سماجیفلمی وتفریحیمضامین

دو مسلم ادکارہ، دو فیصلے اور دو ردعمل

محمد خالد داروگر

فلم انڈسٹری کی دو مسلم اداکارہ ایک کا تعلق مغربی بنگال سے اور دوسری کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے ہے دونوں کے تذکرے ہر خاص و عام کی زبان کی زینت بنے ہوئے ہیں اور یہ دونوں مسلم اداکاراؤں پر مشتمل بحث و مباحثے اور ان کے تذکرے ہمارے ملک کے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں اور ہر کوئی اپنی ذہنی اختراع کے مطابق ان دونوں اداکاراؤں کے متعلق اظہارِ خیال میں مصروف عمل ہیں۔

پہلی مسلم اداکارہ بنگلہ فلموں کی 29//سالہ نصرت جہاں ہے جو ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑکر پہلی بار ایم پی بنیں اور الیکشن جیتنے کے فوراً بعد نصرت جہاں نے اپنے بوائے فرینڈ بزنس مین اور Women’s Fashion Line کے بانی نکھل جین سے ترکی کے ساحلی شہر بوڈرم میں ہندو رسم و رواج کے مطابق شادی کرلی۔ نصرت جہاں نے اپنی شادی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے اس بارے میں بتایا۔ اس کے ساتھ نصرت جہاں نے لکھا کہ “میں نکھل جین کے ساتھ شادی کے بعد بہت مسرور ہوں۔”اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ نصرت جہاں نے دین اسلام کو خیر باد کہہ دیا اور ہندو مذہب کو اختیار کرلیا ہے اور یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا اسی لیے ان کے اس فیصلے پر کسی طرح کی چہ میگوئیاں نہیں ہوئی۔ ویسے بھی دین اسلام میں زور زبردستی کا معاملہ سرے سے ہے ہی نہیں ہے بلکہ قرآن مجید نے صاف طور پر اعلان کردیا ہے کہ”لا اکراہ فی الدین”(دین کے معاملے میں زور زبردستی نہیں ہے)، میڈیا نے بھی نصرت جہاں کے معاملے کو اہمیت نہیں دی اور کسی قسم کی سنسنی پیدا کرنے کی بلکل کوشش نہیں کی، اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی اور اس کے لئے میڈیا والوں کو مواد نہیں مل رہا تھا، بعد میں میڈیا نے ایک سازش کے تحت یہ خبر اڑائی کہ دارالعلوم دیوبند نے نصرت جہاں کے تعلق سے یہ فتویٰ دیا ہے کہ سندور لگانا اور منگل سوتر پہننا اسلام میں جائز نہیں ہے۔ حالانکہ دارالعلوم دیوبند نے اس طرح کا کوئی فتویٰ دیا ہی نہیں تھا یہ دارالعلوم دیوبند کو بدنام کرنے کی کوشش تھی جو ناکام ہوگئی اور سچائی کھل کر سامنے آگئی۔

دوسری مسلم اداکارہ جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر سے تعلق رکھنے والی 18/سالہ زائرہ وسیم ہے۔ زائرہ وسیم نے 2015/میں معروف اداکار عامر خان کی بلاک بسٹر فلم”دنگل”سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا، اپنے مختصر فلمی کیریئر کے دوران تین بالی ووڈ فلموں دنگل، سیکرٹ سوپر اسٹار اور دی اسکائی از پنک (جو ابھی ریلیز ہونا باقی ہے) میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ زائرہ وسیم نے یہ کہتے ہوئے فلمی دنیا سے علیحدگی کا اعلان یہ اعتراف کرتے ہوئے کیا کہ”فلمی دنیا نے غیر معمولی شہرت، مقبولیت اور محبت دی مگر یہ گمراہی کی طرف لے جارہی تھی اور میں لاشعوری طور پر ایمان سے دور ہوتی جارہی تھی۔” زائرہ وسیم کے بالی ووڈ کو الوداع کہنے کے فیصلے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں اس کے لئے قرآن مجید کی متعدد آیات، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اقوال کا حوالہ دیا اور یہ بھی کہا کہ وہ اس دوران قرآن مجید کا برابر مطالعہ کرتی رہی ہیں۔

زائرہ وسیم جو ابھی بارہویں جماعت کی طالبہ ہے، نے اپنے مختصر فلمی کیریئر میں بالی ووڈ کے متعدد بڑے ایوارڈ جیسے فلم فیئر اور نیشنل فلم ایوارڈ بھی اپنے نام کراچکی ہیں، کے فلم انڈسٹری کو اچانک الوداع کہنے کے فیصلے سے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر تبصرہ بازی کا زبردست طوفان سا آگیا ہے۔ جموں وکشمیر کے بیشتر لوگوں بشمول نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ اور پیپلز موومنٹ کے صدر شاہ فیصل نے زائرہ وسیم کے فیصلے کو صحیح قرار دیتے ہوئے اس کا غیر معمولی خیر مقدم کیا ہے۔

دوسری طرف اسلام دشمن عناصر زائرہ وسیم کے فیصلے سے دل برداشتہ ہوگئے ہیں اور وہ حیران و پریشان دکھائی دے رہے ہیں کہ آخر ایسا کیا چمتکار ہوگیا ہے کہ زائرہ وسیم نے شہرت و مقبولیت سے پر فلم انڈسٹری کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا اور وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اس وجہ اس کا اسلام کی طرف دوبارہ پلٹنا ہے۔ پھر کیا تھا انہوں نے اس فیصلے کی آڑ میں وہ دین اسلام کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ان میں سے ایک بی جے کے چہیتے داماد شاہ نواز حسین بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ زائرہ وسیم پر فلمی انڈسٹری کو اچانک الوداع کہنے کے لئے باقاعدہ دباؤ بنایا گیا ہے۔

معروف ملعون بنگلہ مصنفہ تسلیمہ نسرین جو بگھوا عناصر کی چہیتی ہیں کھل کر میدان میں اتر گئی ہیں اور ایک پھر اس کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ ایک ٹی وی چینل والے نے تو زائرہ وسیم کے فیصلے پر ڈیبٹ رکھ دیا ہے اور اس ڈیبٹ میں شریک ہونے والے دو بدنام زمانہ مرد اور ایک بدنام زمانہ خاتون ہیں اور ان تینوں کا نام سن کر تعجب کی انتہا نہیں رہے گی کہ ایک اسلام کا سرعام مذاق اڑانے والا شرابی کبابی طارق فتح، دوسرا فلم انڈسٹری میں مسلمانوں سے حددرجہ تعصب رکھنے والا انوپم کھیر اور تیسری ملعون بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین ہیں اور یہ تینوں ڈیبٹ میں کیا گل کھلائیں گے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ان دونوں مسلم اداکارہ کے فیصلے سے جو سب سے زیادہ بات نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ دین اسلام کو خیر باد کہہ دو تو سارے لوگ خوش ہیں کسی کو بھی گلہ شکوہ نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے دین اسلام کی طرف پلٹتا ہے تو سب کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طوفان بدتمیزی پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور ان کو چوطرفہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
زائرہ وسیم کے فیصلے میں مسلم لڑکیوں کے لئے بھی بہت بڑا سبق موجود ہے بشرطیکہ یہ کہ وہ زائرہ وسیم کی کہی ہوئی باتوں پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کریں۔
اللہ تعالیٰ سے ہماری دُعا ہے کہ وہ زائرہ وسیم کو اپنے فیصلے پر جمے رہنے کے لئے استقامت عطا فرمائے۔ امین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!