ستمبر-17: تقسیم ہند کے بعد ہندوستانی تاریخ کاایک سیاہ باب
محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی، گلبرگہ
17 ستمبر 1948کے خوں آشام فسادات و تباہی کا زخم بہت گہرا ہے اور ابھی تک بھی تازہ ہے۔ دراصل 17 ستمبر یوم آزادی نہیں بلکہ قتل عام اور تباہی و بربادی کا دن تھا جس کے کرب و اذیت کے اثرات آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ان فسادات میں جسے پولس ایکشن کا نام دیا گیا تھا،کئی ہفتوں تک اکثر دیہاتوں میں لاشیں بے گور و کفن کھیتوں میں پڑی تھیں۔ خواتین اور بچوں کی لاشوں سے کنویں پٹے پائے گئے اور ظلم و ستم کے ایسے واقعات ہوئے کہ دل دہل گیا۔
سقوط حیدر آباد کے ساتھ ہی ساری ریاست میں مسلمانوں کے قتل و غارت گری کاسلسلہ شروع ہوگیا جو کئی مہینوں تک جاری رہا۔مسلمانوں کی زمینات اورجائیدادوں کو زبردستی ہڑپ لیاگیا۔ان کامال و اسباب لوٹ لیا گیا۔ خواتین کی عصمت تارتار ہوئی۔ شہریوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے گولی ماری گئی،ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں اور دیہی علاقوں میں فسادات کا بازار گرم رہا۔ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل و خون اور ان کی تباہی اور بربادی ہوئی،یہ خون آشام داستان جب بھی یاد آتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
مؤرخین کے مطابق آپریشن پولو کے نام پر اس وقت فوج نے 2 لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا تھا اور ظلم و بربریت کی انتہا کی گئی تھی۔ سقوط حیدرآباد 1948 کو ہندوستان کی تاریخ کا سنہرا باب اورسردار ولبھ بھائی پٹیل کاایک عظیم کارنامہ سمجھنے والوں کو یہ بھی جاننا ضروری ہیکہ آج بھی ایک اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے،بالخصوص تلنگانہ و آندھرا پردیش میں جو آج بھی سقوط حیدرآبادکے عمل کوایک آزاد ریاست پر حملہ قرار دیتی اوریہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا حیدرآباد کا سقوط ہندوستان کا درست اورجائز قدم تھا؟جس میں ایک بڑی تعداد میں عوام مارے گئے تھے اوراملاک کابڑے پیمانے پر نقصان ہواتھا۔حیدرآباد پر فوجی کارروائی تقسیم ہند کے بعدکی ہندوستانی تاریخ کاایک سیاہ باب ہے۔تقسیم ہند کا زخم ایسے فسادات کی تباہی اوردرد و کرب کے سبب آج تک بھی بھر نہ سکا۔آزاد ہندوستان کی تاریخ فرقہ وارانہ فسادات،فرضی مڈبھیڑوں اورمسلمانوں کے تئیں تعصب سے بھری ہوئی ہے۔
13ستمبر 1948ء کو ہندوستانی افواج نے آصف جاہی مملکت حیدرآباد کے خلاف بھر پور فوجی کارروائی کا بغیر کسی اطلاع یا الٹی میٹم اچانک آغاز کیا تھا تاکہ 11 ستمبر کو ہوئی محمد علی جناح کی وفات کا پورا پورا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ محمد علی جناح کی وفات کے صدمہ سے پاکستان حیدرآباد کی فوری مدد سے قاصر تھا تو حکومت حیدرآباد اور حیدرآبادی عوام بھی اس صدمہ کی وجہ سے جنگی کارروائیوں کے موقف میں نہ تھے۔ دوسری اہم وجہ حیدرآباد کے سپہ لار العید روس کی غداری ہے جو میر جعفر کی سراج الدولہ اور میر صادق کی ٹیپوسلطان سے غداریوں سے بھی زیادہ شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ حیدرآباد اسلحہ کے ذخیرہ کو کی پیکنگ تک کھولی بھی نہیں گئی تھی۔ جنرل چودھری نے کہا تھا: اگر حیدرآباد فوج نے ان ہتھیاروں کا استعمال کیا ہوتا تو ہندوستانی فوج کیلئے حیدرآباد پر قبضہ کرنا اتنا آسان نہ ہوتا۔ یہ مردود العیدروس کی غداری کا ایک نمونہ تھا۔سقوط حیدرآباد کا تیسرا اہم سبب حکومت حیدرآباد کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے انتہائی تاخیر سے پیش کرنا تھا۔
21 اگست کو حکومت حیدرآباد نے اپنی شکایت صدر سلامتی کونسل سے پیش کی تھی لیکن سلامتی کونسل میں حیدرآباد نے اپنا مقدمہ 15ستمبر کو پیش کیا لیکن تاخیر کے سبب سلامتی کونسل کچھ کرنے سے قاصر تھی۔ سلامتی کونسل کا جو اجلاس جنگ بندی کا حکم دینے کیلئے ہونے والا تھا وہ نظام کے ہتھیار ڈالنے کے اعلان (شام 3 بجے) کے صرف تین گھنٹے بعد (ہندوستانی وقت) 6 بجے شام ہونے والا تھا۔ یہ حکومت ہند اور اس کے ایجنٹ جنرل کے ایم منشی کی چالاکی تھی کہ شہر حیدرآباد میں ہندوستانی فوج کے داخلے سے پہلے ہی نظام سے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کروادیا تاکہ ہندوستانی وقت کے مطابق 6 بجے شام ہونے والا سیکوریٹی کونسل کا اجلاس کسی جنگ بندی کا حکم ہی نہ دے سکے۔ نظام اپنی پریشانی میں منشی کے ہاتھوں کھلونا بن گئے تھے اور اپنی پیروں پر آپ کلہاڑی مارلی تھی۔ نظام نے آخری وقت میں سرمرزا اسمٰعیل اور زین یارجنگ اور سپہ سالار حیدرآباد افواج عیدروس کی طئے شدہ سازش کا شکار ہوگئے اور عجلت و پریشانی میں ہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیا۔
14اگست 1947 کی نصف شب کو ہندوستان تقسیم ہوگیااوردنیا کے نقشہ پر ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آیا۔ 15اگست 1947 کو انگریزوں نے ہندوستان کو آزاد کردیا۔تقسیم ہندسے قبل ہندوستان میں تقریبا 500 آزاد ریاستیں یا رجواڑے تھے۔ ان میں جنوبی ہند کی مسلم ریاست حیدر آباد رقبہ کے اعتبار سے سب سے بڑی ریاست تھی۔ اسے اتفاق ہی کہئے کہ یہاں مسلمانوں کی تعداد 12.5فیصد اور ہندووں کی آبادی 87.5فیصد تھی۔اس کے باوجود یہاں مسلم حکمرانوں نے سینکڑوں سال تک حکومت کی۔ حیدرآباد دکن پر 1723تا1947ء یعنی 224 سال آصف جاہی حکمرانوں نے بڑی شان و شوکت اور دبدبے کے ساتھ حکومت کی۔
ریاست حیدر آباد کی بنیاد میر قمرالدین علی خاں آصف جاہ اول نے ڈالی تھی۔ اور آخری بادشاہ میر عثمان علی خان بہادر آصف جاہ سابع تھے۔ آصف جاہ سابع کادور اقتدار 15اپریل 1911تا17 ستمبر 1947 پر محیط ہے۔ ان کے37سالہ دور کو زرین عہد اس لئے کہاجاتا ہے کہ اس عرصہ میں ریاست نے تعلیمی معاشی ثقافتی شعبہ میں کافی ترقی کی۔میرعثمان علی خاں بہادر انصاف پسند اور رعایا پرور بادشاہ تھے۔ انھوں نے مسلمانوں اور ہندوں میں کبھی کوئی فرق نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میری ایک آنکھ ہندو ہیں تو دوسری مسلمان۔ آصف جاہی دور کے 224سالوں میں ریاست میں کبھی بھی فرقہ پرستی کو پنپنے کاموقع نہیں ملا۔
آصف جاہی فرمانبررواں نے مسجدوں درگاہوں عاشور خانوں کے ساتھ ہی مندروں مٹھوں گوردواروں وغیرہ کو زمینات انعام میں دی تھیں اس کے علاوہ امدادی رقومات بھی جاری کی تھیں تاکہ ان مذہبی عبادت گاہوں کے اخراجات کی پابجائی ہوسکے۔ ہرشخص کواپنے مذہبی طریقے سے عبادت کرنے مذہبی جلسے و جلوس منعقد کرنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کی آزادی تھی۔ا سلئے سارے ہندوستان میں ریاست حیدر آباد مذہبی رواداری کی وجہ سے مشہور تھی۔
حیدرآباد دکن پر مسلمانوں کی حکومت کا آغاز دہلی کے سلطان علاء الدین خلجی کے دور میں 1308 میں ہوا تھا۔ کچھ عرصے تو یہاں کے مقامی صوبیدار دہلی کے ماتحت رہے لیکن 1347 میں انھوں نے بغاوت کر کے بہمنی سلطنت کی داغ بیل ڈال دی۔دکن کے آخری حکمران میر عثمان علی خاں کا تعلق آصف جاہی خانوادے سے تھا جس کی داغ بیل دکن کے صوبیدار آصف جاہ نے 1724 میں اس وقت ڈالی تھی جب 1707 میں اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد سلطنت کے مختلف صوبے مغل بادشاہوں کی نازک ہتھیلیوں سے چکنی مچھلیوں کی طرح نکلنا شروع ہو گئے تھے۔آصف جاہ کو نظام اول کہا جاتا ہے۔ انھوں نے 1739 میں نادر شاہ کے حملے کے وقت دہلی کے مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کا ساتھ دیا تھا اور انھی نے نادر شاہ کے پاؤں میں پگڑی ڈال کر دہلی میں جاری قتلِ عام رکوایا تھا۔
حیدرآباد ریاست کے ساتویں فرمانروا میر عثمان علی نے 37 سال بلا تفریق مذہب و ملت ریاست پر حکومت کی،اور وہ اپنے وقت میں دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے تھے۔نظام حیدرآباد کے نام سے معروف عثمان علی خان اپنے زمانے میں دنیا کے امیر ترین شخص تھے جن کی دولت کا تخمینہ تقریبا 250 ارب امریکی ڈالر لگایا جاتا ہے۔ان کے پاس زر و جواہرات کا وسیع خزانہ تھا جس میں 20 کروڑ امریکی ڈالر مالیت کا ایک 185 قیراط کا جیکب ہیرا بھی تھا جسے وہ پیپر ویٹ (کاغذ کو دبانے والے وزن) کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
حیدرآباد کواس زمانے میں ہندوستان کی خوشحال ترین ریاست کہا جاتا تھا۔ جس کا خزانہ معمور تھا اور جو تہذیب و ثقافت کا گہوارہ کہلاتا تھا۔یہ ریاست ہندوستان میں سب سے بڑی ریاست تھی۔ یہاں گنگا جمنی تہذیب واقعتاً آباد تھی۔ یہ مختلف تہذیبوں کا سنگم تھا۔ اس کے آبائی باشندگان مختلف زبانیں بولنے والے تھے، اگر ایک بڑا طبقہ تیلگو زبان کا حامل تھا تو دوسرا کنڑ بولتا تھا جبکہ ایک علاقے میں مراٹھی بولنے والے تھے اور ان سب کو اردو زبان جوڑتی تھی جسے 19 ویں صدی کے اواخر میں ریاست کی سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔حیدرآباد دکن کوئی چھوٹی موٹی ریاست نہیں تھی۔ 1941 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد اور اس کا رقبہ دو لاکھ 14 ہزار مربع کلومیٹر تھا، یعنی آبادی اور رقبے دونوں لحاظ سے برطانیہ، ترکی یا اٹلی سے بڑی۔
ریاست کی آمدنی اس وقت کے 9 کروڑ روپے تھی جو اقوامِ متحدہ کے 20 سے زائد ملکوں سے زیادہ تھی۔حیدرآباد ہندوستان کی واحد ریاست تھی جس کی اپنی کرنسی تھی،حیدرآباد کی اپنی کرنسی، ٹیلی گراف، فون، ڈاک کا نظام، ہوائی اڈے، ریلوے لائنیں، تعلیمی ادارے اور ہسپتال تھے۔ یہاں واقع جامعہ عثمانیہ ہندوستان بھر کی واحد یونیورسٹی تھی جہاں مقامی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔نظام کو تعلیم سے خاص دلچسپی تھی۔ وہ اپنے بجٹ کا 11 فیصد تعلیم پر خرچ کیا کرتے تھے۔ ریاست نے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے علاوہ ندوۃ العلما اور پشاور کے اسلامیہ کالج جیسے کئی تعلیمی اداروں کی تعمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔بات صرف برصغیر تک محدود نہیں تھی۔ نظام عثمان علی خاں دنیا بھر کے مسلمانوں کے سرپرست تھے۔ حجاز ریلوے انھی کی امداد سے تعمیر کی گئی۔ وہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد آخری خلیفہ عبدالحمید کو تاحیات وظیفہ دیتے رہے۔
یہی نہیں بلکہ 1931 میں انھوں نے اپنے ولی عہد شہزادہ اعظم جاہ کی شادی خلیفہ عبدالحمید کی صاحبزادی عثمانی شہزادی درِ شہوار سے کروائی۔1947 میں تقسیم کے وقت برطانوی راج کے دائرے میں قائم پانچ سو کے قریب چھوٹی بڑی ریاستوں کو آزادی دی گئی تھی کہ وہ چاہیں تو ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔ریاست کے حکمران میر عثمان علی خاں نے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ ملنے کی بجائے برطانوی دولتِ مشترکہ کے اندر خودمختار ریاست کی حیثیت سے رہنے کا فیصلہ کیا۔لیکن ایک مسئلہ تھا۔ حیدرآباد میں ہندوؤں کی بڑی اکثریت ہندوستان کے ساتھ الحاق کی حامی تھی۔
جب ہندوستان میں حیدرآباد کو ضم کرنے کی باتیں ہونے لگیں تو ریاست کے مسلمانوں میں سخت بے چینی پھیل گئی۔ کئی مذہبی تنظیمیں ابھر کر سامنے آ گئیں اور انھوں نے لوگوں کو اکسانا شروع کر دیا۔ رضاکار کے نام سے ایک مسلح تنظیم بھی اٹھ کھڑی ہوئی جس کا مقصد ہر قیمت پر ہندوستان سے الحاق روکنا تھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق انھوں نے ریاست کے اندر بسنے والے ہندؤوں پر بھی حملے شروع کر دیے۔اس پس منظر میں ‘اتحاد المسلمین’ نامی تنظیم کے قائد قاسم رضوی کی شعلہ بیانی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ وہ جارحیت بہترین دفاع ہے کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے کھلم کھلا لال قلعے پر پرچم لہرانے کی باتیں کرتے تھے اور انھوں نے نظام کو یقین دلا رکھا تھا کہ ‘وہ دن دور نہیں جب خلیجِ بنگال کی لہریں اعلیٰ حضرت کے قدم چومیں گی۔
‘ہندوستان کی حکومت کے لیے یہ بہانہ کافی تھا۔ انھوں نے حیدرآباد پر فوج کشی کا منصوبہ تیار کر لیا جس کے تحت 12 اور 13 ستمبر کی رات کو ہندوستانی فوج نے پانچ محاذوں سے بیک وقت حملہ شروع کر دیا۔ نظام کے پاس کوئی باقاعدہ اور منظم فوج نہیں تھی۔ مجلس اتحاد المسلمین کے رضاکاروں نے اپنی سی کوشش ضرور کی لیکن بندوقوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کب تک؟73 برس قبل یعنی 13 ستمبر 1948 کو انڈین افواج نے ریاست حیدرآباد پر حملہ کیا تھا اور صرف 5دن بعد نظام حیدرآباد کے کمانڈر اِن چیف سید احمد العیدروس نے باضابطہ ہتھیار ڈال دیے پھر اس کے بعد ظلم و بربریت کا ایسا بازار گرم کیا گیا کہ آزادی، جمہوریت اور انسانیت سب حیران و ششدر اور شرمسار ہوگئے۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی ملک کی تین بڑی ریاستوں کشمیر، حیدرآباد اور جوناگڑھ نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا جبکہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی ان کو اپنے ساتھ ملانے کی خواہش رکھتے تھے۔لیکن حیدرآباد کو ہندوستان میں ضم کروانے والے سردار ولبھ بھائی پٹیل نے حیدرآباد کے خلاف فوجی کارروائی کروائی۔حکومت ہند حیدر آباد کے حملے کو پولیس ایکشن کہتی ہے جسے آپریشن پولو بھی کہا جاتا ہے۔ حکومت ہند کے مطابق یہ پولیس ایکشن ناگزیر تھا۔سردار پٹیل نے کہا تھاکہ ہندوستان میں ایک آزاد حیدرآباد کا وجود ناقابل برداشت ہے اور اس کی آزادی کوختم کرنا لازمی ہے۔چنانچہ حکومت ہند نے حیدرآباد کو اپنی ریاست بنانے کے لیے 36 ہزار مسلح فوج اتاری جبکہ دوسری جانب نظام حیدرآباد کے پاس صرف 24 ہزار فوج تھی اور اس میں بھی پوری طرح سے تربیت یافتہ فوجیوں کی تعداد محض 6 ہزار تھی جس میں عرب، روہیلا، پٹھان، مسلمان،ہندو اور دیگر شامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ قاسم رضوی کی قیادت میں 2 لاکھ رضاکار تھے لیکن سب کے سب غیر تربیت یافتہ تھے جن کی کمان قاسم رضوی کے ہاتھ میں تھی۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کی تعداد کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا جو نظام حیدرآباد سے وفاداری کا اظہار کر رہے تھے کیونکہ یہ سب غیر تربیت یافتہ افراد تھے۔ ہندوستانی فوج نے جنوبی کمان کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل ای این گوڈارڈ کی سربراہی میں حیدرآباد کے خلاف مختلف اطراف سے محاذ کھول دیے۔ مغرب میں ان کا رخ وجے واڑا کی جانب تھا تو مشرق میں شولاپور پر ان کی توجہ مرکوز تھی۔ سردار پٹیل نے حملے کے لیے 13 ستمبر کی تاریخ اس لیے طے کی کہ ایک دن پہلے محمد علی جناح کا انتقال ہو گیا تھا۔ 13 ستمبر 1948 کو حیدرآباد پر جو حملہ کیا گیا وہ صرف 5 دنوں میں اختتام پذیر ہوا اور 18 ستمبر کو نظام کے کمانڈر ان چیف سید احمد العیدروس نے باضابطہ ہتھیار ڈال دیے۔
اس دوران حیدرآباد کے کم و بیش 4 ہزار سپاہی، فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ اپنے سپاہیوں کی موت کی خبر سن کر نظام سابع نے بالآخر 17 ستمبر کو ریاست حیدرآباد کو انڈین یونین میں ضم کرنے کا اعلان کیا جن میں مہاراشٹرا اور کرناٹک کے کچھ علاقے بھی شامل تھے۔ ہر چند کہ فوجی کارروائی 5 دنوں تک ہی رہی لیکن اس میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں اور دیہی علاقوں میں فسادات کا بازار گرم رہا۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے انڈین فوجیوں کی جانب سے شہریوں کو قطاروں میں کھڑا کرکے گولی مارنے کی اطلاعات کے بعد فوجی کارروائیوں کی تحقیقات کے لیے سندر لال کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس رپورٹ میں 27 ہزار سے 40 ہزار کے درمیان لوگوں کے مارے جانے کی بات کہی گئی ہے جبکہ بعض دیگر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس کارروائی اور اس کے بعدہونے والے فسادات میں 2 لاکھ سے بھی زیادہ افراد مارے گئے تھے۔
اس کے بعد حیدرآباد کے معاملے کو اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا لیکن وہاں اتنی تاخیر ہوئی کہ وہ اپنی موت آپ مر گیا ۔ ہندوستان کے فوجی حملے اور ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل و خون اور ان کی تباہی اور بربادی ، خصوصاً علاقہ مرہٹواڑہ اور بیدر کے لرزہ خیز واقعات کی کچھ تفصیلات پنڈت سندر لال 1886-1981 اور قاضی عبدالغفار 1889-1956نے ایک رپورٹ کی شکل میں مرتب کی تھیں۔ رپورٹ کے مرتبین نے اپنی یہ رپورٹ اس وقت کے نائب وزیراعظم اور وزیر داخلہ سردار پٹیل کو پیش کی تھی، لیکن انہوں نے اس رپورٹ کو دبا دیا اور منظر عام پر آنے سے روک دیا۔ دسمبر 1949 کو نظام حیدرآباد نے ایک سند جاری کی جس میں کہا گیا کہ ہندوستان کا مستقبل کا آئین ہی حیدرآباد کا آئین ہوگا اور پھر ریاست حیدرآباد بالآخر 26 جنوری سنہ 1950 کو باقاعدہ ہندوستان کا حصہ بن گیا۔
یہی وہ دن ہے جب ملک میں آئین نافذ کیا گیا۔ اس کے بعد بھی میر عثمان علی خان ہندوستان کے امیر ترین شخص تھے۔ ان کے ایک پوتے نجف علی خان کا کہنا ہے کہ جب 1965 میں انڈیا کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے حیدرآباد کا دورہ کیا تو انھوں نے قومی دفاع کے فنڈ میں میر عثمان علی خان سے دل کھول کر عطیہ دینے کی گزارش کی۔ قومی دفاع کایہ فنڈ چین کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں قائم کیا گیا تھا۔ اس فنڈ میں میر عثمان علی خان نے 5 ہزارکلو سونا عطیہ کیا جو آج کے اعتبار سے 1600کروڑ روپے ہوتا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں اتنا بڑا عطیہ کسی نے نہیں دیا لیکن اس کے باوجود حکومت ہند نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اور آج بھی یہ حال ہیکہ فرقہ پرست سیاسی پارٹیاں اور اس کی ہم خیال تنظی میں 17 ستمبر کو جشن آزادی مناتی ہیں اور نظام کے خلاف زہرافشانی کرتی ہیں اور ایسے لوگوں کے ساتھ فرقہ پرست عناصر بھی جڑ جاتے ہیں۔
ہر سال 17ستمبر کوانسانیت کو شرمسار اور تمام تہذیبی اقدار کو درہم برہم کردینے والی اس خوں آشام کارروائی کا جشن مناتے ہیں اور نفرت کی آگ بھڑکانے کا کام کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسے غیر مسلم افراد کی بھی بہتات ہے جو آصف جاہی حکمراں کو رعایا پرور بادشاہ مانتے ہیں اور ایسے سیکولر افراد میر عثمان علی خان کی جانب سے رعایا اور ملک کیلئے کئے گئے کاموں کو ناقابل فراموش قرار دیتے ہیں ،اور17 ستمبر کو جشن منانے والوں کو فرقہ پرست عناصر کے ہم خیال قرار دیتے ہیں ۔