سیاسیمضامین

ایک تبدیلی آپ کی منتظر ہے

انتخاب کے تین مرحلے گزر چکے ہیں۔ عوام اپنی انگلیوں پر ووٹنگ نشان لگاٸے اس امید میں مسرور ہیں کہ انہوں نے جنہیں منتخب کیا ہے وہ ان کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ ملک کا ماحول ایک نٸے بدلاٶ کامتلاشی ہے۔ ایک ایسا بدلاٸو جس میں سیاست کے ساتھ ساتھ سماج کا بدلاٶ بھی پنہاں ہے۔ یہ الیکشن پارٹیوں سے زیادہ عوام کے لٸے اہم ہے۔ اس الیکشن کا رزلٹ جیتنے والی پارٹیوں کے لٸے زیادہ چیلنج ثابت ہوگا۔
یوں تو الیلشن سروے سمیت ملک کی منصفانہ صحافت یہ یقین دلا رہی ہے کہ موجودہ سرکار کو اسی تین مرحلے میں یہ احسا ہو چکا ہے کہ حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ اور اس حالت کو بدلنے کے لٸے ان کے ترکش میں کوٸی تیر باقی نہیں۔ شاید ہندوستانی جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں ہوا ہوگا کہ سرکار نے عام الیکشن میں اپنی پانچ سالہ حصولیابیوں کا تذکرہ تک کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔ جس نوٹ بندی کا اتنا شور ہوا جس کالادھن واپسی کو اتنا مشتہر کیا گیا،جس غیرملکی سرمایہ کاری کے ڈھول پیٹے گٸے ،جس وکاس کا واویلا مچایا گیا،جس مہنگاٸی اور بے روزگاری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے ہنگامہ برپا کیا گیا۔ یہ سارے ہنگامے شور شرابے خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر خود سرکار کا منہ چڑھا رہے ہیں اور سرکار اپنی ان تمام خودساختہ حصولیابیوں سے آنکھیں چراتی نظر آ رہی ہے۔ اس الیکشن میں ان کا ایشو پلوامہ کے شہید ہیں یا بھارت میں ہندوتو دہشت گردی کی علامت بنی پرگیہ ٹھاکر کا یہ پیغام کہ کرکرے ان کی شراپ سے مرے تھے۔ بوکھلاہٹ میں سرکار نے پرگیہ ٹھاکر کو چناوی میدان اتار کر ہندوٶں کی بھی تذلیل کر گٸی۔
ایسے حالات نے سماج کو بیدار کر دیا ہے۔ جو سماج سیاست پر مکمل طور پر منحصر ہو گیا تھا اب وہ آہستہ آہستہ اس کے چنگل سے آزاد ہوا۔ جس کی کٸی مثالیں ہیں۔ سوشل میڈیا سے لے کر اخباروں اور جلسوں میں پی ایم کے خلاف تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال عام ہوگیا۔ جب سرکار نے اخلاقی قدروں کی پرواہ نہیں کی تو عوام نے بھی ضابطہ اخلاق میں نہ رہ سکی۔ اس سرکار نے سماج کو کٸی لیڈر بھی خواہ مخواہ ہی دے ڈالے۔ جگنیش موانی ،ہاردک پٹیل ، کنہیا کمار ، تیجسوی وغیرہ نے سرکار کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کہنے کی جرآت کی۔ اس سرکار نے میڈیا کو پنگو بنانے کی کوشش کی تو رویش پنیہ پرسون ابھیسار جیسے لوگوں نے ان کے دانت کھٹے کٸے اور عوام کی حوصلہ افزاٸی کی۔
ان تمام سیاسی سرگرمیوں نے سماج کو الرٹ کر دیا اور اب سماج ایک نٸی کروٹ لینے کے لٸے مچل رہا ہے۔ الیکشن کانتیجہ یہ ثابت کر دے گا۔
لیکن یہاں پر ایک پل کے ٹہرٸے اور ایک خوفناک خدشہ کی طرف چلٸے اور سوچٸے کہ جو سرکار گزشتہ پانچ برسوں میں پچاس برسوں تک اقتدار میں رہنے کا منصوبہ بناتی رہی اور اس کا علی الاعلان ذکر بھی کرتی رہی کیا وہ اتنی آسانی سے اقتدار اپنے ہاتھ سے جانے دے گی۔ آخر اس کے پاس پوری مشینری ہے۔ سسٹم ہے۔انفرااسٹریکچر ہے ۔تمام طرح کے ادارے ہیں اور اس پر وہ پوری طرح قابض ہے۔ ایسے میں کیا وہ اس الیکشن رزلٹ کو بدل نہیں سکتی۔ الیکشن کمیشن اور الیکشن مشینری اس کی پہنچ سے دور تو نہیں۔ ای وی ایم میں ٹیمپرنگ کی دوسری تکنیک کا استعمال بھی بعید از قیاس نہیں۔
پھر بھی رزلٹ زیادہ معنی نہیں رکھتا۔سماج کا بیدار ہونا زیادہ معنی رکھتا ہے۔ ایک بہترین جمہوریت ایک بہترین سماج پر منحصر ہوتی ہے۔ سماج کروٹ لے رہا ہے۔ سیاسی پارٹیاں جوابدہ بن جاٸے۔ بس یہی عوام کی جیت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!