شخصیاتمضامین

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ: تاریخ انسانی کی بلند و بالا شخصیت

ابن امجد

علامہ اقبال رح ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اسلام کی سچی روح سے مزین ایمانی حرارت و حلاوت سے بھرپور شاعری کی ہے اور امت مسلمہ کو اپنا مقصد وجود و مقام خودی کو سمجھایا ہے اور دنیا و آخرت میں عزت و سربلندی کی بنیادیں قرآن و حدیث و تاریخ کے روشن اوراق میں ڈھونڈنے کی طرف متوجہ کیا ہے اور اسلام کی سچی تعلیمات و اس کے روح سے بھرپور مزین شاعری کی ہے۔۔ ایسے کلام و شاعری کو مستقل پڑھتے رہنے و غور و فکر کرتے رہنے اور اپنا تنقیدی جائزہ لیتے رہنے اور حق کی سربلندی کےلیے سامان سفر باندھنے و ایمانی جذبوں کو مہمیز دینے کے لیے مستقل پڑھتے رہنے کی ضرورت ہے۔۔ میں ان کی زبان و ادب و بیان کو اپنے مافی الضمیر بہترین انداز میں پیش کرنے کےلیے ہیرے و موتیوں کی طرح استعمال کرنا پسند کرتا ہوں کہ جس سے زبان و بیان میں تازگی و جان آجاتی ہے اور اس کی خوبصورتی دوبالا ہوجاتی ہے۔۔ اللہ تعالی غریق رحمت کرے اس مرد درویش کو جس نے زندگی کے رموز سمجھائے اور غفلت سے انسانیت کو جگانے کےلیے اپنے خون جگر میں قلم کو ڈبو کر لکھا۔۔

ان کے ہر شعر میں ان کے جذبوں کی گرمی و دھڑکتا ہوا ان کا دل اور ان کی گہری نظر و ذہین و فطین و مومنانہ فراست سے معمور ذہن محسوس ہوتا ہے۔۔انہوں نے انسانی اذہان کی پراگندگی کو علم وحی سے عام فہم اور زبان عام پر چڑھ جانے والے آسان انداز میں اور زور بیان و خوبصورت انداز میں اشعار کی شکل میں موتیوں کی طرح پرو کر زندہ و جاوید پیغام حق انسانیت تک پہنچایا ہے۔۔ جس کے لیے انسانیت کبھی ان کے احسان سے سبکدوش نہیں ہوسکتی۔۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے بہترین محسن کا حق ادا کرنے اوراا کے بتائے اپنے ماضی کے آئنہ میں دیکھ کر اپنے حال کو درست کرنے اور مستقبل کی تعمیر نو حق کی معرفت و رہنمائی میں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین یا رب العالمین۔۔ علامہ اقبال رح کے شعری کلام سے بھی زیادہ ان کی شخصیت کی علمی و روحانی خوبصورتی سے میں بہت متاثر ہوں۔۔

وہ ایک مرد درویش تھا جسے حق نے حق روشناس کیاتھا اور ایسی باتیں اس کے ذہن میں پیدا فرمائیں تاریخ انسانی میں ایسی شخصیات کسی قوم و ملک میں شاذو نادر ہی نظر نہیں آتی ہیں۔۔ ان کی نثر و ان کے انگلش کے اعلی علمی لیکچرس سے تو ممیں مستقل سر دھنتارہتاہوں۔۔اور مستقل پڑھتا رہتا ہوں اور نوجوان نسل کو انہیں پڑھنے سمجھنے اورچاند کے بتائے نورانی سفر پر سفر کرنے کا عزم سفر باندھنے کی بےحد ضرورت ہے۔۔اللہ رب العزت نے کیا ذہن رسا دیاتھا ان کو۔۔یہ اللہ کا فضل ہے جس کو مل گیا۔۔

وہ غلامی کے اس دور میں ایمان بااللہ کی تعریف زبردست علمی و فکری و سائینٹفک انداز میں کررہے تھے یہ ان کا ہی ملکہ و کمال تھا کہ ان کی ایمانی جراءت و کمال کے سامنے انگریز حکمراں بھی قائل رہتے تھے۔۔ اسلام کا جس زبردست انداز میں بین الاقوامی سطح پر جس مضبوط انداز میں فکر و نظر کی بنیاد پر زبردست جولانیوں کےساتھ حق کی سچی عظمت کے ساتھ بلند فکری و اعلی نگہی کےساتھ حق کو واشگاف کیا و پیش کیا کہ ایک دنیا انگشت بدنداں تھی اور حق کے معترف ہونے پر مجبور ہو جاتے تھے ان کے علمی و فکری مدلل دلائل سے بھرپور گفتگو سے۔۔

جب کہ سارے نام نہاد علماء جن کے بڑے بڑے نام تھے پوری دنیا میں انیسویں صدی میں مسلمانوں کی حکومتوں کے سرنگوں ہونے و زبوں حالی کی وجہسے پریشان اور برٹش گورنمنٹ کے سامنے حق کو بلند کرنے سے گریزاں تھے اور اپنی ذہنی و فکری خلاشی و مفلسی کا اور ذہنی غلامی کا اپنے عمل سے مظاہرہ کررہے تھے اور صرف یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ ہم اپنے بچوں کو دینی تعلیم دے کر اسلام کو ہماری آئندہ نسلوں میں بھی باقی رکھ پائیں تو کافی ہے یہی بہت بڑا کام ہے’ ورنہ اسلام کا نام ہی کہیں مٹ نہ جائے کہہ کر دفاع کی جنگ لڑنے کےلیے تیار ہوگئے تھے اور اپنی چاردیواری کی مسجد و مدرسے تک اسلام کو محدود کردیاتھا اور اپنی اسلام کے بلند ترین دعوت حق کو امت مسلمہ تک بے روح انداز میں محدود کردیاتھا۔۔

ایسے میں بلند بانگ اسلام کے سچے عالمی و آفاقی و کائناتی ‘ سچی پر عظمت تعلیمات کی سچی روح کےساتھ ببانگ دہل ساری دنیائے انسانیت کو پیغام حق اپنے اشعار و افکار کی بلندیوں و جولانیوں کے ساتھ دیتے ہوئے ہزاروں کے مجمع میں مدراس لےکر پورے بر صغیر پاک و ہند میں اور پوری دنیا کے ہر خطہ میں حق کی آواز و ہمت و جراءت کی سچی ایمانی روح پھونکنے والے سارے ذہنی و فکری غلامیوں کی زنجیروں کو پوری طاقت سے توڑتے ہوئے اور ملکوں کے حدود بارڈرس کی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے ایک بہترین و خوبصورت و پر عزم و روح پرور حق کی آواز بلند ہوتی ہے جو ہر جگہ پوری مسلم دنیا ہی نہیں بلکہ انگلینڈ و یورپ ہر جگہ کے ذہنوں کو اپنے سحر میں قید کرلیتی ہے اور ان کے ضمیروں کو جھنجوڑکر حق کی معرفت کی طرف متوجہ کرتی ہے یہ آواز علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی آواز تھی۔۔

ان کے کام اور ان کے حالات پر نظر ڈالیں تو ان کے مقام و کام کی بلندی و ان کی عبقرہت کا پتہ چلتا ہے۔۔ ایک یکہ و تنہا انسان پوری ملت اسلامیہ کو جو مردہ پڑی ہوئی اور جنگوں میں مستقل ہار کر سپر ڈالی ہوئی مردہ قوم میں ایمان کی نئ جوت جاتاہے اورچایک نئی زندگی کی روح پیدا کردیتاہے۔۔ اسلام کے سچے وحی کے علم کے ذریعے اس کی روح کو زبردست مضبوط و خوبصورت پیرائے میں اپنے اشعار و افکار کے ذریعے خواص و عوام سارے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے اور ایک زبردست فطری انقلاب کی طرف دعوت دیتا ہے اور باطل نظریات و افکار پر یلغار کرتا ہوا ان کا علمی و فکری غورطلب انداز سارے زمانے کو متحیر کر دیتا ہے اور افکار کی دنیا میں اپنی جیت کے جھنڈے گاڑے چلا جاتا ہے جس کا کوئی اس زمانے کا بڑے سے بڑا مفکر مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھا۔۔بلکہ حق کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور نظر آتا ہے۔۔یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے۔۔

اور صرف اپنی ہی قوم کو گم گشتہ راہ کو راہ یقین دکھاکر جذبوں کو مہمیز دے کرحق کی معرفت و سربلندی کی سچی راہوں پر آگے بڑھاکر چھوڑ نہیں دیتا بلکہ راستے کی ہر منزل کا کتاب حق کی روشنی میں اپنے اشعار کے ذریعے پتہ دیتاہےاور ان کا تزکیہ و تربیت کرتاہے۔۔ پوری انسانی شخصیت کی تعمیر کے سارے لوازم وحئ الہی و سنت طیبہ حضرت محمد ﷺ کی زندگی کی روشنی میں سمجھاتا ہے۔۔ کہیں کوئل کی کوک سے ‘کہیں پرندوں کی چہچہاہٹ سے ‘ کہیں اے نوجواں مسلم کہہ کر اپنی حالت زار پر غور کرو کہہ کر ایسا اچھوتا اور انوکھا انداز بیاں سے سچے بلند و بالا انسانیت کے مقصد کے شعور کو اپنے اندر جگانے کی طرف متوجہ کرتاہےاور ایسا بامقصد و بلند ترین زبان و ادب کےاشعار و افکار سے کہتا ہے کہ ایک دنیا اپنا نقد دل حق کے سامنے ہارنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔۔اور آج بھی جو سچے دل سے ان کو پڑھتا ہے ان کے جذبوں و افکار کی پاکیزگی و بلندی و الفاظ کی خوبصورتی کو دیکھ کر دل عش عش کر جاتاہے۔۔

اور دوسری طرف غیر مسلم اقوام کو بھی فکری بنیادوں پر سونچنے پر مجبور کرکے اپنے افکار و خیالات سے زبردست باطل افکار و نظریات پر اعلی فکری یلغار کرتاہے کہ باطل تھرا اٹھتاہے۔۔ اور سعید روحیں اسلام کی سچی حقیقت کے واشگاف ہوتے دیکھ کر دامن رحمت میں داخل ہوتے ہم دیکھتے ہیں۔۔ اس کے ایمان کی حرارت سے ایک دنیائے انسانیت غالب قوم بھی اس کی فکر و بیان کی طاقت کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوتی نظر آتی ہے۔۔ اور حق کی معرفت پر مجبور نظر آتی ہے۔۔ دنیائے انسانیت میں کتنے سعید روحوں نے ان کے افکار کی بلندیوں سے فیضیاب ہوکر ایمان کا مزہ چکھا ہوگا اس کا کوئی حساب نہیں۔۔ بے حساب لوگ حق کی معرفت حاصل کیے اور ہدایت یافتہ ہوئے۔۔ الحمدللہ۔۔ اور آج کے اس دور میں بھی تقریباً سو سال کی مسافت پر رہنے کے باوجود اس کا ذہن اتنا آگے تھا کہ اس کی مومنانہ فراست سے ہم آج بھی راہ پاتے رہتے ہیں اور حق سے روشناس ہوتے اور باطل کا بہترین انداز میں افکار و اعمال کی دنیا میں مقابلہ کرتےرہتے ہیں۔۔ آج بھی میں دعوت کے کام میں اور توحید خالص و اسلام کی بنیادی تعلیمات کو سائینٹفک انداز میں سمجھنے اور زبردست انداز میں باطل افکار کا مقابلہ کرنے کےلیے ہمیں بہترین مواد انہی کے پاس ملتا ہے۔۔

دعوتی نقطہ نظر سے بھی امت مسلمہ کے افراد کو اور آج کی نوجوان نسلوں کو انہیں پڑھنے کی اور علم و حکمت حاصل کرنے کی بے انتہا ضرورت ہے۔۔ میں مستقل انہیں پڑھتا ہوں اور ان کی نثر کی تقریر کے زبردست تراجم پڑھ کر اپنا ایمان بھی زندہ و تازہ کرتا ہوں اور پورے یقین و حکمتوں کے ساتھ ادیان باطلہ کے افکار و خیالات کو ان کی فکر کی بلندی کے ہتھیاروں سے لیس کرکے کامیاب مباحثہ و جنگ و یلغار کرتا ہوں پورے یقین و ثبات کےساتھ۔۔ اور الحمد للہ ہر بار بہترین سکون و کامیابی نصیب ہوتی ہے۔۔

ان کے جیسے بڑے مفکر دنیا کی تاریخ میں بہت کم پیدا ہوئے ہیں۔۔ ہم اپنے بہترین محسن کو بھول نہیں سکتے۔۔ اللہ تعالی علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کت درجات بلند فرمائے اور ان کے افکار کی روشنیوں میں ہمیں سفر کرنے اور اپنی منزل مقصود کو پانے اور اعلائے کلمۃ اللہ کو زبردست انداز میں پر حکمتوں کےساتھ’ خوبصورت و باکمال انداز میں ساری انسانیت تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین یا ارحم الراحمین یا رب العرش العظيم۔۔

نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتاہے خود ان کی قوم نے ان کی قدر و منزلت نہیں پہچانی اور ان سے پورا فائدہ اٹھانے کے مقام پر نہیں ہے۔۔ اللہ تعالی امت مسلمہ کو جاگنے اور اپنے سچے محسنین کا حق پہچاننے اور ان کی کاوشوں کو سمجھنے اور اس کا حق ادا کرکے دنیا و آخرت میں سرخ رو ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین یا رب العرش العظيم۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!