سماجیمضامین

کورونا وائرس سے بھی خطرناک ہے یہ بیماری!

ایک ایسی بیماری جو سماج میں تیزی سے پھیل رہی ہے

از: شعیب احمد مرزاؔ

بھارت میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس سے ہرکوئی پریشان ہے وہیں دوسری طرف لاک ڈاؤن کی سختیاں عوام کے لئے دگنی پریشانی کا باعث بنی ہوئیں ہیں۔یہ بات یقینی ہے کہ لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ پریشانی غرباء اور متوسط طبقہ کو اٹھانا پڑرہی ہے۔ایسی سنگین صورتحال میں ہمارے سماج میں ایک اور بیماری بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کے جسم کو کوئی ضرر و نقصان نہیں پہنچتا۔یہ ایک بہت ہی خطرناک بیماری ہے کیونکہ اس بیماری کو کوئی بیماری سمجھتا ہی نہیں۔اس بیماری کی وجہ سے صرف غرباء و مستحقین کو نقصان پہنچتا ہے اور نقصان بھی ایسا کہ جس کی حد کا تعین نہیں کیا جاسکتایا پھر اس نقصان کا خمیازہ انہیں زندگی بھر اٹھانا پڑتا ہے۔

لیکن ہمارے سماج و معاشرے میں ایسی بیماری کے شکار افراد کو شاباشی و مبارکباد دی جاتی ہے۔اس خطرناک بیماری میں ملوث افراد کو دلاسہ، بھروسہ اور اس کے تئیں ہمدردی جتانے کے بجائے اسے مبارکباد دی جارہی ہے۔
اس قسم کی بیماری ہمارے سماج میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے جس کے ذریعہ انسانیت کو پاش پاش کیا جارہا ہے۔بیماری کے شکار ایسے مریضوں کی تسکین انسانیت کو مجروح کرنے اور غرباء کی عزت کو خاک میں ملانے سے ہی ہوتی ہے۔ان بیماراذہان کو اس وقت تک چین و سکون نہیں ملتا جب تک کہ وہ اپنی ہی ماں و بہنوں کو رسوا اور ان کی عزت کو خاک میں نہ ملادیں۔

یہ بیماری ہے جھوٹی شہرت اور ریا کاری کی۔ اپنی انا و دکھاوے کی۔ دوسروں کو ذلیل و رسوا کرکے تسکین حاصل کرنے کی۔ یہ بیماری ہے اپنی ماؤں اور بہنوں کی عزت کو خاک میں ملا کر غرباء کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے سیاسی روٹیاں سیخنے کی۔پردہ نشین خواتین کو سرعام رسوا کرنے کی۔
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کن بیماروں کی بات کررہا ہوں۔ ایسی بیمار ذہنیت کے افراد آج آپ کو ہر جگہ ملیں گے جو اپنی ہی ماں بہنوں کی عزت کو سرعام رسوا کر نے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ایسے سنگین حالات میں غرباء کوچند سینکڑوں و ہزار روپئے کے راشن کٹس تقسیم کرتے ہوئے ان کی عزت وناموس کو انٹرنیٹ کی دنیا میں اچھالا جارہا ہے۔غرباء و مستحقین کی مدد کے بہانے ان کا استحصال کیا جارہا ہے۔
جب انہیں کوئی تنقید کرتا ہے تو ان کے پاس آپ کویہ دلیل بھی ملے گی کہ وہ دوسروں کو ترغیب دلانے ایسا کررہے ہیں۔ لیکن ان کی مکاری، اداکاری اور ان کے فوٹو سیشن سے ان کا قبیح مقصد صاف ظاہر ہوتا ہے۔

جب یہ راشن کٹ تقسیم کرتے ہیں تو کئی ایک مرد حضرات بھی کٹ لینے آتے ہیں اورانہیں بھی کٹ دیا جاتا ہے لیکن ان مرد حضرات کی تصاویر شاذ و نادر ہی وائرل ہوتی ہیں۔البتہ پردہ نشین و گود میں بچہ اٹھائے ہوئے خواتین کی تصاویر لازمی طور پر وائرل کی جاتی ہیں۔ہر کوئی اس بات کو نوٹس کرسکتا ہے کہ ان غرباء کے نام نہاد مسیحاوں کا فوٹو سیشن اس وقت تک نامکمل ہے جب تک کہ وہ عورتوں کی عزت کو خاک میں نہ ملادیں۔یہ جھوٹی شہرت کے بھکاری پھر سوشیل میڈیا پر چند دن کے راشن کے عوض ان ماؤں اور بہنوں کی عزت کی دھجیاں اڑادیتے ہیں۔

سماج کی اس برائی کو ہمیں ختم کرنا ہے۔ اور جب تک ہم اس کینسر و ناسور کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے یہ ناسور ختم نہیں ہوسکتا۔ اچھائی کے لبادہ میں یہ برائی نہ صرف ان بیمار ذہن افرا کے لئے خطرناک ہے بلکہ سماج و انسانیت کے لئے شرمناک بات بھی ہے۔آپ ان مجبور و بے کس خواتین کی جگہ اپنی گھر کی خواتین کو رکھ کرایک لمحہ کے لئے سوچیں۔ پھر آپ کے ضمیر کی آواز کو سنیں جو ان اداکار و مکار مسیحاوں کے لئے چیخ چیخ کر یقیناََ بددعاء دیتا ہو گا۔
خیر تمام افراد کو موردِ الزام ٹہرانا صحیح نہیں ہے۔ ہر دور اور ہر مشکل گھڑی میں اللہ کے مخلص بندے میدانِ عمل میں اپنا کردار بحسنِ خوبی نبھاتے ہیں۔ لیکن آج سیاسی بھوک و شہرت کی حوس نے اکثر کو اندھا کردیا ہے۔ آخرت میں جوابدہی کے احساس کا فقدان اور عوام کی جانب سے ان کی تعریف و داد نے انہیں اورزیادہ اندھا کردیا ہے۔لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ اس ناسور کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ ان غرباء کو استحصال سے بچایا جائے اور ان اداکار و ریاکار سیاست دانوں اور مالداروں کوبے نقاب کیا جائے۔

ایسا کرنے سے ہی معاشرے سے اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے وگرنہ یہ بھی ایک وباء سے کم نہیں۔ انہیں دیکھ کر ہر کوئی گلی محلہ میں شہرت حاصل کرنے غرباء کے احساسات کو مجروح کرنے میں لگا ہواہے۔ماؤں و بہنوں کی عزت کو روندتے ہوئے سیاست کی گدی اور شہرت کی حوس کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ ان کا ضمیر بھی اس بات کا گواہ ہے جو یہ مذموم حرکتیں کررہے ہیں۔ بہرحال ان شہرت کے پجاریوں سے میری گزارش ہے کہ اگر انہیں شہرت حاصل کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو بہت سارے طریقے ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنا مقصود حاصل کرسکتے ہیں۔ البتہ ان سے مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ خدارا! اپنی ماؤں و بہنوں اور پردہ نشین خواتین کو سرعام رسوا نہ کریں۔ ان کی تصاویر کو وائرل نہ کریں۔ کیونکہ آپ کا دیا ہوا راشن چند ہی دنوں میں ختم ہوجائے گا لیکن آپ نے جوتصاویر انٹرنیٹ پر ڈالی ہیں اس کی گردش کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔چند ٹکو ں کے راشن کے عوض ان نقاب پوش خواتین کی عزت کو ہمیشہ کے لئے خاک میں ملانے والی ان مذموم حرکا ت سے رکیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ عوام بھی ان پر تنقید کریں اور بے باک انداز میں ان کے خلاف آواز بلند کریں۔اگر یہ سمجھ جائیں تو ٹھیک وگرنہ ان میں موجود اس ناسور کو ختم کرنے ہر ممکن قدم اٹھائیں جس سے وہ خود شرمسار ہوکر اپنی حرکت سے باز آجائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!