دور ہمیشہ ہم ہوتے ہیں۔۔۔ اللہ وہیں ہے، جہاں پہلے تھا۔
ماخوذ: جنت کے پتے
ناول نگار: نمرہ احمد
مراسلہ نگار: ذوالقرنین احمد
تمہیں لگتا ہے حیا کہ صرف تمہاری زندگی میں مسئلے ہیں؟ باقی سب خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں؟ نہیں بچے! یہاں تو ہر شخص دکھی ہے۔ ہر ایک کا دل ٹوٹا ہوا ہے۔ سب کو کسی ”ایک” چیز کی طلب ہے۔ کسی کو مال چاہیے، کسی کو اولاد، کسی کو صحت تو کسی کو رتبہ۔ کوئی ایک محبوب شخص یا کوئی ایک محبوب چیز، بس یہی ایک مسئلہ ہے ہماری زندگی میں۔ ہم سب کو ایک شے کی تمنا ہے۔ وہی ہماری دعاوۤں کا موضوع ہوتی ہے اور وہ ہمیں نہیں مل رہی ہوتی۔ وہی چیز ہمارے آس پاس کے لوگوں کو بے حد آسانی سے مل جاتی ہے اور ہم ان پہ رشک کرتے رہ جاتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ ان لوگوں کی خاص تمنا وہ چیز ہے ہی نہیں۔ وہ تو کسی اور چیز کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ یوں ہم اس ایک شے کے لیے اتنا روتے ہیں کہ وہ ہماری زندگی پہ حاوی ہو جاتی ہے اور یہ شے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ تم مجھے ایک بات بتاوۤ، تمہاری زندگی میں بہت سے مسئلے آئے ہوں گے۔ لمحے بھر کو اپنے سارے مسئلے یاد کرو۔
”اب بتاوۤ ان مسئلوں کا کیا بنا؟”
‘میں تمہیں بتاوۤں ان مسئلوں کا کیا بنا؟ وہ مسئلے حل ہو گئے۔ سارے مسئلے ایک ایک کر کے حل ہوتے گئے مگر نئے مسئلوں نے تمہیں اتنا الجھا دیا کہ تمہارے پاس ان بھولے بسرے مسئلوں سے نکلنے پہ اللہ کا شکر ادا کرنے کا وقت ہی نہیں رہا۔”
وہ بے یقینی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ واقعی اس کے وہ سارے مسئلے حل ہو گئے تھے… اس نے کبھی سوچا ہی نہیں…
”ہر شخص کی زندگی میں ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب وہ تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے راز کھلنے والے ہوتے ہیں اور اس وقت جب وہ خوف کے کوہ طور تلے کھڑا کپکپا رہا ہوتا ہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اور اسے اپنا ایک ایک احسان یاد ہے‘ ہم بھول جاتے ہیں‘ وہ نہیں بھولتا۔ تم اپنے حل ہوئے مسئلوں کے لیے اس کا شکر ادا کیا کرو۔ جو ساری زندگی تمہارے مسئلے حل کرتا آیا ہے‘ وہ آگے بھی کر دے گا‘ تم وہی کرو جو وہ کہتا ہے‘ پھر وہ وہی کرے گا جو تم کہتی ہو ۔ پھر جن کے لئے تم روتی ہو‘ وہ تمیارے لئے روئیں گے‘ مگر تب تمہیں فرق نہیں پڑے گا۔”
"میں… میرا لائف سٹائل بہت مختلف ہے‘ میں ان چیزوں سے خود کو ریلیٹ نہیں کر پاتی ۔ لمبی لمبی نمازیں‘ تسبیحات‘ یہ سب نہیں ہوتا مجھ سے۔ میں زبان پہ آئے طنز کو نہیں روک سکتی‘ میں عائشے گل کی طرح کبھی نہیں بن سکتی۔ میں ان چیزوں سے بہت دور آگئی ہوں۔”
"دور ہمیشہ ھم آتے ہیں۔ اللہ وہیں ہے جہاں پہلے تھا۔ فاصلہ ہم پیدا کرتے ہیں اور اس کو مٹانا بھی ہمیں ہوتا ہے۔”