ہاں میں الہان عبداللہ عمر ہوں۔۔۔!
نازش ہما قاسمی
جی الہان عمر ، صومالی نژاد امریکی مسلم خاتون،اعلیٰ تعلیم یافتہ، بیچلر آف پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل اسٹڈی ، ایڈوکیٹ، نسل پرستی کے خلاف آواز اُٹھانے والی، گوروں کو کالوں سے نفرت کرنے پر گھیرنے والی، ہمیشہ باحجاب رہنے والی، رکن کانگریس، آرگنائزر، بہترین پالیسی ساز، تجزیہ کار، عوام کےدکھوں کو سمجھنے والی، تارکین وطن کا حوصلہ، نڈر، بے باک، حوصلہ مند، جرات مند، اسلام پسند، سعودی کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنے والی، اسرائیل کے خلاف بولنے والی، فلسطینیوں کی حامی، ٹرمپ سے لوہا لینے والی الہان عمر ہوں۔
میری پیدائش ۴؍اکتوبر۱۹۸۲ کو صومالیہ کے موغادیشو شہر میں ہوئی؛ لیکن بچپن بیدوا میں گزرا، میں سات بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہوں۔ میرے والد کا نام نور عمر محمد ہے جو کہ تعلیم وتعلم سے وابستہ تھے، اور والدہ کا نام فدوما ابوبکر حاجی حسین ہے جو کہ یمنی النسل تھیں۔میرے پہلے شوہر کا نام احمد نور علمی ہے جس سے ۲۰۱۷ میں طلاق ہوگئی۔ موجودہ شوہر کا نام احمد عبدی سلان حرسی ہے۔ میرے تین بچے ہیں۔ میرا ماضی انتہائی کسمپرسی اور ہجرتوں میں گزرا ہے۔ میں دو سال کی عمر میں ہی والدہ کے سایہ شجر دار سے محروم ہوگئی، میرے والد اور میرے دادا نے میری پرورش وپرداخت کی۔
۱۹۹۱ میں صومالیہ میں خانہ جنگی شروع ہوگئی میرے اہل خانہ نے وہاں سے ہجرت کرکے کینیا کے رفیوجی کیمپ میں پناہ لی ۔ پھر ۱۹۹۲ میں میرا خاندان نیویارک پہنچا ۱۹۹۵ میں میرے خاندان کو امریکہ کے ایرلنگن ورجنیا میں پناہ گزیں کا درجہ حاصل ہوا اور پھر ہم لوگ شہر منیہ پولس میں جاکر بس گئے۔ وہاں اہل خانہ کی پرورش کے لیے میرے والد نے ٹیکسی ڈرائیو کی اور پوسٹ آفس میں کام کیا، میرے دادا اور والد نے ہمیشہ مجھے عوامی آزادی اور جمہوریت کی تعلیم دی۔ جب میں ۱۴ سال کی ہوئی تو میں دادا کے ساتھ ان سے مشورے اور بحث وتکرار کرتی تھی، میں انتہائی شوخ وچنچل تھی، اسکول میں میرے ساتھ بدسلوکی کی جاتی تھی، کالے ہونے کی وجہ سے طعنہ دیاجاتا تھا، میرے حجاب کو لے کر مذہب کو برا بھلا کہا جاتا تھا، اسے نوچا جاتا تھا، جم کے دوران مجھ پر طنز کسے جاتے تھے، حجاب پہننے کی وجہ سے مجھے سیڑھیوں سے نیچے ڈھکیل دیاجاتا تھا؛ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری، اپنے مذہب اپنے طور طریقوں پر قائم رہی ، میرے والد مجھے حوصلہ دیا کرتے تھے ان ہی حوصلوں سے میں پروان چڑھتی رہی اورپھر ۱۷؍سال کی عمر میں سن ۲۰۰۰ میں مجھے امریکی شہریت مل گئی۔
یہاں امریکہ میں تعلیم وتربیت سے فراغت کے بعد میں نے ۲۰۰۶ سے ۲۰۰۹ تک یونیورسٹی آف منی سوٹا میں غذائی تعلیم دی۔ ۲۰۱۳ میں سیاست سے منسلک ہوئی اور عوامی خدمات کرنے لگی۔ فروری ۲۰۱۴ میں مجھ پر حملہ کیاگیا جس میں میں بچ گئی ۔ ۲۰۱۶ میں مجھے ڈیموکریٹنگ فارمر لیبر پارٹی سے ٹکٹ ملا، اور میں کامیاب ہوئی۔ اور قانون ساز بنی۔
میں نے اس وقت کہا تھا کہ ’یہ جیت اس آٹھ سالہ بچی کی ہے جو تارکین وطن کے کیمپ میں تھی‘۔ ’یہ جیت ہر اس شخص کےلیے ہے جسے خواب دیکھنے سے روکا گیا‘۔ اس درمیان مجھ پر سنگین الزامات عائد کیے گئے اور حکومت کو کثیر رقم بطورجرمانہ ادا کرنی پڑی۔ ۲۰۱۸ کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی سے حلقہ منی سوٹا سے میں کانگریس میں رکن منتخب ہوئی۔ اس انتخاب میں میں نے ۷۲ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور مخالف جو کہ ری پبلکن پارٹی کا تھا اس نے ۲۲ فیصد ووٹ ہی حاصل کرپایا تھا۔
ہاں میں وہی الہان عمر ہوں جس نے رکن منتخب ہونے کے بعد اپنی ساتھی رکن فلسطنی نزاد راشدہ طلیب کے ہمراہ امریکی پارلیمنٹ میں پہلی بار قرآن کریم پر حلف لیا تھا ۔ ہاں میں وہی الہان ہوں جس کے خلاف امریکی صدر لوگوں کو اکسا رہے ہیں مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، مجھ پر تشدد کرنے کےلیے اکسایاجارہا ہے۔ ہاں میں وہی ہوں جس نے امریکہ کی جانب سے سعودی کو اسلحہ فروخت کرنے پر گھیرا اور کہا کہ ہماری حکومت کتنی آسانی سے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے کا فیصلہ کررہی ہے حالانکہ یہ ملک یمن، سوڈان، اور لیبیا میں عام شہریوں کے قتل میں ملوث ہے۔ہاں میں وہی ہوں جس نے متحدہ عرب امارات اور سعودی حکومت کو وحشی قرار دیا ہے۔ کیوں کہ وہ ظلم کی حمایت کرتی ہیں۔
ہاں میں وہی ہوں جس نے کہا تھا کہ امریکہ میں اسرائیلی لابی ایپک امریکی سیاستدانوں کو اسرائیل کی حمایت کےلیے بھاری رشوتیں دیتی ہے‘۔ ہاں میں وہی ہوں جس کے خلاف امریکی صدر اشتعال انگیزی کرتے ہیں، جسے سلامتی کےلیے خطرہ تصور کرتے ہیں ۔ جسے قومی تعصب کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہاں میں وہی ہوں جس نے امریکی صدر کو ’فاشسٹ‘ قرار دیا انہیں فسادی کہا ہے۔ میں نے انہیں نسل پرست بھی کہا اور ان کے اس نسل پرستی کی مذمت کی ۔ میں نے اپنے حامیوں کو امریکی صدر کے نسل پرستانہ بیان پر مشورہ دیا ہے کہ وہ ’اس چارے پر منہ نہ ماریں‘ امریکی صدر کو ملک تقسیم کرنے سے زیادہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں۔ وہ سفید فام قوم پرستی کے ایجنڈے پر عمل کررہے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ صدر کو اپنے آئین کا مذاق بنانے سے روکیں۔ صدرامریکہ مجھے القاعدہ سے جوڑ کر اپنی ذہنی پستی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ نائن الیون حملے کی ویڈیو کلپس کے ساتھ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے امریکی قوم کو گمراہ کررہے ہیں اور مسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔میں نے ۲۳ مارچ ۲۰۱۹کو شہری حقوق تنظیم کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز کی ایک تقریب میں نیوزی لینڈ مسجد دہشت گردانہ حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم کافی عرصے سے دوسرے درجے کے شہری ہونے کے پریشان کن احساس کے ساتھ رہ رہے ہیں میں صرف بتا رہی ہوں کہ میں اس سے تنگ آگئی ہوں اور اس ملک کے ہرمسلمان کو تنگ ہوناچاہئے‘۔
اپنی اسی تقریر میں ’کچھ لوگوں نے کچھ کیا تھا‘ جملہ بھی استعمال کیا تھا صرف اس جملے کو اچک کر مجھے القاعدہ اور نائن الیون سے جوڑ رہے ہیں۔حالانکہ صدرامریکہ خود شام میں القاعدہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اس کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ میرے بیان میں کوئی بات غلط نہیں !
آئے دن ہمیں ہمارے مذہب کو لے کر پریشان کیاجارہا ہے جبکہ ہمارا مذہب امن وسلامتی کا مذہب ہے آئے دن ہمارے طور طریقوں اور رہن سہن کو لے کر مذاق اڑایاجارہا ہے جبکہ ہمارا طور طریقہ اور رہن سہن ہی انسانی رہن سہن ہے ۔ لیکن امریکی صدر ۲۰۲۰ کے انتخابات میں جیت حاصل کرنے کےلیے اوچھی حرکتیں کررہے ہیں میرے ساتھ میرے ملک کے سیکولر مزاج اور منصف و عادل لوگ ہیں میڈیا بھی میرا تعاون کررہا ہے اور میرے دفاع میں ہے۔ صدرامریکہ مجھے واپس بھیجنے اور امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کی تحریک چلائے ہوئے ہیں؛ لیکن میں بھی ڈرنے والی نہیں انہیں ہر جگہ ہر مواقع پر آئینہ دکھاتی رہوں گی اورایوان میں ان کے سینے پر مونگ دلتی رہوں گی۔میں ان کے لیے ایک ’ڈرائونا خواب‘ ثابت ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔