رحمت للعالمینﷺ
ازقلم : سمیہ عامر خان
ﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
اے محمدؐ، اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔ (سورۃ الانبیاء۔١٠٧)
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور ایک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
عام طور سے بچپن کی زندگی کھیل کود اور تفریح میں گزرجاتی ہے یہ عمر نفع نقصان سوچنے کی نہیں ہوتی۔ خاص طور سے جب ظاہری حالات نا موافق ہو۔ ولادت سے پہلے والد کا انتقال ہوجاۓ، بالغ ہونے سے قبل والدہ کا سایہ سر سے اٹھ جائے۔ دنیا ایسے لڑکے کو یتیم، مجبور اور لاچار کا نام دیتی ہے۔ ایسے لڑکے کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے ، وہ دوسروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارتا ہے۔ لیکن جب خداوند قدوس اس کی حفاظت اور تربیت کی ذمہ داری خود لیں تو ظاہری حالات کیا بگاڑ سکتے ہیں۔
فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
نور حق شمع الٰہی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون
حب اللہ تعالٰی کسی سے کوئی عمدہ اور بہتر کام لینا چاہتا ہے تو اسے تیار کرتا ہے۔ اپنے نیک کام کے لئے اس کے حالات پیدا فرماتا ہے۔تاکہ یہ عمدہ اور پاک زندگی تبلیغ کے لئے مفید ثابت ہو۔جیسے آپﷺ کے لئے اللہ نے افضل مرتبہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے طے کرلیا تھا اور اسی کے مطابق اللہ نے آپﷺ کی زندگی کے حالات بنائے۔بچپن میں آپﷺکا صدر مبارک شق کیا گیا جو آپ کے غیر معمولی ہونے اور دوسرے تمام بچوں سے علیحدہ ہونے کی نشانی ہے۔
انس بن مالکؓ کا بیان ہے : آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ جبریلؑ تشریف لاۓ اور آپ کو لٹا کر سینہ چاک کردیا،پھر آپ کا دل نکالا اور اس میں سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا : ” یہ شیطان کا حصہ تھا جو نکال دیا گیا۔” پھر دل کو سونے کے طشت میں زمزم کے پانی سے دھوکر جوڑ دیا اور اسی جگہ پلٹا دیا۔ ادھر بچے دوڑ کر آپ کی ماں، یعنی دایہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ محمدﷺ کو قتل کردیا گیا۔” وہ لوگ جھٹ پہنچے تو دیکھا رنگ اترا ہوا ہے۔”
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ میں نبیﷺ کے سینے پر سلائی کا اثر دیکھا کرتا تھا۔(صحیح مسلم 162)
آپ کی باتیں اور اطوار لوگوں کو حیران و مسحور کردیتے۔ آپ کا چلنا پھرنا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا غرض کہ ہر ڈھنگ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا۔
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہے واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
در حقیقت تم لوگوں کے لئے ﷲ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اس شخص کے لئے جو ﷲ اور روز قیامت کا امیدوار ہو اور کثرت سے ﷲ کو یاد کرے۔ (سورۃ الاحزاب ٢١)
دنیا میں بہت سے نامور پیدا ہوۓ جن کے کارنامے اور حالات کتابوں میں موجود ہیں، لیکن ایسا کوئی خوش نصیب نظر نہیں آتا جس کی بچپن سے بڑھاپے تک کی ساری زندگی یہاں تک اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا، رونا تک درج ہو یہ شرف صرف ہمارے رسولﷺ کو حاصل ہے۔
رسولﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا، جانور تک کو دھوکا دینے کو برا سمجھا۔ ایک مرتبہ ایک شخص میٹھی بند کرکے ایک بکری کو اپنی طرف بلا رہا تھا۔ جب بکری قریب آئی تو اس کو پکڑلیا اور اس شخص کی میٹھی میں کچھ نہیں تھا۔ آپﷺ نے فرمایا یہ دھوکا ہے۔ دھوکا انسان تو انسان جانوروں کے ساتھ بھی درست نہیں۔
آپﷺ نے فرمایا : “مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا”
“جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔
(صحیح بخاری ٢٨٤)
کسی کا حق غصب نہیں کیا،کسی پر جھوٹا الزام نہیں لگایا، کسی کی امانت میں خیانت نہیں کی۔آپﷺ چھوٹے بڑے سب کی عزت کرتے تھے۔ آپ کا معمول تھا راستے میں چلتے وقت سلام میں پہل کرتے، کسی کو کوئی پیغام بھجواتے تو سلام ضرور کہلواتے، گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے تو سلام ضرور کرتے۔
آپﷺ نے فرمایا : “اذا لقي احدكم اخاه فليسلم عليه”
“جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے ساتھی کو ملے ، اسے چاہیے کہ اپنے ساتھی کو سلام کہے۔” (ابوداؤد۲/۷۰۷)
اسی طرح دوسری جگہ فرمایا : “لا تدخلون الجنة حتي تومنوا ولا تومنوا حتي تحابوا الا ادلكم علي شئي اذا فعلتموه تحاببتم افشوا السلام بينكم”
“تم اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہو گے جب تک ایمان نہ لاؤ گے اور اس وقت تک مومن نہ ہو گے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو گے کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤ ں کہ جس پر عمل کرنے سے تم باہم محبت کرنے لگو :یہ کے سلام کو خوب پھیلاؤ”(مسلم کتاب الایمان۱/۵۴)
آپﷺ مجلس میں جاتے تو اس امر کو ناپسند کرتے کہ صحابہ تعظیم کے لئے کھڑے ہو۔ مجلس کے کنارے پر بیٹھ جاتے، کندھے پر سے پھاند کر آگے جانے سے احتراز فرماتے۔ ناپسندیدہ آدمی کے آنے پر خندہ پیشانی سے پیش آتے۔اسی طرح مریضوں کی عیادت کرنا، خادموں سےشفقت سے پیش آنا۔ حضرت انسؓ آپﷺ کے خادم تھے۔ انسؓ کا بیان ہے کہ “میں دس سال تک حضورﷺ کی خدمت میں رہا مگر میں نے اف تک نہ کیا۔”
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے پوچھا کہ رسولﷺ اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ آپؓ کہتی ہے اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال خود کرتے، کپڑوں کو پیوند خود لگاتے، جوتے کی مرمت کرتے، صفائی کا بہت خیال رکھتے۔ صحابہ کہ بھی تاکید تھی کہ گھروں کے آنگن کو صاف رکھو۔ “صفائی نصف ایمان ہے۔”
کردار محمدﷺ دنیا کے لئے سراسر رحمت ہے۔ خداۓ بزرگ و برتر نے خود فرمایا وما ارسلناک الله رحمۃ اللعالمین بیشک آپﷺ تمام علم کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔
ہمارے رسولﷺ اخلاق و محبت کا پیکر بن کر آۓ اخوت و مساوات کی تعلیم دی۔ حسن اخلاق کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آپﷺ ایسی حالت میں تشریف لاۓ جہاں ہر طرف بتوں کی پوجا کی جاتی تھی ایسے لوگوں کو اسلام کی خوبیوں سے روشناس کرانا تھا۔ ان پر پرستوں میں صاحب مال بھی تھے اور طاقت و قوت میں باکمال بھی تھے۔ چونکہ آپ اخلاق کے بلند مرتبہ پر فائز تھے اسلئے آپ کا حسن سلوک مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لئے یکساں تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا نتیجہ ہی تھا کہ آج اسلام دنیا کے گوشے گوشے میں نظر آرہا ہے ورنہ تلوار اور دنیاوی طاقت سے عرب کے سرکشوں کو اپنا نہیں بنایا جاسکتا۔ جنگ بدر کے قیدیوں کو بعض جلیل القدر صحابہ نے قتل کا مشورہ دیا مگر آپﷺ نے معمولی فدیہ دے کر چھوڑدیا۔ فتح مکہ کے موقع پر سب غیر مسلم سر جھکا کے کھڑے تھے مگر آپﷺ نے فرمایا “گھبراؤ نہیں مکہ کی ماؤں سے کہہ دو تمہاری مامتا نہیں ہٹے جاۓ گی۔ بچوں سے کہو تمہیں یتیم نہیں کیا جاۓ گا۔ آج جس نے گلے پر تلوار چلائی تھی اس کو گلے سے لگایا جاۓ گا، جو پیغام موت بن کر حملہ آور ہوا تھا اس کو زندگی کا پیغام دیا جاۓ گا۔ جاؤ سب آزاد ہے۔”
اسی طرح حاتم طائی کی بیٹی سفانہ عروج اسلام کے زمانے میں گرفتار ہو کر دربار نبوت میں پیش ہوئی۔ تو اس نے نبی اکرم صلی الله عليه وآلہ وسلّم کے سامنے اپنے باپ کی فیاضیوں اور جود و کرم کا تذکرہ کیا۔ رسول اللہ صلی الله عليه وآلہ وسلّم نے اس کو رہا کرنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ حاتم اسلامی اخلاق کا حامل تھا۔
ان جیسے سیکڑوں واقعات موجود ہے جن سے غیر مسلموں کے ساتھ اچھے سلوک کا پتہ چلتا ہے۔
ﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور نبی کریمﷺ کے خلق عظیم کی عظمت یوں بیان فرمائی ہے۔
وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیمٍ
اور بیشک آپؐ اخلاق کے عظیم مرتبے پرفائز ہیں۔(سورہ قلم:٤)
امت کو مساوات کی تعلیم عطا کی
خود کہہ کے پسر زید کو انمول کرگئے
آپﷺ رہبر اعظم ہے۔ محسن انسانیتﷺ کی رہبری نے آداب بندگی اور آداب زندگی سکھاۓ۔ آپﷺ ہی کی رہبری ماں کے قدموں تلے جنت۔ آپﷺ ہی کی رہبری باپ جنت کا دروازہ۔ آپﷺہی کی رہبری وہ مومن نہیں جس کا پڑوسی بھوکا سوۓ۔ آپﷺ ہی کی رہبری ایک بے گناہ کا کرے پوری انسانیت کا قتل۔ آپﷺ ہی کی رہبری صفائی و پاکی آدھا ایمان۔ آپﷺ ہی کی رہبری حصول علم کی فرضیت۔ آپﷺ ہی کی رہبری امانت میں خیانت نہ کرو۔ آپﷺ کی رہبری فضول خرچی نہ کرو۔ آپﷺ کی رہبری نماز روزہ حج و زکوٰۃ کی پابندی۔ آپﷺ کی رہبری عفو و درگزر، صبر و رضا، قناعت و کفایت۔ انہی تعلیمات سے فتح ہوۓ قیصر و کسریٰ، انہی تعلیمات کا فیض تھا ٢٢/لاکھ مربع میل پر اسلامی نظام حکومت۔
آپﷺ پیغمبر انقلاب ہے۔ جی ہاں
وہ ہے انقلاب زمانہ فصیل شب کے مد مقابل صبح کا چمکتا سورج۔
وہ ہے انقلاب آسمان قافلہ بہار عفریت خزاں کے لئے شمشیر برہنہ
خشک زمینوں کے لئے رحمت باراں۔
طوفانوں میں عشرت ساحل آندھیوں میں نوید ساحل۔
آپﷺ کے انقلاب کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ پورے کے پورے اجتماعی انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیا۔ اور صبغتہ الله کا ایک ہی رنگ مسجد سے لے کر بازار تک، مدرسہ سے لے کر عدالت تک، گھروں سے لے کر میدان چھت تک چھاگیا۔یہ اتنا عظیم انقلاب ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس انقلاب کے بدولت زاویہ نگاہ تبدیل ہوگیا، عادت و اطوار بدل گئے، رسوم و رواج بدل گئے، حقوق و فرائض کی تقسیمی بدل گئیں، خیروشر کے معیارات اور حلال و حرام کے پیمانے بدل گئے۔ یہ انقلاب تخت و طاؤس یا بحروبر اور لعل و گہر کے لئے نہیں تھا۔ یہ انقلاب تو کلمہ حق کی تبلیغ، انسانیت کی تربیت کے لئے تھا۔
ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے اخلاق و کردار کو آپﷺ کے بتاۓ ہوۓ طریقے کے مطابق گزارے اور جنت کے حقدار بنے۔ ﷲ سبحانہ وتعالیٰ تمام کو محسن انسانیت ﷺ کے اسوۂ پر عمل کرنے کی سعادت بخشے نیز روزہ محشر آپﷺ کی شفاعت نصیب کرے۔ آمین یارب العالمین