ہجومی تشدد۔۔۔ حل کیا ہے؟
مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی (سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ)
گائے کے نام پرقتل،چوری کے شبہ پرخونریزی، معمولی معمولی بہانوں سے نہتے مسلمانوں پر بھیڑ کاحملہ مسلسل جاری ہے،نفرت کی جو کھیتی پورے ملک میں کی گئی ہے٬اب اس کے برگ و بار ظاہرہورہے ہیں، عداوت کی پیاس گرم گرم لہوسے بجھائی جارہی ہے، کبھی آسام میں کبھی بنگال میں کبھی بہار میں ماب لنچنگ کی واردات ہو رہی ہے، یہ صرف خونریزی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے مسلمانوں کو پست ہمت کر دینے اور ہتھیار ڈال دینے پر مجبورکرنے کا ذہن کار فرماہے، ہجومی تشدد کی لہر شروع کرنے والوں کے ذہن میں یہ بات ہے کہ جب مسلمان اس طرح کی وارداتوں سے خوفزدہ ہوجائیں گے٬انہیں اپنی جان غیر محفوظ معلوم ہوگی،اوروہ اپنے آپ کو اکثریت کے رحم و کرم پر تصور کریں گے،توپھرخودسپردگی کادور شروع ہوگا،اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ان وارداتوں کاآخری نتیجہ یہی نکلے گا،اور یہ قتل کے ان درد ناک واقعا ت سے بھی خطرناک چیز ہوگی۔
قومیں میدان میں اس وقت تک کھڑی رہتی ہیں جب تک کہ ان کاحوصلہ بلند اور ارادہ مضبوط ہو، اورجب شکست حوصلگی کادور شروع ہوتاہے تو پھر قومیں تاریخ کے اوراق کی زینت اور آثارقدیمہ کے میوزیم کی امانت بن جاتی ہیں۔
مسلمانان ہندکو اس مصیبت کاعلاج او راس زخم کا مرہم جلد تلاش کرناہوگا،حل کیا ہوسکتا ہے؟ اس کے سلسلے میں چند باتیں عرض کی جارہی ہیں:
(1) مسلمانوں کو اس بات کو ذہن نشین کر لیناچاہئے کہ بزدلی کی موت مرنامسلمان کے لیے باعث ننگ اور عارہے، خدانخواستہ کوئی مسلمان ہجومی تشدد کاشکار ہو تو اسے قاتلوں ،درندوں او ر انسان نما بھیڑیوں سے جان کی بھیک مانگنے اور رحم و کرم کی درخواست کرنے کے بجائے دفاع اوراقدام کاراستہ اختیارکرنا چاہئے، موت برحق ہے اور جب مرنا ہی ٹھہرا تو بے بسی اوربزدلی کے ساتھ کیوں جان دی جائے۔بہادری اور جوانمردی کے ساتھ جاں جاں آفریں کے سپرد کی جائے، اور دوچار قاتلوں اور خونیوں کوجہنم رسید کرکے جنت کی راہ لی جائے، بھاگلپور کے بد ترین فساد اور اسی کے آس پاس ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے فسادات کے موقع پر امیر شریعت حضرت مولانامنتﷲ رحمانیؒ نے مسلمانان ہند کو بالکل واضح اوردو ٹوک پیغام یہ کہہ کر دیاتھاکہ
فسادات کایہ سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک کہ فسادی خود اپنی جان کا خطرہ محسوس نہ کریں۔
اگر اس نسخے پر ملک کے دوچار مقاما ت پر بھی عمل کیا گیا تو صورت حال کے بدلنے میں دیر نہیں لگے گی اورظاہر ہے کہ یہ کوئی لاقانونیت نہیں ہے،دنیاکاہرقانون اپنے دفاع کاحق دیتاہے، جب قاتل بڑھ چڑھ کر بیدردی کے ساتھ کسی بے قصور شخص کو مار رہے ہوں تو قانون ٬ انصاف اور مردانگی سب کا یہی تقاضہ ہے کہ بے بسی کے ساتھ مرنے کے بجائے انسان بہادری کی موت مرے،اور آخری سانس تک اپنادفاع کرے۔
(2) تمام مسلم تنظیمیں جماعتیں، ادارے اور تمام مسلم قائدین اجتماعی طریقے پرصدر جمہوریہ اور وزیر داخلہ سے ملاقات کریں، اور انہیں اس صورت حال کی سنگینی اور اس کے خطرناک نتائج سے واقف کرائیں، اور اس سلسلے میں ایک جرأت مندانہ یادداشت ان کے حوالہ کریں جس میں صاف صاف یہ بات لکھی ہوئی ہو کہ اب پانی سر سے نہیں چھت سے اونچا ہو چکا ہے، اور اگر اس صورت حال پر جلد قابو نہیں پایاگیا تو ملک میں بدترین دہشت گردی پیدا ہونے کاامکان ہے۔
(3) تمام مسلمان ایم ایل ایز اور ایم پیز(چاہے وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں) پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جمع ہوکرماب لنچنگ کے خلاف احتجاج کریں اور چوں کہ ماب لنچنگ کاشکار پچھڑے سماج کے لوگ بھی ہوئے ہیں، اور ہورہے ہیں اس لیے پچھڑے سما ج کے ایم ایل ایز اور ایم پیز کو بھی ساتھ لینے کی کوشش کی جائے۔
(4) حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں کو مسلمانوں کی کل ہند تنظیموں اور جماعتوں کے لیٹر پیڈ پر خط لکھے جائیں،جس میں اس پوری صورت حال سے واقف کرایا جائے اوران سے اس میں مداخلت کی گذارش کی جائے۔
(5) جن مسلم ممالک میں دینی حمیت و غیرت ہے ، مثلاً ترکی قطر وغیرہ ان ممالک کے سفارت خانوں کی جانب سے حکومت ہند پردباؤ ڈالا جائے کہ وہ اس صورت حال پر جلد قابوپانے کی کوشش کرے، اس سلسلے میں مسلم تنظیموں کے وفود کو مسلم ممالک کے سربراہان کو خط بھی لکھناچاہئے، اورسفارت خانوں میں جاکر ملاقات بھی کرنی چاہئے۔
اوپر جوباتیں لکھی گئی ہیں وہ اس مسئلہ کافوری اور ہنگامی حل ہو سکتی ہیں، جن سے کسی حد تک ان معاملات پرروک لگے گی لیکن۔۔۔
اصل اور مستقل حل برادران وطن سے خوشگوار تعلقات کااستوار کرنا، اور نفرت کے اس زہر کو دور کرنے کی فکر کرناہے جو بہت تیزی کے ساتھ پھیلا یاجا رہاہے۔ گاؤں ،دیہات سے لے کر شہروں تک برادران وطن کے ساتھ مختلف مناسبتوں سے گفتگو ، ملاقات او ر باہمی ربط ضروری ہے۔
اس کی بہت آسان اور مفید شکل یہ بھی ہوسکتی ہے ، ہرعلاقے میں ’’مسجدیں سب کے لیے ‘‘ مہم چلائی جائے، جس میں برادران وطن کو بلا کر مسجد کادورہ کرایا جائے،ان کااعزاز و اکرام ہو، اور ا ن کی ضیافت مسجد ہی میں کی جائے،اس کے بہت اچھے اور خوشگوار نتائج نکل سکتے ہیں،اور باہمی روابط کے قائم کرنے کے لیے یہ تقریب سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے۔
آیئے ظلم کی اندھیریوں کودور کرنے کے لیے اپنے اپنے حصے کادیا جلائیں
تا کہ کچھ تو اندھیراکم ہو ،کچھ توروشنی کی کرن بکھرے اور پھیلے