بیدر: اروند کمارارلی MLC نے مسلم عمائدین شہر سے مسلم طبقہ کے مسائل اور ضلع کی ترقی پر طلب کئے مشورے
بیدر: 29/اگست (وائی آر) آج 29/اگست اتوار کو ایم ایل سی اروندکمارارلی نے مسلم طبقہ کے قائدین، ماہر ین تعلیم، مذہبی ذمہ داران، سوشیل ورکر اورسینئر سٹیزنس سے مسلم طبقہ کے مسائل اور بیدر ضلع کی جملہ ترقی پرایک اجلاس اپنے دفتر موقوعہ جنواڑہ روڈ بیدر پر طلب کیا۔ جہاں مسلم طبقہ کے مذکورہ میدانوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بتایاکہ کے ایم ڈی سی کی اسکیمات ریاستی زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ہونا چاہیے۔ محکمہ اردو زبان میں اسکیمات کی تشہیر نہیں کرتا۔ جس کے سبب اسکیمات پہنچتی نہیں ہیں۔ گذشتہ دِنوں عیدگاہ بیدرکااور دیگر اراضی کے سروے ہوا۔ اور یہ سروے انتہائی رازداری کے ساتھ کیاگیا۔ جس میں اے ایس آئی کے دوافسران، اور سروئیر ہی موجودتھے۔ عوام دریافت کررہی ہے کہ یہ سروے کیوں کر ہوا؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
ایم ایل سی اروندکمارارلی سے اپیل کی گئی کہ کوشش کریں کہ عیدگاہ کی اراضی جو وقف اراضی ہے وہ محفوظ رہے۔ اور عیدگاہ بیدر موقوعہ نیا بس اسٹائنڈ کے سامنے واقع جس اراضی پرکمپاؤنڈ وال تعمیر کی گئی ہے وہ فوری طورپر عیدگاہ کی نگرانی میں دی جائے۔ ان سے یہ بھی شکایت کی گئی کہ اقلیتوں کی بنیادی سہولیات کے لئے، خصوصاً دیہات میں ترقی کے لئے راجندرسچر کمیٹی کی سفارش پر 2012کے بعد بیدر ضلع کو کوئی رقم نہیں دی گئی۔ بیدر ضلع کے لئے جس وقت بسواکلیان کے ایک کانگریسی قائد وقف رکن تھے اس وقت سنٹرل وقف کونسل کو 7کروڑ بجٹ واپس کردیاگیاتھا۔ جس کے سبب یہاں وقف ادارے ترقی نہ کرسکے۔ اور شادی محل، قبرستان، اقلیتی خواتین وغیرہ کے لئے 2012ء سے تاحال وقف نے کوئی مالیہ فراہم نہیں کیا۔
لنگویسٹک مینارٹی لنگویج کے حوالے سے اردوزبان کے نفاذ کے معاملے میں ناانصافی ہوئی ہے۔15نکاتی پروگرام کے اجلاس سمیرشکلا ڈپٹی کمشنر بیدر تک منعقد ہوتے رہے۔ اس کے بعد سے شائد ہی اجلاس بلائے گئے ہوں۔ سڑک، لائٹ، پانی، صحت اور دیگر امور کے لئے 2013میں بجٹ دیاگیاتھا تب سے اب تک کچھ نہیں ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 60-70کروڑ روپئے جاری ہوناچاہیےتھا۔ HKDBجواب کلیان کرناٹک ڈیولپمنٹ بورڈ بن چکاہے اس کے ذریعہ خط غربت سے نیچے رہنے والی اقلیتوں کے لئے کروڑوں کا خصوصی پیاکیج جناب قمرالاسلام سابق وزیر نے بیدرضلع کے لئے جاری کیاتھا۔ اس کے بعد ایسا کچھ پڑھنے سننے کو نہیں ملا۔
وقف ضلع دفتر کے بارے میں اجلاس میں کہاگیاکہ وقف دفتر کمزور ہے۔ مختلف اوقافی جائیدادوں کے بارے میں بھی تجاویز پیش کی گئیں جن میں شیخ نورسمنانی، خواجہ نگر، سروے نمبر15/1وغیرہ شامل رہے۔گردوارہ کی اراضی پر بھی بات کی گئی۔ اور کہاگیاکہ وقف بورڈ کی ناکامی کے سبب مسلمانوں کے ہاتھ سے اتنی بڑی اراضی نکل گئی۔ یہاں ہوشیار وقف آفیسر کی ضرورت ہے۔اور وقف دفتر پر بھروسہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہورہاہے۔ اسلئے مقامی کمیٹی بناکر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ دوسری جانب یہ مشورہ بھی دیاگیاکہ اختیارات کو De Centralisedکرنے کی ضرورت ہے۔ بے اختیار افسر کچھ نہیں کرسکتا۔
مینارٹی ہاسٹلس کے بارے میں بتایاگیاکہ 2013 سے ابھی تک انہیں بجٹ نہیں دیاگیا۔ موجودہ 7ہاسٹل میں سے سے تین بند ہیں اور 4چل رہے ہیں۔ انجینئرنگ، میڈیکل، اور اول تا دہم جماعت کے اقلیتی طلبہ کے لئے گذشتہ کئی سال سے اسکالرشپ نہیں آرہے ہیں۔ بینک والے اولیائے طلبہ کو باربار آدھار کارڈ سے لنک کرانے کو کہتے ہیں لیکن پھر بھی اسکالرشپ طلبہ کو نہیں ملتا۔ IDMIاسکیم موجود ہے لیکن اس سے اقلیتوں کوامداد نہیں مل رہی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ پیش کی گئی کہ گذشتہ 10سال سے اقلیتی تعلیمی اداروں میں تقررات بند ہیں۔ جہاں 15اساتذہ تھے اب وہاں 2اساتذہ ہی ہیں۔ اگر یہی روش جاری رہی تو اقلیتی اسکول بند کرنے پڑیں گے۔ احمد کالونی اور بلال کالونی کے لئے قبرستان کی اراضی دلانے نمائندگی کی گئی۔ اور اس کے لئے میلور کا سروے نمبر 76، چدری کا سروے نمبر200اور255کاذکر کیاگیا۔ تحصیلدار ڈپٹی کمشنر کو اراضی کی نشاندہی نہ کرنے سے قبرستان کے لئے اراضی الاٹ نہیں ہورہی ہے۔مرارجی دیسائی مینارٹی ہاسٹل میں 75مسلم طلبہ کو لینا ہے لیکن 75طلبہ دیگر طبقات سے ہوتے ہیں جس کی جانچ ہونی چاہیے۔
اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ خودمسلمانوں نے ہی اوقافی اراضی کو تباہ کرنے میں اپنارول کہیں نہ کہیں اداکیاہے۔ بیواؤں کے وظائف روک دئے جانے کے بارے میں بھی نمائندگی کی گئی۔ مذکورہ تمام مسائل سے متعلق ایم ایل سی اروند کمارارلی نے کہاکہ میں نے مسلم قائدین کو صرف اسلئے طلب کیاتاکہ ان کے طبقہ کے مسائل حل ہوسکیں اور ضلع کی ترقی کے لئے ان سے تجاویز لی جاسکیں۔ جو تجاویز پیش کی گئی ہیں ان پر کونسل میں سوال کیاجائے گااوراس عمل کے ذریعہ کہیں بھی اپناسیاسی فائدہ پیش نظرنہیں ہے کیونکہ میں انتخابی سیاست سے دلچسپی نہیں رکھتا، مجھے انتخابات میں حصہ لینانہیں ہے میں صرف کام کرناچاہتاہوں۔
موصوف نے بتایاکہ وقف کی کچھ اراضی ایوارڈ کرکے انعامی لینڈمیں تبدیل کی گئی ہے جس پر کچھ بھی نہیں کیاجاسکتا۔البتہ موجودہ اراضی کو بچانے کے لئے ضلع اور ریاستی سطح پر پاور فل افسرکے تقرر کی ضرورت ہے۔ ریاستی سطح کا افسر IASہوناچاہیے۔ اور یہ کہ چند دستاویزات وقف لینڈ کے ایسے ہیں جس میں بعض سروے نمبر درج نہیں ہیں۔ جس سے مسائل کاسامناکرناپڑرہاہے۔ مینارٹی ہاسٹل میں طلبہ کے نہ آنے کی شکایت اربا ب مجاز کررہے ہیں۔ اقلیتی طبقہ کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کوپڑھنے کے لئے ہاسٹل روانہ کریں۔
مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سیٹلائٹ کیمپس کا کام چل رہاہے۔ آگے مزید تیزی لائی جائے گی۔ اس کے لئے میں کام کررہاہوں۔اور آئندہ سال سے یہ کیمپس شروع ہونے کی توقع ہے۔اور بھی جو مسائل ہیں ان کے لئے ایس سی /ایس ٹی، کرسچین، مسلم اور دیگر مظلوم طبقات مل جل کرحکومت سے لڑیں گے تو کام بن سکتاہے۔ موصوف نے کوویڈ۔ 19سے بچاؤ کے لئے فوری ویکسین لینے کی اپیل کی اور اس بات پر زور دیاکہ جن اقلیتی گھروں میں کوویڈکے سبب انتقال ہوچکاہے وہ فوری طورپر سرٹیفیکٹ حاصل کرلیں۔ اس سرٹیفکیٹ سے آئندہ دنوں میں فائدہ ہوگا۔
آخر میں رکن قانون سازکونسل نے تمام شرکائے اجلاس کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ میں اکیلا کوئی کام نہیں کرسکتا۔ ہم سب مل جل کر ضلع کی ترقی اور مختلف طبقات کی ترقی کے لئے کام کریں گے۔ میں دیگر طبقات کے ساتھ بھی انٹرایکٹ کرنے والا ہوں۔ موصوف نےبتایاکہ کلیان کرناٹک علاقے میں 14ہزار پوسٹ خالی ہیں۔اس موقع پر مسلم عمائدین شہر کی جانب سے اروندکمارارلی ایم ایل سی کے کام کی ستائش کرتے ہوئے ان کی گلپوشی کی گئی۔