حکومت، مسلمانوں کی ترقی کیلئے لائحۂ عمل بنائے اور نا انصافی کا ازالہ کرے: اسدالدین اویسی
لکھنو: 7/جنوری (پی آر) اتر پردیش کے مسلمانوں کا استحصال تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے کیا ہے ۔ ڈرا کر، بہلا کر اور لالچ دے کران سے ووٹ حاصل کیا گیا ہے، آزادی کے بعد سے ان کے ساتھ ہر سرکار نے ناانصافی کی ہے۔ یہ رپورٹ حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیے آئینہ ہے۔ جس میں وہ اپنا مکروہ چہرہ دیکھ سکتی ہیں۔ان خیالات کا اظہار کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے کیا وہ آج ہوٹل فیر فیلڈ ،گومتی نگر، لکھنو میںایک کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ کانفرنس کا انعقاد مجلس کی جانب سے کیا گیا تھا ۔ کانفرنس میں ایک رپورٹ کا اجراء بھی کیا گیا جس میں اتر پردیش کے مسلمانوں کی صورت حال پر سرکاری رپورٹوں سے حاصل شدہ اعدادو شمار پیش کیے گیے ہیں ۔
یہ تحقیقی رپورٹ امیتابھ کندوترقی پذیر ممالک کے ممتاز فیلو آف ریسرچ اینڈ انفارمیشن سسٹم، چندر شیکھرپروفیسر آف انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پالپولیشن ممبئی، کرسٹوف جیفرلوٹ پروفیسر آف سوشولوجی اینڈ پالیٹکس، کنگس انسٹیٹیوٹ لندن، اوشا سانیال وزٹنگ پروفیسر ونگیٹ یونیورسٹی نارتھ کورولینا، ولیم جوئے اسسٹنٹ پروفیسر آف پی آر سی انسٹیٹیوٹ آف اکنامک گروتھ دہلی، ایس بی سبرامنین پروفیسر آف پاپولیشن اینڈ ہیلتھ اینڈ جغرافیہ ہاورڈ یونیورسٹی، سی روی وزٹنگ پروفیسرسی ای ایس ایس حیدرآباد، ایس وائی قریشی،سابق چیف الیکشن کمشنر آف انڈیانے تیار کی ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے قومی صدر مجلس بیرسٹراسدا لدین اویسی نے کہا کہ اب تک پورے ملک کے مسلمانوں پر سرکاری کمیشنوں کی رپورٹیں آتی رہی ہیں ،لیکن یہ رپورٹ خاص اترپردیش سے متعلق ہے ،ہم نے یہ رپورٹ اس لئے شائع کی ہے تاکہ سیکولر پارٹیاں اور عوام مسلمانوں کے ساتھ کی گئی نا انصافی سے آگاہ ہوسکیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ہر شعبۂ زندگی میں ظلم ہوا ہے، ان کی آبادیوں میں نہ اسکول ہیں ،نہ اسپتال اورنہ بینک کی سہولیات ہیں،ان کا ڈراپ آئوٹ ریٹ سب سے زیادہ ہے ،ان کے لیے مختص بجٹ بھی نہیں دیا جاتا، بنگال جیسی ریاست نے 2021 میں مسلمانوں کے لیے 300کروڑ روپے خرچ کیے ہیں اور اتر پردیش میں صرف21کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں،مدرسوں کے اساتذہ کو 2 سال سے زیادہ عرصے سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔
ہم تمام سیکولر پارٹیوں اور ریاستی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس رپورٹ کا مطالعہ کریں ،اپنا جائزہ لیں اور اپنے مینی فیسٹو میں اس کے مطابق مسلمانوں کی ترقی کے لیے لائحۂ عمل بنائیں اور نا انصافی کا ازالہ کریں، حکومت کو چاہئے کہ وہ مسلم علاقوں میں زیادہ زیادہ سے اسکول کھولے،بینک قائم کرے ،ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے لیے اسکیم لائے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اتر پردیش ملک کا بڑا صوبہ ہے جہاں ملک کی آبادی کا 16فیصدحصہ رہتا ہے،اس میں مسلمانوں کی آبادی 19.25فیصد ہے ،جب کہ ملک میں مسلمانوں کا تناسب 14.5فیصد ہے ،یہاں ریاستی یونیورسٹیوں اور کالجز کے علاوہ 44 سینٹرل یونیورسٹیاں ہیں ،یہاں بنارس ہندو یونیوسٹی،الہٰ آباد یونیورسٹی،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دارلعلوم دیوبند جیسے مؤقر ادارے موجود ہیں پھر بھی۔41فیصدی مسلمان ناخواندہ ہے.قومی سطح پر یہ تناسب 34فیصد ہے۔28.49فیصدمسلمان پرائمری تک اور16 فیصدمسلمان مڈل تک تعلیم پاتے ہیں۔اور4.4فیصد ہی مسلمان یونیورسٹی تک جاتے ہیں۔
روزگار کے معاملے میں قومی تناسب 31فیصد کے مقابلے میں اتر پردیش کا تناسب 25فیصدہے اور مسلمانوں کی اکثریت معمولی کام کرکے گزارہ کرتی ہے۔دولت اور ملکیت کے معاملے میں2014-15کی اسٹڈی کے مطابق 58فیصد مسلمانوں کے پاس زمین نہیں ہے۔غربت کے معاملے میں 2009-10کا نیشنل سیمپل سروے بتاتا ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی فی خاندان آمدنی محض 752روپے ہے حالانکہ قومی سطح پر یہ 988روپے ہے۔ کانفرنس میں ڈاکٹر وینکٹانارائن موٹو کوری، انجنا دواکر، ڈاکٹر امیر اللہ خان اور مسٹر پی سی موہنن نے رپورٹ کی روشنی میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر یوپی مجلس کے صدر شوکت علی ،صدر دہلی مجلس کلیم الحفیظ، قومی ترجمان وارث پٹھان اورعاصم وقار بھی شریک تھے۔