پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور کانگریس کا مستقبل!
ساجد محمود شیخ میراروڈ
ماہ فروری اور مارچ میں ہندوستان کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں جن پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں ان میں سے دو ریاستیں سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں پہلی اتر پردیش اور دوسری پنجاب ۔ اتر پردیش کی اہمیت ہندوستان کی سیاست میں مسلّمہ ہے کیونکہ ریاست اتر پردیش میں پارلیمنٹ کی اسی نشستیں آتیں ہیں جس سیاسی جماعت کو یوپی میں برتری حاصل ہوتی ہے اُسی جماعت کی مرکز میں حکومت قائم ہوتی ہے۔ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ یوپی سے سیٹیں کم آنے کے باوجود کسی جماعت نے مرکز میں اپنی حکومت قائم کی ہو چاہے کسی جماعت نے اپنے بل بوتے پر مرکز میں حکومت بنائی ہو یا کسی سیاسی اتحاد کی حکومت یو پی کے تعاؤن کے بغیر قائم ہوئی ہو اس وجہ سے یوپی اسمبلی کے انتخابات اہمیت کے حامل ہیں۔
ان باتوں کے علاؤہ ایک اہم بات بھی اسمبلی انتخابات سے جڑی ہے اور وہ ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ کانگریس نے اس ملک پر سب سے زیادہ حکومت کی جنگ آزادی کے موقع پر کانگریس کا کردار نمایاں تھا جس کی وجہ سے ہندوستان کی عوام کی سب سے زیادہ ہمدردی بھی اسی جماعت کے ساتھ رہی مجاہدین آزادی کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ایک عرصے تک ہندوستانی عوام کی اکثریت اس سیاسی جماعت سے جڑی رہی ایمرجنسی کی احمقانہ حرکت کی وجہ سے کانگریس اقتدار سے دور ہو گئی تھی مگر ۱۹۸۴ میں اندرا گاندھی کے قتل نے کانگریس کے لئے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی اضافہ ہوگیا اس ہمدردی کے نتیجے میں کانگریس نے عام انتخابات میں مثالی کامیابی سے ہم کنار ہوئی مگر اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی کی ناتجربہ کاری نے اس کامیابی پر پانی پھیر دیا اگلے انتخاب میں پھر کانگریس اقتدار سے محروم ہوگئی ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد کانگریس نے اپنے سب سے بڑے ووٹ بینک کا اعتماد کھو دیا اس کے بعد کبھی بھی کانگریس مکمل اکثریت سے مرکز میں حکومت نہیں بنا پائی اس کے بعد منموہن سنگھ کی قیادت میں دو بار کانگریس نے دہلی کے تخت پر قبضہ کیا مگر کئی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی مدد سے اسے مخلوط حکومتوں میں شامل ہونا پڑا ۔
تمام اتار چڑھاؤ کے باوجود بھی کانگریس ایک ملک گیر سیاسی جماعت رہی اور بی جے پی کا متبادل بنی رہی کیونکہ اپوزیشن جماعتوں میں کانگریس ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کا ملک کی بیشتر ریاستوں میں وجود دکھائی دیتا ہے بالفاظ دیگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ کانگریس نہایت گئی گزری حالت میں بھی ملک کی اہم اپوزیشن بنی رہی اور اس کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ کانگریس ایک متبادل کے طور پر بھی تسلیم کی جاتی تھی۔ مگر اب حالات بدل رہے ہیں اور بہت سی سیاسی جماعتیں کانگریس کا متبادل بننے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں ان میں سب سے نمایاں نام عام آدمی پارٹی یعنی آپ کا ہے ۔انا ہزارے کی بدعنوانی مخالف تحریک کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی کو ملک میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا دہلی میں کیجریوال کی حصول یابی اور کامیابیوں کی وجہ سے لوگ اس جماعت کو پسند کرتے ہیں مگر اس باوجود عام آدمی پارٹی دہلی کے علاؤہ پنجاب کی چند نشستوں پر ہی کامیابی حاصل کر پائی تھی۔
یوپی سمیت ملک کی دیگر ریاستوں میں آپ کو عوامی حمایت حاصل نہیں تھی مگر اب دھیرے دھیرے عام آدمی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا پنجاب اور گوا میں اس کے امکانات کافی حد تک روشن نظر آ رہے ہیں پنجاب میں عام آدمی پارٹی بی جے پی سے زیادہ مقبول ہو رہی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اسے اکثریت مل جائے اگر پنجاب میں عام آدمی پارٹی اکثریت حاصل کرتی ہے تو اس سے سب سے بڑا نقصان کانگریس کا ہوگا فی الحال پنجاب ہی وہ واحد ریاست ہے جہاں کانگریس بلا شرکت غیرے اقتدار میں ہے اگر پنجاب بھی کانگریس کے ہاتھوں سے چلا گیا تو پھر ملک گیر سطح پر کانگریس کی بڑی اپوزیشن جماعت کی حیثیت ختم ہو جائے گی اور اگر اتفاق سے پنجاب پر عام آدمی پارٹی کا قبضہ ہوگیا اور گوا میں بھی خاطر خواہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عآپ کو ملک گیر سطح کی سیاسی جماعت کا درجہ حاصل ہو جائے گا اور جو حیثیت آج کانگریس کی ہے وہ عام آدمی پارٹی کو حاصل ہو جائے گی پنجاب کی ہار کانگریس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ۲۰۱۴ کے بعد اگر کانگریس نے کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کی ہے تو وہ پنجاب اور راجھستان ہے ۔
کانگریس کے ساتھ ایک بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ ریاستوں میں اچھی کارکردگی کے باوجود اقتدار حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں گوا اور منی پور میں بڑی پارٹی ہونے کے باوجود وہ حکومت نہیں بنا پائی تھی اس کے علاؤہ مدھیہ پردیش میں اکثریت حاصل ہونے کے باوجود اقتدار پر گرفت مضبوط نہیں بنا پائی تھی اور چند ماہ میں وہاں بھی اقتدار سے محروم ہو گئی۔ جن پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں ان میں یوپی سب سے بڑی ریاست ہے مگر اس ریاست میں کانگریس کا وجود بالکل بھی دکھائی نہیں دیتا کوئی معجزہ بھی ریاست میں کانگریس کو اقتدار نہیں دلا سکتا ہے اس ریاست میں کانگریس کی حالت اتنی نازک ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں کانگریس نہرو گاندھی خاندان کی روایتی نشست امیٹھی بھی نہیں بچا پائی تھی اس وقت ریاست میں بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے جبکہ بی ایس پی اور عام آدمی پارٹی بھی زور لگا رہی ہے ۔
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے یوپی میں سماج وادی پارٹی کی حمایت کردی ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ مستقبل میں ایک نئے سیاسی محاذ کے امکانات روشن ہیں جس میں کانگریس کے لئے کوئی جگہ نہیں رہے گی اگر کانگریس پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں خاطر خواہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو تیسرے محاذ کی تشکیل رک سکتی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کو کانگریس کے ساتھ جانے میں فائدہ نظر آئے گا بصورت دیگر چھوٹی جماعتیں کانگریس پر سے بھروسہ ختم کرکے ترنمول کانگریس،عام آدمی پارٹی اور سماج وادی پارٹی کے مل کر ایک مضبوط اتحاد کی تشکیل دے سکتیں ہیں جس کے نتیجے میں کانگریس بالکل الگ تھلگ پڑ جائے گی اور اس کی بی جے پی کی متبادل والی حیثیت بھی ختم ہو سکتی ہے ۔
کانگریس کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ بہت دنوں تک نہیں چل پاتی ہے اور نہ ہی حالات کے پیشِ نظر کوئی مضبوط اتحادی تلاش کر پاتی ہے یوپی میں گزشتہ عام انتخابات کے وقت سماج وادی پارٹی سے اتحاد تھا مگر وہ اتحاد فوراً ٹوٹ گیا کسی زمانے میں مغربی بنگال میں دیدی کے ساتھ اتحاد تھا مگر جلد ہی کانگریس نے کمیونسٹوں کی ڈوبتی کشتی میں سوار ہونے کو ترجیح دی۔ کرناٹک میں سیکولر جنتا دل کے ساتھ اتحاد ایک انتخاب کے بعد ختم ہو گیا مہاراشٹر میں کانگریس اپنی اتحادی جماعتوں شیوسینا اور این سی پی کے رحم و کرم پر ہے کانگریس کی اتحادیوں کو ساتھ لے کر نہیں چلنے کی کمزوری بھی اسے قومی سطح پر بی جے پی کا متبادل بننے کے راستے میں حائل ہوتی ہے ۔اب کانگریس کے تن مردہ میں جان ڈالنے کا آخری راستہ صرف ایک ہی ہے اور وہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے بالخصوص پنجاب میں اقتدار میں واپسی کرے دوسری صورت میں عام آدمی پارٹی قومی سطح پر کانگریس کی جگہ پر قابض ہو جائے گی۔