عظیم لوگوں کی مثالی مائیں
راحیلہ چوہدری، لاہور
وہ بڑا مبارک دورتھا جب مائیں اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق کرنے کے لیے شدید بے چین و فکر مند ہوتی تھیں۔دور ِحاضر کی خواتین جتنی بھی بلند کردار ہو جائیں۔تب بھی وہ اس مقام اور بلندی کو نہیں پہنچ سکتیں جو صحابیات اور تابعات کو حاصل تھا۔لیکن یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ان بلند مرتبت خواتین کے نیک اطوار،مثالوں اور مشاہدات و واقعات کو دین کی روشنی میں نشانات راہ سمجھ کر اپنا لیا جائے۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی بھی قوم کے خیر و شر اورعروج وزوال میں ان کی خواتین کا بڑا کردار موجود رہا ہے۔آپ ماضی کی کسی بھی تہذیب کو دیکھ لیں آپ کو یہی عالم نظر آئے گا۔تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جس قوم کی مائیں اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے پورے شعور وآگہی کے ساتھ فکر محسوس کرتی ہیں وہ قوم تادیر زندہ رہتی ہیں۔اس کا ظاہری وجود اگر مٹ بھی جائے تب بھی اس کا کردار بہرحال امر رہتا ہے۔لیکن جس قوم کی خواتین اپنااصلاحی،تعمیری اور با مقصد کردار بھول جاتی ہیں،قدرت پھر اس قوم سے نہ صرف جینے کا حق بھی چین لیتی ہے۔بلکہ اپنے عروج کی بلندیوں سے گرا کر زوال کی اتھاہ گہرایوں میں پھینک دیتی ہے۔
نیک اور صالح مائیں ایک قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں جو اپنے عمل اور کردار سے اپنے گھرانوں میں ایسا انقلاب برپا کر دیتی ہیں جو صدیوں تک آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور قوموں کی تعمیر میں خاص اہمت کا حامل ہوتا ہے۔
آج سے نصف صدی قبل ہمارے معاشرے کے گھرانوں کی اکثریت بہت دین دار تھی۔تب ماؤں کی لوریاں قرآنی آیات کی تلاوت اور قرآنی مسنون اذکار و دعائیں ہوا کرتی تھیں۔جن کی آواز نمازِ فجر کے وقت سے ہی بچوں کے کانوں میں پڑنے لگتی تھیں۔وہ باتوں ہی باتوں میں اپنی اولاد کو اللہ او رسولؐ کی اطاعت،جذبہ جہاد اور شوق شہادت صداقت و خلوص اور امانت و دیانت کے وہ شیریں اور پاکیزہ درس دیتی تھیں۔جو بعد ازاں بیسیوں کتب کے مطالعے سے بھی حاصل نہ ہو پاتے ہوں۔
حضرت ثفیان ثوری ایک بہت بڑے عالم تھے۔ان کوعلم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا مگر گھر کے مالی حالات اس راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے۔حضرت اُمِ سفیان نے اس مسئلے کو اپنے جذبے سے دور کیا۔انہوں نے بیٹے کو علم حاصل کرتے رہنے کے لیے۔خود چرغہ کات کر اس کے اخراجات پورے کیے۔ایک بار انہوں نے اپنے بیٹے کو نصحیت کی:”بیٹے جب تم دس حرف لکھ چکوتو دیکھو کہ تمہاری چال ڈھال،حلم وقار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ علم نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہہنچایا۔“آپ اپنے بیٹے کو ہمیشہ ایسی نصحیتں کر کے اس کے اخلاق کو بہتر بنانے کی کوشیش کرتیں اور ان کو زندگی کے ہر شعبے میں اچھا شعار اپنانے کی ترغیب دیتیں۔یہی وجہ تھی کہ حضرت ثفیان ثوری ایک بڑے عالم بنے۔
نبیؐ نے فرمایا کہ حضرت سلیمان کی والدہ نے ان کو نصیحت کی کہ بیٹا رات بھر نہ سوتے رہا کرو۔رات کا زیادہ حصہ نیند میں گزار دینا قیامت کے دن انسان کو اچھے کا موں سے محتاج بنا دیتا ہے۔حضرت سلمان علیہ السلام نے ماں کی نصیحت گرہ میں باندھ لی پھر کبھی آپ پوری رات نہیں سوئے۔آپ رات کا ایک حصہ اللہ کی عبادت میں گزارتے تھے۔بڑے ہو ئے تو اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنا نبی بنا یا اور بادشاہت بھی دی۔اللہ نے جنوں اور ہوا کو بھی آپ کا فرماں بردار بنا دیا تھا آپ جانوروں کی بولیاں بھی سمجھ لیتے تھے۔یہ سب اللہ کا فضل تھا۔وہ جسے جو چاہے دے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر حضرت اسماء کے بیٹے تھے حضرت اسماء جو حضرت ابو بکر کی بیٹی اور حضرت زبیر کی بیوی تھیں۔حضرت اسماء نے حضرت عبداللہ کو بچپن میں ہی ایسی زبردست تربیت دی اور انہیں بہت چھوٹی عمر میں ہی اسلام کا ایک بہادر اور نڈر سپاہی بنایا۔جب حضرت عبد اللہ چار بانچ برس کے ہوئے تو خندق کی لڑائی دیکھنے بھیج دیتیں۔دور ایک ٹیلے پہ بٹھا دیتیں اور حضرت عبداللہ بن زبیر تیروں اور تلواروں کی لڑائی بچپن ہی سے دیکھتے۔بڑے ہو کر یہی عبداللہ بن زبیر ایسے بہادر ہوئے کہ اس وقت ان کے مقابلے کا دوسرا بہادر نہ تھا۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب بہت بڑی لڑائی خلیفہ عبدالملک بن مروان سے لڑنی پڑی۔اس لڑائی میں حضرت عبداللہ کی فوج بہت تھوڑی تھی۔حضرت عبداللہ نے ماں سے مشورہ کیا تو حضرت اسماء نے یہ کہہ کر جوش دلایا:
”بیٹاتم اپنی بات اچھی طرح سمجھتے ہو۔اگر اللہ کے واسطے لڑ رہے ہو اور سچائی کے طرف دار ہو تو تم کو ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔جاؤ مردوں کی طرح لڑو۔جان کا خوف نہ کرو۔عزت کے ساتھ تلوار کے زخم کھانا بدنامی کے سکھ سے ہزار درجے بہتر ہیں۔اگر تم شہید ہوگئے تو مجھے خوشی ہو گی۔اور اگر تم دنیا کا مال و دولت چاہتے ہو اور اس کے لیے لڑ رہے ہو تو تم سے برا کون ہو گا۔تم کب زندہ رہو گے۔ایک دن مرنا ہے،اس لیے اچھا یہ ہے کہ نیکی کے طرف دار ہو کر جان دو۔“
سر سید کی والدہ ایک بہت ہی نیک اور شریف عورت تھیں۔سر سید ابھی بچے تھے کہ کسی بات پر خفا ہو کر ملازم کو پیٹ دیا۔امی جان کو معلوم ہوا تو وہ بہت بگڑیں۔سر سید کو گھر سے نکال دیا۔ مارے ڈر کے وہ خالہ جان کے گھر جا چھپے۔گھر جانے کی ہمت نہ ہوئی تین دن بعد قصور معاف کروانے کے لیے خالہ جان کی سفارش لے کر آئے۔ امی جان نے کہا”جب تک ہاتھ جوڑ کریہ نوکر سے معافی نہ مانگ لے گا، میں ہر گز معاف نہ کروں گی اور نہ گھر میں رہنے دوں گی۔آخر سرسید نے نوکر سے معافی مانگی تب جاکر امی جان نے معاف کیا۔
مولانا مودودیؒ کی والدہ اماں بی رقیہ بیگم نے اپنے شوہر کے بعد 37سال بیوگی کی زندگی گزاری۔اس عرصے میں انہوں نے صبر و استقامت اور مومنانہ وقار کا عظیم الشان مظاہرہ کیا۔ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کے فاخرہ لباس سے ہمیشہ دور رہیں۔طبیعت پر قناعت کا اسقدر غلبہ تھا کہ معمولی سی چیز سے مطمئن ہو جاتی تھیں۔قرآن پاک کی تعلیم دینے کا شوق ان کو عمر بھر رہا۔یہی وجہ تھی وہ جہاں رہتیں وہیں قرآن کی تعلیم دینا شروع کردییتیں تھیں۔بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے کا سلسلہ انہوں نے ہر جگہ جاری رکھا۔ان کی قرآن سے محبت کا یہ نتیجہ تھا کہ ان کے سایہ میں پلنے والا بچہ بڑا ہو کر مولا نا سید ابو االاعلی مودودیؒ بنا اور تفہیم القرآن جیسی شاندار تفسیر لکھی جس نے بے شمار پڑھنے والے لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔
اسی طرح علامہ اقبال کی والدہ امام بی لکھنے پڑھنے سے ناواقف تھیں۔صرف نماز پڑھنا جانتی تھیں۔جسے وہ باقاعدگی سے ادا کیا کرتی تھیں۔نا خواندہ ہونے کے باوجود وہ بڑی معاملہ فہم، دور اندیش اور مدبر خاتون تھیں۔اپنے طبعی گداز اور رحم دلی کی بدولت اماں بی کسی کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتی تھیں غرباء کی امداد کرنا مگر اس انداز میں کہ کسی کو خبر نہ ہو ان کا دستور تھا۔ان کا ایک اور طریقہ کار یہ تھا کہ محلے کے غریب گھرانوں کی دس بارہ سال کی تین چار بچیوں کو اپنے ہاں لے آتیں اور ان کی کفیل بن جاتیں۔اُنہیں اُمور خانہ داری کی تعلیم دیتیں،سلائی کڑھائی سکھاتیں،پڑھنے لکھنے کے علاوہ دینی تعلیم دلواتیں۔پھر کوئی مناسب سا رشتہ دیکھ کر ان کا بیاہ کر دیتیں جتنا عرصہ وہ لڑکیاں ان کی تحویل میں رہتیں وہ ان کی دیکھ بھال بالکل اپنی بیٹیوں کی طرح کرتیں اور شادی کے بعد بھی اُ نھیں بیٹیوں کی طرح رخصت کرتیں اور شادی کے بعد بھی وہ لڑکیاں ان کے پاس اس طرح آتیں جیسے بیٹیاں میکے آتیں ہیں۔
علامہ اقبال کی والدہ ایک پاک باز عورت تھیں۔جب علامہ اقبال پیدا ہوئے تو ان کے ابا میاں کی کمائی کچھ مشتبہ تھی ان کی امی جان اس کمائی کو پورے طور پر حلال نہیں سمجھتی تھیں۔انہوں نے حلال کمائی سے بنایا ہوا زیور بیج کر ایک بکری خرید لی اور علامہ صاحب کو اپنا دودھ پلانے کے بجائے اس بکری کا دودھ اس وقت تک پلایا جب تک اقبال کے والد نے وہ پیشہ ترک کر کے نیا کاروبار شروع نہیں کر لیا۔
ان کو یہ ہر گز گوارہ نہ تھا کہ وہ بچے کو اپنا دودھ پلا کر ایسی روزی سے پا لیں جو ان کے نزدیک پورے طور پر پاک نہیں تھی۔وہ جانتی تھیں کہ ایسی روزی سے پل کر بچے میں وہ خوبیاں کبھی پیدا نہیں ہو سکتیں جو وہ اپنے بیٹے میں دیکھنا چاہتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں آج اتنا اثر موجود ہے۔اللہ اور اللہ کے رسول سے آپ کو بے حد محبت تھی۔وہ سب کا بھلا چاہتے تھے۔مسلمانوں کے لیے ان کے دل میں بہت زیادہ درد تھا۔وہ اسلام اور مسلمانوں کو سر بلند دیکھنا چاہتے تھے۔
عصرِحاضر کی ماؤں سے گزارش ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے گھروں کو سنبھالیں اور ان کو مسلم تہذیب و تمدن کے قابلِ فخر گہوارے بنا ڈالیں۔اپنے بچے کو ایک شخص نہیں ایک شخصیت بنائیں۔کل کو جب آپ کے بچے کامیاب ہو جائیں گےتو اس کے پیچھے آپ ریتی دنیا تک ایک مثالی ماں ہوں گی۔ اپنے بچوں کی بہترین پرورش پر ہی آپ کی اخروی زندگی بہتر بنے گی اور اللہ کے ہاں آپ کامیاب و کامران ہوں گی۔