سماجیمضامین

سوشل میڈیا کا صحیح استعمال: وقت کی اہم ضرورت

چودھری عدنان علیگ

سوشل میڈیا آج آپ کے ہاتھ میں مثبت عوامی ذہن سازی کا بہترین ہتھیار ہے تعلیمی وتہذیبی بیداری اخلاقی وسماجی اور معاشرتی گندگی کی اپنی حد تک صفائی کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے. لیکن اسکا سائڈ افیکٹ بھی کسی سے مخفی نھیں ہے. فل تجزیہ اور بغور مشاہدہ کے بعد یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ فیس بک انسٹرا گرام اور ٹویٹر باقی دیگر ایپس کا اثر یہ ہے کہ لوگ جتنا وقت اس پر گزارتے ہیں باقی کام کاج کو چھوڑ کر اسی دنیا میں مہنک رہتے ہیں اتنا ہی وہ خود کو سماجی طور پر لوگوں سے جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں جسکے نتیجہ میں زیادہ وقت زیادہ سے زیادہ وقت یہی گزارنے کے عادی ہوگیے ہیں اور کچھ بھی ہو باشعور ہو یا بے شعورہو بس زیادہ سے زیادہ پوسٹس کرنے کے عادی بن چکے ہیں.

اسی لیے اس سوشل نیٹورکنگ کے نتیجہ میں بتدریج سب کچھ بدلتا جارہا ہے عادات اخلاق واطوار ملنے جھلنے کے طریقیں گویاکہ یہ چیز معاشرے سے لوگوں کے تعلقات کو بدلرہی ہے اور لوگوں کے اذھان کے کام کرنے کے طریقیں بھی چینج ہوتے جارہے ہیں.

جبکہ ایک دور وہ تھا جس میں ذاتی زندگی کے تعلقات کو اہمیت دی جاتی تھی موجودہ لمحات کو قیمتی سمجھا جاتا تھا اور لوگوں کے لیے ایک دوسرے کی قربت ہی اہمیت کی حامل تھی اسی لیے تو ہمارا ماضی خوشگوار تھا ماحول میں ایک عجیب سی کشش تھی ملنساری میں محبتوں کی مہک تھی درد و تکلیف میں اپنے پن کی میٹھی سی خوشبو تھی لیکن ان سب سے جو بدلاؤ آیئے ہیں وہ سب ناقص ہیں فوری طور پر کارگر ہیں لیکن اسکی جڑیں مضبوط رشتوں کی باگ ڈور سے عاری ہیں.

موبائل ٹویٹر فیسبک واٹساپ اور اسی قبیل کے دیگر پروگرام ایسے گہرے سمندر ہیں جن میں بڑے بڑے قد آور لوگوں کے اخلاق گر کر ڈوب گیے اور جنکے اخلاق ڈوبے ہیں وہ صرف ہم جیسے نوجوان ہی نھی بلکہ کچھ اچھی خاصی عمروں والے بھی تھے اگر میں سچ کہو تو کوئی مبالغہ نھی ہوگا وہ یہ کہ جب سے سوشل میڈیا کا زمانہ آیا ہے اور واٹسپ نے اسکی نیابت بتدریج مکمل طور پر کی ہے تب سے ہی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ادھیڑ عمر کے لوگ اور بڑے بوڑھے بھی اسکا شکار ہوتے آئے ہیں بہت کم لوگ ملتے ہیں جو اسکا صحیح استعمال کرتے ہیں صرف اچھی اچھی باتیں اور موجودہ حالات پر عقابی نگاہ رکھتے ہوئے لوگوں تک صحیح چیزیں پہنچاتے ہیں ورنہ ایک بڑی تعداد اس مقصد سے بالکل خالی اور عاری دکھائی دیتی ہیں لوگوں نے سوشل میڈیا کو صرف فوٹوز کی نمائش گاہ سمجھ لیا ہے کسی تقریب کے علاوہ کہیں بھی بیٹھے ہوں کہیں بھی جارہے ہوں تصویر کلک کرکے چپکانا فیشن سمجھا جاتا ہے.

کہیں کوئی جمن آم کے درخت پر لٹکا ملتا ہے تو کوئی چھمن کھیت کی کیاریاں بھررہا ہوتا ہے کہیں کوئی بس کی سیٹ پر اپنے سے سامنے والی سیٹ پر نظریں جمائیں کسی کا تعاقب کرتا نظر آتا ہے اور اس پر شعر بھی مجنو والا چسپا کردیتا ہے کوئی تو یہاں تک گرجاتا ہے کہ سگریٹ کو ہاتھ میں لیے ہوے کھلے عام اپنے نسیڑی اور بیوڑا ہونے کا اعلان کرتا ہے کہ دیکھلو میں کسی شریف لڑکی کے لایق نھی ہوں.

حد ہے افسوس ہوتا ہے کیا کیا بتاؤں کیا نہ بتاو کبھی کسی نے نھی سوچا کہ کل کو یہ سب چیزیں جو ہم سوشل میڈیا پر اپلوڈ کررہے ہیں ہمکو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہیں سوچے بھی تو کیوں. کیونکہ اسکی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ وہ فیسبک حسیناؤں کو امپریس وایکسپریس کرنے والا کھیل کھیلتے ہیں جبکہ اس کھیل میں خود ہی پیسنجر بن جاتے ہیں.

مختصر کہو تو آج کل کی ہماری بہنیں اور بھائی لوگ سب سوشل نیٹ ورکنگ کو مزے کی جگہ بنائے ہوے ہیں تسکین کا ایک بڑا ذریعہ یہی سوشل میڈیا نظر آتی ہے. اور اس نیک کام میں شروعات تھوڑی دھیمی رہتی ہے لیکن آہستہ آہستہ رفتار بہت تیزی سے بڑھتی جاتی ہے۔

پہلے سوشل میڈیا سے گفتگو پھر سلسلہ کلام دراز ہونے کی صورت میں کال نمبر تک کا سفر بآسانی مکمل ہوجاتا ہے پھر کچھ بھیجنا کچھ دکھانا ہوتا ہے تو اس بہانے سے واٹسپ نمبر بھی مل جاتا ہے ارمان جگنے لگتے ہیں پھر اموشنلی بلیک میلنگ کا دور شروع ہوجاتا ہے اسکے بعد راتوں کو جاگناساری رات فون پر باتیں ، پہلے تجسس کی انتہا ، ہر مسیج پر دل کا دھڑکنا ،ویڈیو کال کی رنگینی کال پر لمس تک پہنچنا ہونٹوں کو چومنا ہاتھوں کو ہاتھوں میں لیکر باہوں میں سمیٹنا پھر عشق کی انتہا کو گہرائی تک پہنچ کر مکمل کرنا ہر دم ہر وقت تخیلات میں بسائے رکھنا کبھی بیڈ کی تصویر کشی کرنا تو کبھی واشروم باتھروم کا عاشقانہ سفر طے کرنا کبھی سوتے سوتے معشوقہ کو نئی نویلی دلہن بنالینا تو کبھی دماغی دریچوں میں شب زفاف کا آشیانہ آباد کرنا کبھی کڑکتی دوپہر میں ریشمی بالوں میں چھپنا تو کبھی ٹھنڈی شام میں اسکی زلفوں سے کھیلنا نیز یہ کہ یہ سلسلہ کنوارپن میں شادی سے پہلے ایک شادی کرکے بڑھاپے تک امیجنگ کرلیتا ہے.

گویاکہ اسی تھپیڑے میں پھنس کر ایک زندگی مکمل جی لی جاتی ہے اور جب کسی رنجش یا جھگڑے اور آپسی چپقلش کے باعث یا اگر لاحاصل محبتِ ہوس کسی اور کی ہوجاتی ہے تو پھر یہ دوبارہ سوشل میڈیا کی جوانی میں قدم رکھدیتا ہے (رکھدیتی ہے) وہ جب ہوتا ہے۔

جب کوئی دوسرا آئینہ کسی راہ پر ٹکراجاتا ہے تاکہ پھر اگلے سارے امڈتے ہوے اچھلے اچھلے جذبات اس میں دیکھیں جاسکیں ایک آئینہ کے پرانے یا ٹوٹنے کے بعد دوسرا آئنہ ملنے تک کا جو وسیع اور دشوارکن دائرہ ہوتا ہے وہ بڑا مشکل اور کٹھن ہوتا ہے. کیونکہ پھر وہ تصورات وتخیلات ہی گلہ گھونٹنے لگ جاتے ہیں جنکا وہ عادی ہوچکا ہوتا ہے کیونکہ ایڈکشن کبھی نھی بدلتی ہے لیکن جیسے ہی دوسرا آئنہ ملتا ہے تو پھر سے دیرینہ خواہشات انگڑائی لینے لگ جاتی ہیں بکھری بکھری امیدیں ایک ہونے لگ جاتی ہیں اور ہاتھ پیر پھلانگتے ہوےجذبات عجلت مچانے لگ جاتے ہیں کہ بس اب جلدی میخانے تک لے چل جھلکتے ہوے پیمانہ کو ہونٹوں سے لگ جانے دے.

یہ کیفیت وہ ہوتی ہے جس میں……… ماں اگنور ، باپ اگنور تعلیم اگنور ، پھر ملاقاتیں ،رنگین نظارے ،پھر لڑائی جھگڑے کی شروعات ،پھر بریک اپ ،پھر پیچ اپ ، دوماہ بعد پھر بریک اپ ، پھر پیچ اپ ، پھراداسی کا اشتہار بن کر پھرنا ، لوگوں کو اپنی وفااور اسکی بےوفائی کے قصے سناتے رہنا، سونے جیسے قیمتی وقت کو مٹی میں ملا دینا ،پھر بریک اپ ، پھر پیچ اپ ، پہلے جینے مرنے کی قسمیں کھانااور پھر آخر میں ایک دوسرےکو بد کردار اور گا لیاں دے کر راستے الگ کر لینا ۔ اگر اس کو تم محبت بولتے ہو دعا مانگو اللہ ہم پہ رحم کرے…
..
معاف کرنا اگر کسی کو برا لگے تو…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!