مجھےاب شکایت بھی اورامیدبھی بس صرف اساتذہ سے ہے!
ریاست مہاراشٹرا میں دسویں کا رزلٹ آچکا، ناندیڑ کے اردو میڈیم اسکولس کا دسویں کا رزلٹ بہت مایوس کن ہے۔ سرسری طور پر سمجھ لیں کہ %80 اسکولوں کا رزلٹ 50 فی صد سے کم ہے۔ اس کیلئے سب سے پہلے سوسائٹیوں کے عہدہ داران ذمہ دار ہیں۔ اور اسکے بعد اساتذہ۔۔!!
لیکن صورتحال کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔
مہاراشٹرا کے 80 فیصد مسلم طلباء و طالبات اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ اور %95فیصد اردو اسکول حکومت کی امداد سے مقامی سوسائیٹیاں چلاتی ہیں۔ گزشتہ 20سالوں سے ان اسکولوں کی پرفامنس میں بتدریج گراوٹ محسوس ہوتی ہے۔ اسکی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ان پر غور ہونا چاہئے۔ ایک ایک اسکول کی علحیدہ رپورٹ تیار کرکے انکے خامیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے۔
لیکن مجھے سب سے زیادہ شکایت۔۔۔اور سب سے زیادہ امید اساتذہ سے ہے:
٭اردو میڈیم کے ایڈیڈ اسکول کے اساتذہ کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرح ہے۔ انکی والدہ کو اپنے ہی بچے کو دودھ پلانے کیلئے فرعون کے شاہی خزانے سے تنخواہ دی جاتی تھی۔
اب اپنے ہی قوم کے بچوں کو پڑھانے کیلئے خود حکومت امداد دے رہی ہے آپ جو چاہیں انہیں تعلیم دے سکتے ہیں اور وقت کے فرعون کے خلاف قوم کے بچوں کو تیار کرسکتے ہیں۔ لیکن اساتذہ بچوں پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ اب جو نئے لوگ سوسائٹی کو ایک خطیر رقم بطور رشوت دے کر لگے ہیں ان میں سے اکثر میں پڑھانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، اگر انکا اپٹیٹیوڈ ٹیسٹ لیا جائے تو وہ پولس جمعدار بننے کے لائق ہوسکتے ہیں شومئی قسمت کے استاذ بنے بیٹھے ہیں۔۔۔۔
معدودے چند سینئر اساتذہ کے دل میں درد ہے وہ پڑھاتے بھی اچھا ہیں، انکا انفرادی پرفامنس بھی اچھی ہے لیکن وہ ٹیم ورک نہیں کرسکتے، اکثر اسکولوں میں سینیر ٹیچرس آپسی سر پھٹول میں مصروف نظر آئیں گے۔
آخر میں یہ بات بھی عرض کرنا ہیکہ اساتذہ جتنی توجہ اپنی اولاد پر دیتے ہیں اسکا عشر عشیر بھی اسکول کے بچوں پر دیں تو صورتحال بہت تیزی سے بدل سکتی ہے۔(معزالرحمان کےفیس بک سے)