یا پھر ممکنہ خدشے کا اظہار کرنے کے لیے تھا۔فرشتوں کے سوال میں کہیں سے کہیں تک بھی، انانیت، ضد، مخالفت یا انکار جیسا کوئی بھی عنصرشامل نہیں تھا۔ وہ سیدھے سیدھے ایک سوال تھا،جس میں ممکنہ خدشات کا عنصر غالب تھا۔جب اللہ نے تخلیق آدم علیہ السلام کے منصوبے کو ان کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا:
أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ (البقرہ)
’’ کیا آپ زمین پر ایسی مخلوق کو بسانے جارہے ہیں جو وہاں فساد پھیلائے گی اور خونریزی کرے گی؟‘‘

یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ تخلیق آدم کے اپنے ارادے کو فرشتوں کے سامنے بیان فرمارہاہے۔ ان فرشتوں کے سامنےجن کی اللہ کے مقابل کوئی نسبت نہیں بنتی، ایک پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں بنتی، پھر بھی اللہ تخلیق آدم کے اپنے منصوبے کو فرشتوں کے سامنے رکھ رہا ہے۔ اور ظاہر ہی سی بات ہے کہ زمین کو آباد کرنے کے عظیم منصوبے کی بنیادی بات فرشتوں کے سامنے رکھنااس لیے نہیں تھا کہ اللہ کو فرشتوں کی تائید چاہیے تھی ،مشورہ چاہیے تھا یا ان کی رائے یا تبصرہ چاہیے تھا، بلکہ یہ فرشتوں کی تعلیم کے لیے تھا اور اس لئے تھا کہ اہل عرش کو اپنے منصوبے سے آگاہ رکھنا تھا ۔یہ اپنے آپ میں کتنی بڑی بات ہے۔ اورپھر اسی بات کا اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا کہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کریں، صحابہ کرام کی عظمت اپنی جگہ مگر حضورﷺ کے مقابل تو ان کی کوئی عظمت نہیں ، پھر بھی اللہ نے فرمایا : وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ (آل عمران۔ 159) اور اپنے ساتھیوں سے اپنے اہم کاموں میں مشورہ لیتے رہا کریں۔

سوال کرنا ضروری ہے، لیکن سوال اپنی تعلیم کے لئے ہونا چاہیےیا معاشرتی تعمیر کے لیے ہونا چاہیے، یعنی کسی اچھی بات کو عام کرنے کے لیے اور کسی برائی کو مٹانے کی غرض سے۔ ہماری جو نئی جنریشن ہے اسے اپنے بڑوں سے، اپنی قیادت سے سوال ضرور کرنا چاہیےاور کبھی بھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ بڑے ہیں اور ہم چھوٹے ہیں، اگر ہم سوال کریں گے تو اس سے بڑوں کی توہین ہوگی۔ فی نفسہ سوال میں توہین کا کوئی بھی عنصر شامل نہیں ہوتا البتہ سوال کرنے والی کی ذہنیت اور فکر سوال کو مکروہ بناتی ہے۔ اگر سوال کی بنیاد آزمائش یا تعصب ہے تو سوال بنیادی طور پر زہریلا ہے۔

یوں تو رسول اللہﷺ سے یہودو نصاریٰ اور کفار ومشرکین کی طرف سے جو سوال کئے جاتے تھے وہ اسی نوعیت کے تھے، یا تو متعصبانہ ذہنیت کے حامل تھے یا پھر حضورﷺ کی آزمائش کے لیے تھے۔ قرآن و حدیث ایسے سوالات کے جوابات سے بھرے پڑے ہیں، اس لحاظ سے اگر ہم قرآنی بیانیے کی توضیح کریں تو قرآنی بیانیہ دراصل جوابی بیانیہ ہی ہے، البتہ اس کی پیش کش تعلیمی اور فنی بنیادوں پر استوار ہے، یعنی ان سوالات کے جوابات جب اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے عنایت کیے گیے تو ان کے پس پردہ محض جواب دینا مقصود نہ تھا بلکہ انسان کی تعلیم پیش نظر تھی۔اس طرح اس جوابی بیانیےکے کئی پہلو ہوگیے ۔ ایک تو یہ سوال کا جواب ہوئے ، دوسرے خاص کر مسلمانوں اور عموما ساری دنیا کے انسانوں کے لیے ایک تاریخی ریکار ڈ کی حیثیت حاصل کرگئےاور تیسرے یہ تعلیم کا بڑا ذریعہ بن گئے۔

اس سے یہ نتیجہ نکالنا شاید درست ٹہرے کہ سوال خواہ کتنا بھی زہریلا کیوں نہ ہو اور مسئول کو چڑھانے کے لیے ہی کیوں نا ہو، لیکن جواب دینے والے کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے جواب کا زاویہ ٔقائمہ درست کرلے، وہ جواب ایک شخص کو نہ دے ، جواب پوری قوم کو دیا جانا چاہیے بلکہ پوری انسانیت کو ، اس وقت تو خاص طور پر، جب سوال اجتماعی اور قومی و ملی بنیاد وں پر قائم ہو۔

ہمارے قائدین خواہ علم وعمل اور عزت وجاہ کے اعتبار سے کتنے بھی بڑے اور عظیم کیوں نہ ہوں اور سوال کرنے والے طالب علم، علم وعمل کے اعتبار سے اور اپنی معاشرتی پوزیشن اور حیثیت کے اعتبار سے خواہ کتنے بھی چھوٹے کیوں نہ ہوں، انہیں سوال ضرور کرنا چاہیے۔ کیونکہ فرشتوں نے بھی صبح ازل اللہ رب العزت سے سوال کیا تھا۔اوراللہ اور فرشتوں کے درمیان کیا نسبت؟ ایک پرکاہ کی بھی نسبت نہیں۔ توہمارے قائدین اور ہمارے درمیان خواہ کتنی بھی بلندی کیوں نہ ہو اورعظمت وبے وقعتی کے لحاظ سے خواہ کتنا بھی فاصلہ کیوں نہ ہو ،اتنا فاصلہ تو بہر نہیں ہوسکتا جتنا فاصلہ ذات باری تعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان ہے۔ پھر بھی فرشتوں نے سوال کیا ؟ وہ صرف گردن ہلاکر تو نہیں رہ گئے، انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔نہیں تو وہ بھی کہہ سکتے تھے ’ جیسی تیری مرضی ‘۔اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے محض اپنے رحم وکرم کی بنیاد پر ان کے سوال کا جواب دیا ، بلکہ اس پہلو کو پریکٹکل کرکے بھی دکھایا کہ جو اللہ جانتا ہے وہ فرشتے نہیں جان سکتے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کروایا۔شاید یہ بات فرشتوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں رہی ہوگی کہ کوئی ایسی مخلوق بھی ہوسکتی ہے جو ان صلاحیتوں کی حامل ہوجن کا مظاہر ہ حضرت آدم ؑ نے فرشتوں کے روبرو کیا۔

فرشتوں کا سوال دائرہ ادب میں تھا اور خود ان کی تعلیم کے لیے تھا۔ اور اللہ رب العزت کا جواب فرشتوں اور پھر ان کے حوالے سے پوری نوع انسانی کی تعلیم کے لیے تھا۔ اس جواب میں کئے پہلو ہیں، اس میں انسان کی عظمت بھی آگئی اور اس کی تعلیم بھی ،اس میں تخلیق انسانی کی وجہ ِتخلیق بھی آگئی اور کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ بھی اٹھ گیا۔ ایک حد تک ہی سہی۔دیکھئے ایک سوال نے کتنے دروازے کھولے، اسی لئے سوال کو نصف علم کہا جاتا ہے۔ اورپھر قرآن بھی تو انسانی ذہن کے بہت سے سوالوں کا جوابی بیانیہ ہی ہے۔زیادہ تر سوالات اہل کتاب کی طرف سے ہیں اور ان سوالا ت سے ان کی منشاء تعلیم ہرگز نہیں تھی بلکہ نبی ﷺ کے دعوائے نبوت کو جانچنا پرکھنا تھا اور نبیﷺ کو جھٹلانے اور جھوٹا ثابت کرنے کے لئےحیلہ پکڑنا تھا ۔ اس وقت کے اہل کتاب رسول اللہ ﷺ سے سوال پوچھتے تھے اور آپ ﷺ کو وحی کے ذریعے ان کا جواب عطا کیا جاتا تھا۔ اسی طرح احادیث شریف کا بھی خاصہ ذخیرہ سوال وجواب پر مبنی ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سوال پوچھا کرتے تھے اور آپ ﷺ کمال محبت اور کمال علم کے ساتھ جوابات عنایت فرمایا کرتے تھے۔ بیشک صحابہ کرام بہت بار ’ اللہ ورسولہ اعلم‘ بھی کہا کرتے تھے ، مگر یہ اس لیے نہیں تھا کہ وہ سوال کو برا جانتے تھے یا نبیﷺ کے سامنے اپنی بات رکھنا ادب کے خلاف تصور کرتے تھے بلکہ یہ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ بے شک اللہ اور اس کے رسولﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ اور اس لیے بھی تھا کہ وہ زبان نبو ت سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہونا چاہتے تھے۔

اس لیے ہر آدمی ، چاہے وہ طالب علم ہو اور چاہے استاد ہو، اپنے آس پاس کے لوگوں سے اور خاص کر بڑوں سے سوالات ضرور کرے، بلکہ جب بات امت کے مفاد کی ہو، قیادت کی بے عملی کی ہو تب تو سوال کرنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اسلام میں جو قوم کا سربراہ ہے وہ کوئی ظل الٰہی ٹائپ کی چیز نہیں ہے، نہ ہی وہ ہٹلر اور آج کی اصطلاح میں وزیر اعظم ہے کہ ان کے سامنے زبان نہیں کھولی جاسکتی، بلکہ قوم کا سربراہ بننے کے بعد اس کی حیثیت قوم کے خادم کی ہوجاتی ہے۔ حضرات صحابہ میں سے جب کوئی خلیفہ بنایا جاتا تو وہ یہاں تک بھی فرماتے تھے کہ اگر میں سیدھا چلوں یعنی قرآن وسنت کے مطابق چلوں تو میری اطاعت کرو اور جب میں ٹیڑھا چلوں یعنی قرآن وسنت کے خلاف چلوں تو مجھے سیدھا کردو۔ سیدھاکرنے کا مطلب یہ تھا کہ ان کی غلطی ان پر واضح کی جائے۔ اگر وہ مان لیں تو فبہا ،نہیں تو انہیں معزول کردیا جائے۔ اسلام میں عوام کو اتنی طاقت دی گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!