سماجیمضامین

خاموش مزاجی اب تمہیں جینے نہیں دے گی۔۔۔

چودھری عدنان علیگ

آج ہمارے اداروں کی تحقیقات ہورہی ہیں کل کو فرداً فرداً ہماری اور ہماری گھروں کی بھی تلاشی لی جاسکتی ہے اسلیے اب وقت ہے کہ دوراندیشی سے کام لیا جائے اب گھروں میں خاموشی لبوں پر سجائے بیٹھنے کا وقت نھی رہا سبھی مسلم نوجوان بوڑھے بچے جو جو جس طرح کام کرسکتے ہیں کریں ہمارے بڑے بزرگ اور دوراندیش دانشور اور باصلاحیت لوگ اپنے چھوٹوں کو راستہ بتائیں انکو طریقہِ کار بتائیں اور قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہمارے قائدین جلد از جلد اب کوئی مضبوط لائحہِ عمل تیار کریں.

اور جو جو سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں اور جو جس فیلڈ میں سرگرم ہیں وہ اپنے اپنے طور سے ہمارے ان نوجوانوں کی ذھن سازی کریں جو بالکل حالات سے بے خبر ہیں اپنے آنے والے انجام سے ناآشنا ہیں ورنہ یاد رکھو وہ دن دور نھی جب حالات اسپین کی تاریخ ہندوستان میں بھی دہرائیں گے.

ایک بات ذھن میں اتار لیں کہ جب تک ہم لوگ ملکر کچھ نھی سوچیں گے تب تک کچھ نھی ہونے والا ہے دارالعلوم دیوبند لائبریری کی تحقیق کی پسِ پردہ سازش کو کھلے دماغ سے دیکھنے کی کوشش کیجیے. سوچیے کہ اب حملہ اپنی آخری انتہا کو پہنچ رہا ہے اسلیے فردا فردا سب آگے آئیں جو تجارت کے میدان میں وہ وہاں کام کریں جو آفسیز اور کمپنیز میں ہیں وہ وہاں حالات کی سنگینی سے سب کو باخبر کرائیں اور اپنے علماء سے جڑے رہیں کیونکہ ان سے کٹ کر ہم خود بھی بہک سکتے ہیں کیونکہ ہمارے جذبات کو ضیاء ان ہی کی دلسوز باتوں سے ملتی ہے۔

اور آج کل کے کچھ لبرل اور نام نہاد لوگوں کا گھولا ہوا یہ زہر اپنے دماغوں سے نکال دیں کہ علماء کچھ نھی کررہے بس چپ چاپ بیٹھے امت کے ساتھ کھیل کررہے ہیں کیونکہ یہ وہ چشمہ ہے جو دنیا کی ناپاک اور گندی طاقتوں اور باطل طاقتوں نے ہماری آنکھوں پر لگا رکھا ہے کیونکہ انکو پتہ ہے کہ جب بھی یہ قوم جاگی ہے تو اسکے پیچھے ان ہی مردانِ مجاہدین کا ہاتھ رہا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں مدرسہ کی چہار دیواری میں رہکر گھسے پٹے ٹاٹ پر بیٹھ کر بسر کی ہیں ان ہی خدا کے فقیروں کی بدولت اتنی سازشوں کی بعد بھی یہ قوم ابھی بھی سرفراز ہے۔

ذرا آپ خود جنگِ آزادی کا جائزہ لیجیے کہ پوری قوم ساتھ تھی لیکن شروعات کس نے کی تھی انکے آگے پیچھے کون تھے علماء ہی تھے نہ تو اب ہم کیوں ان سے دور ہیں کہ اپنی تباہی کے قریب ہیں. اسلیے اپنے علماء سے جڑیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ جب تک ہم سب ملکر کچھ نھی کریں گے اور ہاتھ سے ہاتھ ملاکر آگے نھی بڑھیں گے تو تب تک کچھ نھی ہونے والا اسلیے ایک دوسرے کو ملزم ٹھرانا بند کریں۔

انجینیرس ڈاکٹرس پروفیسرس اور دیگر فیلڈ کے لوگ اب تیار ہوجائیں اپنی قوم کی خاطر اپنی آنے والی نئی نسلوں کی خاطر ورنہ یاد رکھوں اگر یہی حال رہا تو داستاں تک نہ رہیگی داستانوں میں. اور جو لوگ ہمارے میڈیا میں ہیں وہ اسکو اپنا ہتھیار بنائیں اور جو لوگ باہر ہیں وہ وہاں اپنا احتجاج درج کریں اور دیگر حکومتوں سے پریشر ڈلوانے کی کوششیں کریں کیونکہ اگر اس پھیلتی تعصب پسندی کو یوہی نظر انداز کیا جاتا رہا تو یاد رکھو جب بڑی بڑی سلطنتیں ہی نہ بچیں تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں اسلیے اب وقت ہے کہ ایک زبردست طریقے سےمحاذچھیڑا جائے جیسا کہ کالے امریکیوں نے وھائٹ سپر میسی کے خلاف امریکہ میں کیا تھا اور انکو اس میں زبردست تاریخی فتح نصیب ہوی تھی۔

بھائیو!اب وہ زمانہ نہ رہا کہ جسکے گلے میں چاہا طوق ڈالدیا اب انسانی حقوق کی پاسداری ہر ملک میں ہر جگہ کی جاتی ہے اسلیے اب نافع بنیں ایک دوسرے کے لیے فکر مند ہوجائیں. اور اپنے بہادر اور قوم کے لیے نافع علماء کے ساتھ ملکر ایک پرزور پالیسی کے تحت کوئی مضبوط لائحہِ عمل تیار کریں ذرائع ابلاغ سے کام لیا جائے اپنے جو بھی نیوز جینلس ہیں ان کا سہارا لیا جائے ورنہ یہ حملوں کا جو سلسلہ جاری ہے اگر یہ یونہی جاری رہا تو اس قوم کا نوجوان اتنا کمزور ہوجایگا کہ ایک دن جوق درجوق ہزاروں کی تعداد میں نوجوان خوف ودہشت کی وجہ سے مذہب تبدیل کرتے نظر آئیں گے اور ہم مجرم ہوں گے۔ ان کے اپنی آنے والی نسلوں کے خود کے مجرم اسلام کے مجرم اپنے اداروں کے مجرم اور یہ نظر انداز کرنا اور کسی طوفان کا انتظار کرنا بھی جرم ہے طوفان بیٹھے بٹھائے نھی آیا کرتے سوچنے سے نھی اٹھا کرتے طوفان لانے کے لیے طوفان بننا پڑتا ہے سیلاب بن کر ابھرنا پڑتا ہے اسکے بعد ہی خدا کی نصرت آتی ہے ورنہ کچھ نھی ہوتا دنیا کھیل دیکھتی ہے اور ہم تماشہ بن کر رہ جاتے ہیں..

خدا کرے کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!