3-افسانچے
محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک
کالااکشردودھ جیسا
وہ ایک قلمکار تھا۔ اور اس کے لئے کالااکشر بھینس برابر نہیں تھااور نہ ہی وہ بھینس کو کوئی ناکارہ شئے سمجھتاتھا۔ گاؤں میں رہنے والے اس قلمکارکو بھینس کے تھنوں سے دودھ دوہتے دوہتے خیال آیاکہ ماں کالی کیوں نہ ہو، ماں ہوتی ہے اور رنگ جیسا بھی ہو۔آدمی جس کسی کے کام آئے وہ کام البتہ سفید ہونا چاہیے۔ دودھ کی طرح سفیداور فائدہ مند۔ اس نے اپنے اندرون میں کہیں مسرت کی کرنوں کوپھوٹتاہوا محسوس کیا۔ اور اس کے لکھے جانے والے کالے اکشروں سے دودھ کی دھاریں ٹپک رہی تھیں۔
بعدمدت کہ وہ ملامجھکو
عرصہ دراز بعد ملاقات ہوئی تھی۔ دوبچوں اور بیوی کے ساتھ مجھ سے آملاتھا، اچانک ہی۔ جیسے وہ کوئی انمول خزانہ ہواور جس تک میری رسائی ممکن نہیں تھی۔ میں نے پوچھا”کیاابھی تک اخبارمیں ہی ہو“اس کو حیرانی تھی پوچھا”کیسے پہچانا؟“میں نے کہا”بچوں کے کپڑوں سے، تین تین سوروپئے کے کپڑے پہنارکھے ہیں۔ا ور خود کی حالت بھی دیکھ لو،لگتاہے عرصہ سے دوانہیں کھارہے ہو۔ خیربھابی نے تو سہاگ رات پر ہی اپنی قسمت کو روبیٹھی تھیں۔“”ہوں ں ں…..“اس نے ایک ہنکارابھرا اور کہا”تم نہیں سمجھوگے۔ملک تقاضہ کررہاہے کہ میں صحافت میں رہوں۔سچی خبروں کے ذریعہ ملک کی عوام کو بیدار کرتارہوں۔ ورنہ یہ سیاستدان پورے ملک کو بیچ کر کھاجائیں گے۔ پھرتمہارے بچے تعلیم حاصل کر نے کے بجائے ریڑھی لگاکر کاروبار کرنے پر مجبور کردئے جائیں گے۔ تمہارے سینئرسٹیزن کو دوادارو نہیں ملے گی۔ دیہات پوری طرح طاقتور خاندانوں کے قبضے میں چلے جائیں گے اور ہم پھرایک بار پیچھے ہوجائیں گے، دنیا میں ہماراکوئی مقام ومرتبہ نہیں ہوگا“ میں نے زچ ہوکر کہا”اتنی غربت کے باوجود تمہاراٹون نہیں بدلا“ اس نے دھیمے سے کہا”اور بدلے گابھی نہیں“اور دور کسی چیز کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کالہجہ فیصلہ کن اور اٹل تھا۔
آج پھر وہ مجھے حاصل نہیں ہوسکاتھاکسی انمول خزانے کی طرح۔
یس سر
مآب لنچنگ کااحتجاجی جلوس ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے احاطہ میں داخل ہوچکاتھا۔ اور تقریریں جاری تھیں۔ اسی اثناء میں یادداشت لینے آفیسر کی آمدہوئی۔
آفیسر کے آتے ہی جلوس میں خاموشی چھاگئی۔ پھر ایک سکھ مذہبی قائد نے ملک کے حالات کو سامنے رکھ کر مختصر بات کہی۔ اس کے بعد برقعہ پوش خاتون نے نقاب لگاکر خطاب کیا۔ اس خاتون کی صرف دوآنکھیں ہی نظر آرہی تھیں۔ خطاب رلادینے والاتھا۔ وزیر اعظم کو برقعہ پوش خاتون ان کاوعدہ یاددلارہی تھیں۔ مآب لنچنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خاتون کا در د پیش کیاگیا۔ مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیاتھا۔ سبھی افسوس کررہے تھے۔ اور کئی ایک کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔
پھر میمورنڈم آفیسر کے حوالے کیاگیا۔ فوٹوگرافر صحافی نے تصاویر لیں۔ آفیسرنے اپنے دفتر کے چیمبر میں واپس جاتے ہوئے پولیس والے سے کہا ”آئندہ کوئی احتجاجی ریلی آئے تو تقاریر کے بعد مجھے بلایاکرو۔عورتوں کارونا مجھ سے دیکھانہیں جاتا“ پولیس والے نے صرف اتنا ہی کہا۔ ”یس سر“