سوشیل میڈیا سےفیس بک سے آواز

مرسی کی موت پہ اترانے والو۔۔۔ دشمن تمہیں بھی مسلمان سمجھتا ہے!

مصر کی تاریخ میں شفاف اور جمہوری طریقے سے منتخب پہلے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی تکلیف دہ رحلت پر دنیا کا رد عمل دیکھنے کے لئے چوبیس گھنٹے میں قصداً خاموش رہا ، اور حالات کا جائزہ لیتا رہا ، ملک اور بیرون ملک میری طرح بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کا مصر کی داخلی سیاست اور ” الإخوان المسلمون ” سے کچھ لینا دینا نہیں ، لیکن انسانیت کے ناطے جہاں کہیں ظلم ہوتا ہے ان کے دل پر چوٹ پڑتی ہے ۔

حالات پر ہماری بھی نظر ہے ، ہمیں معلوم ہے کن مشکلات سے گزر کر ڈاکٹر مرسی نے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا ، اور الله کی مدد سے ساری رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے نمایاں کامیابی حاصل کی ، اور مصری فوج کی عدم چاہت اور مزاحمت کا سامنا کرتے ہوئے عہدہ صدارت کو سنبھالا ۔

ڈاکٹر مرسی کا مصر کے اعلی ترین منصب پر فائز ہونا صہیونی اور فسطائی طاقتوں کو کسی پل گوارہ نہیں تھا ، سو انھوں نے حقیر مفادات کے لئے کوشاں خطے کے کچھ ملکوں کو اپنا آلہ کار بنایا ، اور ڈاکٹر مرسی مرحوم اور ان کی پارٹی ” حزب العدالة والتنمية ” کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی سازشوں میں لگ گئے ۔

ڈاکٹر مرسی نے حالات کو سنبھالنے کی جی توڑ کوشش کی ، اندرونی مخالفت پر قابو پانے کے لئے ایسے مطالبات کو بھی کو تسلیم کیا جو ان کی پارٹی کے مفادات میں بالکل نہیں تھے ، لیکن شیطانی طاقتوں نے ایسا جال بنا کہ ڈاکٹر مرسی دن بہ دن بے دست و پا ہوتے گئے اور عہدہ صدارت پر ان کی پکڑ مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی ، بالآخر وہ لمحہ آگیا جب مصری فوج نے باہری طاقتوں کی در پردہ مدد سے ڈھونگ رچا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ، اور ڈاکٹر مرسی سے ہمدردی رکھنے والوں کو ٹینکوں اور بلڈوزروں سے روند ڈالا ، اس منظر کو سوچ کر آج بھی روح کانپ جاتی ہے ، لیکن حقوق انسانی کے علم بردار اور امن عالم کے ڈھونگی چیمپیئن سوتے رہے ۔

ڈاکٹر مرسی کو قصر جمہوریہ سے ایسا غائب کر دیا گیا کہ کچھ دنوں تک پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کہاں ہیں ؟ زندہ بھی ہیں یا فوت ہو گئے ؟ ، ان کے ساتھیوں کی دار و گیر شروع ہوئی ، اور زندانوں میں نہایت ذلت آمیز سلوک کے ساتھ ایک ایک کو نپٹایا جانے لگا ، اور ڈاکٹر مرسی اور ان کی پارٹی کے اعلی عہدہ داروں پر مصر کی عدالت عظمیٰ میں مقدمہ چلانے کے نام پر وہ ڈرامہ بازی کی گئی کہ اس کو دیکھ کر انسانیت شرمسار ہو جاتی ہے ۔

انسانوں کی یہ جماعت جو اخلاق و تہذیب کا نمونہ اور مصر کی آبرو اور جان تھی ان کو بدترین قسم کی ناقابل تصور اذیتوں سے گزارا گیا ، اور ڈرامہ نما عدالتوں میں لا کر اس طرح ان کو آہنی شیشہ بند پنجروں میں رکھا جاتا کہ ان کی آواز باہر نہ جا سکے ، ڈاکٹر مرسی کی عمر ساٹھ ( 60 ) سال سے زائد تھی ، اور شوگر کے مریض تھے ، چھ سال تک تکلیف دہ حالت میں ان کو جیل میں رکھا گیا ، کئی مقدمات میں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو موت کی سزا سنائی گئی ، پچھلے دنوں ڈاکٹر مرسی ایک ہفتہ کے دوران دو مرتبہ غش کھا کر گرے اور اس خدشہ کا اظہار کیا کہ ان کو جان سے مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، انھوں نے اپنی پکڑتی صحت کا ذکر کیا ، لیکن بار بار درخواست کے باوجود طبی امداد کی طرف توجہ نہیں دی گئی ، آخری پیشی کے وقت پنجرہ عدالت میں ان کے ساتھی ان کی حالت زار کی طرف مصر کی اعلی ترین عدالت کے معزز جج صاحبان کو متوجہ کرنے کے لئے چلاتے رہے ، اور ڈاکٹر محمد مرسی غش کھا کر اپنے رب سے جا ملے ۔

حافظ قرآن ، اسلام اور مسلمانوں کی عزت و حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے ڈاکٹر محمد مرسی کے ساتھ جو بھی نازیبا برتاؤ ہوا وہ محض اس لئے کیوں کہ وہ اسلامی اقدار کے حامل اور مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق ، اور اقوام عالم میں ان کا جائز مقام دلانے کے لئے کوشاں تھے ، اس لئے اگر وہ دشمنان اسلام کی آنکھوں کا کانٹا بنے اور ان کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہوئے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ، لیکن مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے ، ” الإخوان المسلمون ” سے ان کا نظریاتی اختلاف اپنی جگہ ، لیکن ایسے موقعوں پر جشن منانا اور خوشی کا اظہار کرنا اپنے پاؤں پر کھلاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔

ہمارا دشمن بہت شاطر ہے ، وہ ہم سے اسلام کی وجہ سے نفرت کر رہا ہے ، اور ہم کو مٹانے اور غلام بنانے کے درپہ ہے ، وہ مرسی کی موت پہ اترانے والوں کو بھی مسلمان سمجھتا ہے ، ان کو بھی نہیں بخشے گا ، اور جب ان باری آئے گی تو کتوں کی موت مارے گا ۔

مرسی کی موت پہ اترانے والوں کے لئے بہتر یہی ہے کہ اپنی عاقبت کا خیال رکھیں، اور ایسے موقعوں پر آپسی اتحاد اور بھائی چارے کا مظاہرہ کریں ، تاکہ دشمنان اسلام کو ان کے اوپر ہاتھ اٹھاتے وقت دس بار سوچنا پڑے۔۔۔

ارشاد احمد اعظمی ندوی کی وال سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!