مذہبیمضامین

زندگی ہمہ وقت بندگی کا تقاضہ کرتی ہے

محمدقاسم ٹانڈؔوی

قرآن حکیم کی متعدد آیات ایسی ہیں، جن میں انسان کو اس کی حقیقت سے آشکار و روبرو کرایا گیا ہے، اور موت و حیات کے مسائل پر سیر حاصل بحث کرنے کے بعد بہ حیثیت انسان اس کے سامنے اس دنیا کی عارضی اور بےثبات زندگی کے مراحل سے گزرنے اور اپنا ٹھکانہ اس اخروی دنیا میں بہتر و کامیابی کے ساتھ ہمیشہ ہمیش کےلئے بنانے کا طریقہ بتایا ہے، جہاں سے نہ کبھی واپسی ہونی ہے اور نہ وہاں کے عیش و عشرت کے ختم اور کم ہونے کی فکر کرنی ہے۔ الغرض قرآن نے دونوں عالم کا نقشہ کھینچ کر اہل ایمان کو متنبہ اور ان دونوں کے احکام و مقاصد سے باخبر کیا ہے۔ اب یہ ہماری کج فہمی، کم علمی اور نامرادی ہوگی کہ ہمارے سامنے واضح ہدایات آجانے اور ایک مکمل گائڈ لائن میسر ہونے کے باوجود ہم اپنی اس حیات فانی کو کارآمد و بامقصد بنانے اور یہاں کی کد و کاوش کو مابعد موت پیش آنے والے مراحل کےلئے اخذ و استعمال میں نہ لائیں۔

قرآن مجید نے تو بالکل صاف صاف اور بےلاگ اس بات کا اعلان کیا ہے: "بلاشبہ یہ قرآن ہے، جو بالکل سیدھے راستے کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے اور ایمان والوں کو خوشخبری دیتا ہے”۔ چنانچہ ایک جگہ باری تعالی کا ارشاد گرامی ہے: اے محمد! (ﷺ) آپ (لوگوں سے) فرما دیجئے کہ: اس دنیا کا ساز و سامان چند روزہ ہے اور آخرت ہر طرح سے بہتر ہے اس شخص کےلئے جو ﷲ سے ڈرتا ہو (ألنساء:77) یہ دنیا؛ جس کی چکا چوند نے آج ہر ذی حس کو اپنے دام فریب میں جکڑ رکھا ہے، اور اس کو اپنے حاصل کرنے میں ایسا الجھا رکھا ہے کہ اسے اپنے پرایوں کی خبر گیری تک کا وقت میسر نہیں ہے اور انسان کو زیادہ سے زیادہ کمانے اور اپنے سمیٹنے میں مگن اور مصروف کر رکھا ہے۔ اور انسان کا اس حقیر و ذلیل دنیا میں اس طرح مگن و مصروف ہونا، درحقیقت اس دنیا کی محبت اپنے دل میں رچا بسا لینا ہے اور یہی وہ شئی ہے، جس نے انسان کو اپنے رب حقیقی سے دور اور اپنی موت سے غافل و مغرور کر رکھا ہے۔

یقین جانئے آج تحقیق و تکنیک کے اس دور اور ماحول میں، دور حاضر کے انسان کے پاس ہر چیز، ہر کام اور ہر وقت کی پلانننگ و تیاری ہے؛ مگر افسوس! اس کی اس پلانننگ و تیاری میں آخرت کی تیاری کا کوئی ساز و سامان اور اپنی موت کا کوئی تصور و خاکہ شامل نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہےکہ: حالات و شواہد سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کے انسان نے یہ جان رکھا ہے کہ مجھے مرنا ہے ہی نہیں، ورنہ کیا وجہ ہے کہ کثرت کے ساتھ اموات واقع ہو رہی ہیں، ہر شخص اپنے عزیز و اقارب کو اپنے کاندھوں پر سوار کرکے قبرستان پہنچا رہا ہے، جہاں وہ اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی کے نیچے اپنے والد، اپنے چچا اور اپنے تایا ماما کو دفنا رہا ہے، مگر اس دفینے سے اسے کوئی احساس، کوئی سبق اور کوئی نصیحت حاصل ہوتی نہیں معلوم ہوتی؟

وہ جس ڈگر اور راستے پر پہلے تھا، قبرستان اور اہل میت سے تعزیت کرنے کے بعد بھی اس کا سفر اسی راستے اور ڈگر پر جاری ہے۔ میت کو نہلانے، کفنانے اور دفنانے کے بعد بھی نہ تو اس کے عادات و اخلاق میں کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے اطوار اور اقوال و افعال میں کسی طرح کا بدلاؤ آتا دکھائی دیتا ہے، بلکہ اموات و انتقال کی خبروں کا یہ سلسلہ جتنا عام ہوتا جا رہا ہے، ویسے ویسے انسان کے مزاج میں سختی، ڈھٹائی، فریب کاری اور سرکشی کا مادہ بڑھتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کے اندر سے موت کی شدت کا احساس یا تو فنا ہوتا جا رہا ہے یا کم ہوتا جا رہا ہے اور اس کے مزاج میں ایسی رعونت و شیطنت جا گزیں ہوتی جا رہی ہے کہ جیسے یہ مرنے والا آیا ہی اس دنیا میں مرنے کےلئے تھا اور ہم تو اس دنیا کی جاگیرداری و بادشاہی کا پٹہ اور نوشتہ لکھا کر لائے ہیں، ہمیں کون یہاں سے نکال سکتا ہے اور کس کے اندر اتنی ہمت و سکت پائی جاتی ہے کہ وہ ہم سے ہماری دنیا چھین کر ہمیں یہاں سے چلتا کرے؟

یقین جانئے اس ذہنیت کے حامل لوگ ہر سماج اور طبقہ میں بکثرت پائے جا رہے ہیں، کیا عام اور کیا خاص؟ جاہل و دانا افراد بھی اس مہلک و متعدی بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور توانائی کو اسی ایک مد میں لگا رکھا ہے، ان کا مقصود و ماحصل رات و دن اسی فانی دنیا کی پالیسیوں کو مرتب و منظم کرنے، دنیا کی پرکیف بہاروں سے لطف اندوز ہونے اور خود کو اس بےحقیقت دنیا کی ذخیرہ اندوزی میں سرگرداں رکھنے تک محدود ہیں۔ حالانکہ ﷲ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا: "دنیا ایک مردار و ناپاک ہے، اور اس کا طالب کتا ہے” مگر مال و دولت کا یہ پجاری اور عیش و عشرت کا حریص، جس کا اوڑھنا بچھونا مال کی کثرت اور اپنے عیش و عشرت کے سامان مہیا کرانا ہے، وہ اس دوران حق و ناحق کی تمیز، جائز و ناجائز میں تفریق اور چھوٹے بڑوں کی وفاداری اور احسان مندی کا تصور اپنے ذہن و دماغ سے محو کر بیٹھا ہے اور دنیا سے خالی ہاتھ جانے کےلئے دونوں ہاتھوں سے اس دینا کی دولت کو سمیٹنے میں منہمک و مشغول ہے۔

جبکہ قرآن کہتا ہے: "دنیا اور آخرت کے معاملات میں سوچو” (البقرہ) یعنی دنیا ضرورتوں کی جگہ ہے؛ مگر فانی اور ختم ہونے والی ہے، آخرت کا گھر باقی اور ثواب کا ہے؛ اس لئے دونوں کی طرف سوچ کر مناسب و بہتر انداز میں اپنی آمدنی اور صرف کا خیال کرو۔ مطلب یہ ہےکہ ہماری اس آمدنی میں حرام کا حصہ نہ ہو، یتیموں اور بیواؤں کا حق نہ نکلتا ہو، کسی کو ناجائز طور پر دبا کر اور ستا کر اپنی آمدنی اور جائیداد میں بڑھوتری نہ کی جا رہی ہو۔ اسی طرح مال کو خرچ کرنے کے سلسلے میں ہمیں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ دیکھو! ناجائز و حرام مواقع پر پیسا خرچ نہ کیا جا رہا ہو، مال کی فضول خرچی نہ ہو رہی ہو یا طاقت و اقتدار کے نشہ میں کسی کے ساتھ زور زبردستی سے کام نہ لیا جا رہا ہو، اسی طرح حق والے کا حق جانتے ہوئے بھی اس کا حق ادا نہ کیا جا رہا ہو اور نت نئے طریقے اور حربے اختیار کر اسے پریشانی میں مبتلا کیا جا رہا ہو تو یہ سب اسباب و عوامل تمہاری ہلاکت و تباہی پر خود گواہ ہوں گے اور ان کی سزا تمہیں بھگتنی ہوگی۔

خلاصہ تحریر یہ ہےکہ: کسب مال اور صرف مال؛ جو دنیوی زندگی گزارنے اور اخروی زندگی بنانے کے واسطے دو اہم سبب ہیں، ان کے تعلق سے واضح ہدایات موجود ہیں قرآن و حدیث میں، جن کو نہ تو مکمل اختیار کرنے کے حکم ہے اور نہ ہی مطلق ترک کرنے کا؛ بلکہ درمیانی راہ اختیار کرکے اس کو کمانے اور اعتدال کے ساتھ ان کو خرچ کرنے کی تاکید و تعلیم ہے۔ مگر کہتے ہیں ناں کہ جیسے جیسے آدمی کے پاس مال و دولت کے انبار لگتے ہیں، ویسے ویسے اس انسان کا دل سخت اور پتھر کی مانند ہوتا چلا جاتا ہے۔

چنانچہ ایسے ہی موقع کےلئے اللہ کے رسول (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: کہ انسان کی (خواہش) کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے، یعنی مرنے کے بعد ہی انسان کی خواہشات کا سلسلہ بند ہوتا ہے؛ بصورت دیگر اسے ہر وقت "ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ” کچھ اور بھی ہے؛ کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔اس لئے ضرورت ہے کہ ہم اپنی اس زندگی کے اس مختصر سفر کو مکمل بندگی کے ڈھانچے میں ڈھال کر اپنی اس اخروی زندگی کے دشوار گزار سفر کے مراحل کو بآسانی عبور کرنے اور اپنے رب کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوں، یاد رہے کہ یہاں کی ہر شئی عارضی اور فانی ہے، جبکہ آخرت کی ہر شئی اور ہر مقام ابدی اور لاثانی ہوگا، جس کی بابت فرمایا گیا: "فَإِنَّ الجَنَّۃَ ھِیَ المَأْوٰی”۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!