جذبات کی لوٹ…
از: محی الدین غازی (میرے ساتھ پیش آنے والا سچا واقعہ)
پرسوں یعنی آٹھ نومبر کی شام کا وقت تھا۔ سات بج کر اڑتیس منٹ پر دو مسڈ کال تھیں، یہ بھٹکل سے میرے دوست سعیدصاحب (نام بدل دیا گیاہے) کی کال تھی، میں نے سات بج کر انتالیس منٹ پر انھیں واپس کال کیا۔ ان کی آواز سے پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔ کہنے لگے غازی صاحب آپ ابھی دہلی میں ہیں؟ میں نے کہا: ہاں میں دہلی میں ہوں۔ کہنے لگے غازی صاحب آپ کی فوری مدد چاہیے، میں نے گھبرا کر پوچھا بتائیے کیا ہوا؟ میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟ سعید صاحب نے بتایا کہ ان کے دوست کے رشتے دار کا دہلی کے قریب کہیں کار ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، ان کی اہلیہ کی موت ہوگئی ہے، وہ بہت سیریس ہیں، ڈسٹرکٹ ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں ، یہ لوگ پونے کے ہیں، ان کے سرپرست پونے سے دلی کے لیے روانہ ہورہے ہیں، میں آپ کو واٹس اپ پرزخمی ہونے والے شخص کا آدھار کارڈ، ایکسیڈنٹ کے بعد اس کا فوٹو اور ڈاکٹر کا فون نمبر بھیج رہا ہوں، آپ ڈاکٹر سے فوری بات کرلیجیے، اور جو بھی مدد ہوسکے کردیجیے۔ دہلی ان لوگوں کے لیے اجنبی جگہ ہے، اور انھیں مدد کی سخت ضرورت ہے۔ وہ لوگ پیسے والے ہیں، پیسو ں کا مسئلہ نہیں ہے، انھیں بس وہاں کے کسی واقف کار شخص کے سپورٹ کی ضرورت ہے۔
میں پریشان ہوگیا، اتنے میں واٹس اپ پر سعید صاحب کا میسیج آیا، آدھار کارڈ کا فوٹو تھا، ایکسیڈنٹ والی تصویر مجھ سے دیکھی نہیں جاتی ہے، اس لیے اسے نہیں کھولا، ڈاکٹر آصف کا نمبر دیا ہوا تھا۔ میں نے فورًا ڈاکٹر کو فون لگایا، اس نے فون اٹھایا، بات نہیں ہوپارہی تھی، لائن ڈسٹرب تھی، کئی بار فون لگایا، تب جاکر بات ہوئی، میں نے کہا میں شعیب کی بابت معلوم کرنا چاہتا ہوں وہ کس ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے، ڈاکٹر نے کہا : یہ ایکسیڈنٹ گجرولہ مرادابادکے پاس ہوا ہے، ٹی ایم یو میڈیکل کالج میں ایڈمٹ ہے، لڑکی مرچکی ہے، اب لڑکا کافی سیریس ہے، سر کی چوٹ ہے، دماغ میں خون بہہ رہا ہے، ہم اسے میکس (ساکیت) دہلی بھیج رہے ہیں، گاڑی تیار ہے، پیسوں کی ادائیگی ہوتے ہی روانہ ہوجائے گی، آپ لوگ جلدی کریں ورنہ یہ بھی فوت ہوجائے گا۔ میں نے پوچھا کتنی رقم چاہیے؟ اس نے کہا بارہ ہزار روپے ایمبولینس کے، تین ہزار روپے سٹی اسکین کے۔
اس نے مزید بتایا کہ اس سے پہلے جو کچھ خرچہ ہوا اس کے لیے اٹھارہ ہزار روپے اس کے گھر والے بھیج چکے ہیں، اب گاڑی وغیرہ کا خرچ پندرہ ہزار روپے ہے۔ فورًا بھیجیں ، ورنہ اس کی جان کو شدید خطرہ ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، میں بات کرتا ہوں۔ میں نے سعید صاحب کو فون کرکے بتایا انھوں نے کہا میں آپ کا نمبر ان کے سرپرست کو دیتا ہوں وہ آپ سے بات کرلیں گے۔ تھوڑی دیر بعد میرے پاس ایک نمبر سے کال آئی ، میں نے کال ریسیو کی، ادھر سے غمگین آواز میں ایک صاحب بولے میں شعیب کا چچا ہوں، ہم ابھی فلائٹ میں بیٹھ رہے ہیں دہلی کے لیے، گیارہ بجے تک پہنچیں گے، تین گھنٹے میں شعیب کو ایمبولینس دہلی لے کر پہنچے گی، میں نے کہا وہ پندرہ ہزار روپے مانگ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا آپ دے دیں ہم دہلی آکر آپ کو ادا کردیں گے، اب فلائٹ روانہ ہونے والی ہے۔ میں نے سعید صاحب کو بتایا انھوں نے کہا آپ دے دیں، وہ پیسے والے لوگ ہیں آپ کو ادا کردیں گے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا اور ان سے بینک کی تفصیل مانگی، کچھ ہی دیر میں ایس ایم ایس آیا، اس میں تفصیل تھی۔ یس بینک کا اکاؤنٹ نمبر تھا۔ میں نے فوری رقم ٹرانسفر کرنے کی کوشش کی، میرے دل کی دھڑکن تیز چل رہی تھی، تین چار بار کی کوشش کے بعد رقم ٹرانسفر ہوگئی۔ میں نے اس کی رسید واٹس اپ پر بھیجی، پھر فون کیا، ڈاکٹر آصف نے کہا : رقم مل گئی ہے، ہم روانہ کررہے ہیں۔ اس دوران میں نے اپنے بہنوئی برہان صدیقی کو فون لگایا، ان کو صورت حال بتائی ، ان کے دلی کے بڑے اسپتالوں میں اچھے تعلقات ہیں، انھوں نے مشورہ دیا کہ میکس کے بجائے فرید آباد میٹرو ہاسپٹل میں بلالو، وہاں مینیجمنٹ سے تعلقات ہیں، بہتر دیکھ ریکھ ہوسکے گی۔ بل میں اچھا خاصا ڈسکاؤنٹ بھی ہوجائے گا۔ یہاں میکس کے ہی درجے کی سہولیات ہیں۔ میں نے فورًا ڈاکٹر آصف کو فون لگایا اس نے کہا گاڑی دس منٹ پہلے نکل چکی ہے، میں نے کہا اس سے کہیے فرید آباد میٹرو ہاسپٹل پہنچے، اور اس کا نمبر دے دیجیے۔
انھوں نے کہا: میں نے آپ کا نمبر اسے دے دیا ہے وہ تھوڑی دیر میں آپ کو فون کرے گا۔ میں نے ڈاکٹر آصف کا شکریہ ادا کیا، اس نے بتایا کہ میں ٹی ایم یو میڈیکل کالج میں میڈیکل آفیسر ہوں، میں نے کہا : اللہ آپ کو اچھا صلہ دے آپ نے بڑی مدد کی، ڈاکٹر آصف نے کہا: میں نے اپنی حد تک تو پوری کوشش کرلی، آگے آپ دیکھیں، لڑکے کے بچنے کی بس ایک فی صد امید ہے نناوے فی صد امید نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی بجی، ادھر سے آواز آئی میں ایمبولنس پر لے کر جارہا ہوں، میٹرو ہاسپٹل پہنچوں گا، میں نے کہا کتنی دیر لگے گی اس نے کہا ایک گھنٹہ چالیس منٹ۔میں نے فریدآباد جانے کے لیے گاڑی کا انتظام کیا۔ ایس آئی او دہلی کے زونل سیکریٹری فواز جاوید سے بات کی کہ خون کی ضرورت پڑ سکتی ہے اس کا انتظام رکھو، برہان صدیقی سے گزارش کی کہ وہ بھی ساتھ چلیں۔وہ فورًا تیار ہوگئے۔
کوئی پونے گھنٹے کے بعد پھر میرے پاس ایمبولنس ڈرائیور کا فون آیا، اس نے کہا ہم ہاپوڑ پہنچے ہیں، یہاں لڑکے کی حالت بگڑ گئی ہے، ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں رک کر کچھ انجکشن دلانے ہوں گے، میں نے کہا دہلی نہیں لاسکتے ، کہا نہیں ، حالت بگڑ گئی ہے، وہ مرسکتا ہے۔ میں نے کہا کتنا خرچ آئے گا اس نے کہا کچھ بائیس ہزار۔ میں نے سوچا کہ لڑکے کے گھر والے جہاز میں ہیں، یہاں زندگی اور موت کا معاملہ ہے، فورًا فیصلہ لینا ہوگا۔ پھر میں نے سعید صاحب سے بات کی، وہ بھی سوچ میں پڑگئے، کہا آدھا گھنٹہ انتظار کرلیا جائے، میں نے کہا : انتظار تو چند منٹ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے، فیصلہ فورًا لینا ہوگا۔ میں نے ایمبولینس ڈرائیور کو فون کیا اور اس سے کہا کتنا خرچہ آئے گا معلوم کرکے بتاؤ، اس نے کہا: تیئیس ہزار آٹھ سو روپے۔ مجھے شبہ ہوا کہ اس نے تیس کہا ہے یا تیئیس، میں نے دوبارہ پوچھا اس نے صاف بتایا تیئیس ہزار آٹھ سو روپے، میں نے کہا کس اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروں؟
اس نے کہا: اسی اکاؤنٹ میں کردو، میں نے فورًا وہ رقم ٹرانسفر کردی اور اس سے پوچھا وہاں کتنی دیر لگے گی؟ اس نے کہا آدھا گھنٹہ تو لگے گا۔ میں نے سوچا کہ مجھے میٹرو ہاسپٹل پہنچنا چاہیے، ایرپورٹ سے لڑکے کے چچا کا فون آئے گا تو انھیں بھی وہیں بلا لوں گا۔ میں ، میرا بیٹا اسامہ اور بہنوئی برہان صدیقی گاڑی سے روانہ ہوگئے۔ بھائی برہان نے کہا کہ ایمبولینس والے کو لوکیشن بھیج دیں اور اسے بتادیں کہ فرید آباد والے میٹرو ہاسپٹل آنا ہے، کیوں کہ ایک میٹرو ہاسپٹل نویڈا میں بھی ہے۔ میں نے لوکیشن بھیجی اور اسے فون کیا، اس نے کہا: مجھے دلی کے تمام بڑے ہاسپٹل معلوم ہیں فکر نہ کرو میں سیدھے وہیں پہنچوں گا۔ کچھ اور آگے بڑھے کہ پھر ایک فون آیا، پونے کے فاروق صاحب بول رہے تھے، انھوں نے بتایا کہ ہم آٹھ لوگ دلی ایرپورٹ پر آگئے ہیں، ایمبولینس والے سے ہمارا ڈاکٹر آصف کے ذریعے رابطہ ہوگیا ہے، لڑکے کی کنڈیشن بہت خراب ہے، ہم رسک نہیں لے سکتے ، ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ سیدھے اپولو لے جاؤ، اس لیے ہم نے ایمبولینس کو اپولو پہنچنے کو بول دیا ہے، ہم وہاں پہنچ کر سب دیکھ لیں گے، آپ گھر چلے جائیں صبح آئیے گا، اُسی وقت ہم آپ کے پیسے بھی ادا کردیں گے۔ میں نے کہا پیسے ادا ہوتے رہیں گے، آپ ابھی اپنے مریض کو دیکھیے، میں صبح ملوں گا۔
اس نے کہا: حاجی صاحب ہم لوگ بہت پیسے والے ہیں، پونے میں ہمارا بہت بڑا بزنس ہے، ابھی وہاں بکرا قربان کیا گیا ہے، مسجدوں میں دعائیں ہورہی ہیں، آپ بھی اپنے یہاں دعا کرائیے، پیسوں کی ذرا فکر نہ کریے گا، ہم آپ کے بہت احسان مند ہیں آپ نے ایسے مشکل وقت میں ہماری مدد کی۔ پھر اس نے شعیب کے باپ کو فون دے دیا، حاجی صاحب ان کو تسلی دے دیں۔ میں نے انھیں تسلی کے الفاظ کہے، وہ بہت دکھی معلوم ہورہے تھے۔ ہم نے گاڑی گھر کی طرف موڑ لی۔ میرا دل اس حادثے سے بہت متاثر تھا۔ ذہن میں بار بار خیال آرہا تھا کہ کسی اجنبی جگہ پر ایسا حادثہ پیش آجائے تو کتنی بے بسی اور بے چارگی ہوتی ہے۔ اس کی بیوی فوت ہوگئی اسے بچایا نہیں جاسکا، اللہ کرے اب وہ بچ جائے، میں نے تو اپنے بس میں جو کچھ تھا کردیا۔ اگر اس کی جان بچ گئی تو میرے لیے کتنی خوشی کی بات ہوگی کہ ایک انسان کی جان بچانے میں میری معمولی سی کوشش کام آگئی۔ مجھے پیسوں کی ذرا بھی فکر نہیں تھی۔ گھر آکر میں سو گیا، فجر کے بعد سوچا انھیں فون کروں لیکن پھر یہ سوچ کر رک گیا کہ وہ لوگ رات بھر کے جاگے، ہوسکتا ہے آرام کررہے ہوں۔ اس کے بعد میں اپنے دفتر کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ گیارہ بجے کے لگ بھگ پھر فون آیا، ادھر سے آواز غم میں ڈوبی لگ رہی تھی، حاجی صاحب وہ لڑکا فوت ہوگیا۔ میں نے آہ بھری، ان لوگوں کے لیے اللہ سے رحم کی دعا کی۔ وہ بتانے لگا کہ رات میں ہم اسے لے کر اپولو پہنچے انھوں نے ایڈمٹ کرنے سے انکار کردیا، پھر دہلی کے بڑے بڑے اسپتالوں کا چکر لگاتے رہے، صبح پانچ بجے صفدر جنگ اسپتال کے سامنے اس نے آخری سانس لی۔
لڑکی کی باڈی تو صبح ہی پونے بھیج دی تھی اب لڑکے کی باڈی ساتھ لے جانا ہے، میں ایرپورٹ جارہا ہوں، فلائٹ بک کرنے۔ لڑکے کے باپ کی طبیعت بہت بگڑ گئی تھی، انھیں کچھ لوگوں کے ساتھ پونے بھیج دیا ہے۔ اب ہم لاش کو لے کرجہاز سے یا گاڑی سے کسی طرح جائیں گے۔ حاجی صاحب آپ اکاؤنٹ نمبر بھیج دیں ہم کل ہی آپ کو رقم بھیج دیں گے۔ میں نے کہا: رقم کی جلدی نہیں ہے، آپ لوگ ویسے ہی غم کے مارے ہیں، بعد میں دیکھ لیا جائے گا۔ میں بہت دکھی تھا، مجھے قوی امید تھی کہ اس کی جان بچانے کی خوشی مجھے حاصل ہوگی لیکن اللہ کو یہ منظور نہیں تھا، زندگی اور موت کے فیصلے تو اس کے ہاتھ میں ہیں۔ میں نے پونے جماعت اسلامی کے ایک ذمے دار اظہر علی وارثی صاحب کو فون کیا اور فاروق صاحب کا نمبر دیا، اور ان سے گزارش کی کہ ان کا گھر معلوم کرکے تعزیت کرلیں، ان کے ساتھ بڑا شدید حادثہ پیش آیا ہے۔ وارثی صاحب نے یقین دلایا کہ وہ پتہ معلوم کرکے وہاں ضرور پہنچیں گے۔
میں نے سعید صاحب کو فون کرکے اب تک کی صورت حال بتائی، انھوں نے بھی بڑے دکھ کا اظہار کیا۔ وہ تفصیل بتانے لگے کہ جن کے ساتھ حادثہ پیش آیا انھیں میں براہ راست تو نہیں جانتا ، میرے بنگلور میں ایک شناسا ہیں، ان کا نام نوفل (نام بدل دیا گیا) ہے اور وہ ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر ہیں،انھوں نے مجھے فون کیا تھا کہ پونے کے میرے ایک تعلقاتی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آگیا ہے، آپ جماعت اسلامی کےآدمی ہیں، دہلی میں آپ کے لوگ ہوں گے ، ان سے بات کریں ، اگر کچھ مدد ہوسکے۔ آپ نے موقع پر مدد کردی بہت اچھا کیا۔ میں سوچنے لگا کہ اللہ کے فضل سے جماعت اسلامی کے افراد کی یہ امیج پورے ملک میں بنی ہوئی ہے کہ وہ مصیبت میں کام آتے ہیں۔ دوسری سیاسی پارٹیوں اور مذہبی جماعتوں کے لوگ مشکل وقت میں ان سے رابطہ کرتے ہیں ، یہ اچھی بات ہے۔دن مصروفیات میں گزرگیا، گذشتہ شب کے حادثے کا خیال رہ رہ کر آتا رہا۔
شام کو میرے پاس ایمبولینس ڈرائیور کا فون آیا، لیکن آواز اس کی نہیں بلکہ پونے والے فاروق صاحب کی تھی، انھوں نے بتایا کہ ہم پونے پہنچ گئے ہیں، آپ کے پیسے ہم نے بنگلور کے ان صاحب کو بھیج دیے ہیں جن کے ذریعے آپ سے رابطہ ہوا تھا وہ آپ کو بھیج دیں گے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ اسی ایمبولنس سے پونے باڈی لے کر آئے ہیں، انھوں نے کہا کہ نہیں، میں نے کہا کہ یہ نمبر تو ایمبولینس ڈرائیور کا ہے۔ اس پر وہ ہڑبڑا گیا اور فون کاٹ دیا۔ اس کے بعد سے وہ سارے فون بند ہیں جن سے میری ان لوگوں سے بات ہورہی تھی۔ کچھ دیر بعد وارثی صاحب کا میسیج آیا کہ پونے کے جن صاحب کا نمبر تم نے دیا تھا اس پر پہلے تو بات ہوئی اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ پونے پہنچ کر اطلاع کریں گے، مگر اب وہ فون بند ہے۔ ڈاکٹر آصف کا فون، ایمبولینس والے کا فون اور پونے کا فاروق کا فون، سارے فون بند۔میں گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
کیا یہ سب کچھ فراڈ تھا؟!! کیا مجھے مدد کرنے سے پہلے تحقیق نہیں کرنی چاہیے تھی؟!!لیکن ہر موقع پر تحقیق کے لیے وقت نہیں ہوتا ہے۔
جب آپ کے پاس فیصلہ لینے کے لیے بس کچھ لمحات ہوں، اور معاملہ کسی انسان کی جان بچانے کا ہو تو تحقیق میں وقت ضائع کرنا جائز نہیں ہوتا ہے۔ پھر بھی تحقیق کے لیے کچھ نہ کچھ تو ضرور کیا جاسکتا ہے، جدید ٹکنالوجی کی مدد سے آپ کچھ باتیں تو معلوم کر ہی سکتے ہیں، لیکن ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آپ سے کوئی اجنبی رابطہ کرے یا آپ کے دل میں کسی وجہ سے شک پیدا ہو۔ اگر سب کچھ بالکل نارمل ہورہا ہو، آندھی کی طرح واقعات حرکت میں ہوں اور دل میں جذبات کا طوفان برپا ہو تو تحقیق کے بجائے بھروسے کی بنیاد پر ہی ساری تگ و دو ہوتی ہے۔
کل میرے جذبات کا عجب حال تھا ، سوچ رہا تھا کس طرح اُڑ کر چلا جاؤں اور ایک زخمی انسان کی جان بچانے کے لیے جو ہوسکے کردوں، نہ مجھے پیسے کی فکر تھی اور نہ آرام کی۔ آج میری کیفیت بالکل غیر ہے، آج خود میرے اندر کا انسان شدید زخمی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے کسی نے میری جیب کے ساتھ میرے جذبات کو بھی لوٹ لیا۔سوچ رہا ہوں کہ اگر دھوکہ دینے والے اس طرح جذبات سے کھیل کر دھوکہ دیں گے تو لوگ مصیبت زدہ انسانوں کی مدد کے لیے کیسے آگے بڑھیں گے۔ (10 نومبر ۲۰۲۱ء تک کی صورت حال۔ محی الدین غازی)