عورت: کتنی ٹیڑھی!
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں میں یہ تصور عام ہوگیا ہے کہ عورتوں کی فطرت میں ٹیڑھ ہوتی ہے _ ان کی بات چیت ، نشست و برخاست ، روز مرّہ کے کاموں اور باہمی معاملات میں اس کا اظہار ہوتا رہتا ہے _ مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ اس غلط تصور کو انہوں نے مذہبی سند دے دی ہے _ حالاں کہ دوسرے کسی مذہب میں ہو تو ہو ، اسلام اس سے بری ہے _ اس میں ایسی نامعقول بات کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے _ بائبل (عہد نامۂ قدیم) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے جسم سے ایک پسلی نکالی اور اس سے ان کی بیوی (حوّا) کو پیدا کیا :
” اور خُداوند خُدا نے آدمؔ پر گہری نِیند بھیجی اور وہ سو گیا اور اُس نے اُس کی پسلیوں میں ایک کو نِکال لِیا اور اُسکی جگہ گوشت بھر دِیا۔ اور خُداوند خُدا اُس پسلی سے ، جو اُس نے آدمؔ سے نکالی تھی ، ایک عَورت بنا کر اُسے آدمؔ کے پاس لایا ۔” (کتاب پیدائش : باب 2 آیات : 21_22) وہیں سے یہ اسرائیلی روایت تفسیر کی کتابوں میں در آئی اور اسے ایک مسلّمہ حقیقت تسلیم کرلیا گیا ، حالاں کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے اور نہ اس کی طرف کچھ اشارہ پایا جاتا ہے _
ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ ؛ فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ (بخاری :3331 ، مسلم :1468 ، ترمذی : 1188 ، دارمی : 2268، احمد : 9524 ،9795 ، 10448 ،10856)
” عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ، اس لیے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اوپر کا ہوتا ہے _ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسے ویسا ہی رہنے دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی _ اس لیے عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو _”
اس حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ ” عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ” اس کا مطلب نہ انسانیت کی ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈالنا ہے کہ پہلی عورت (حوّا) پہلے مرد (آدم) کی پسلی سے پیدا کی گئی تھی ، نہ اس کے ذریعے عورت کی فطرت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس میں لازماً ٹیڑھ ہوتی ہے ، بلکہ اس میں عورت کو ‘پسلی’ سے تشبیہ دی گئی ہے _ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بعض احادیث میں تشبیہ کی صراحت ہے :
” الْمَرْأَةُ كَالضِّلَعِ “عورت پسلی کی طرح ہے ” (بخاری :5184 ، مسلم :1468 ، ترمذی : 1188 ، دارمی :2268، احمد : 9524 ، 9795 ، 10856 ، 21454 ، 26384) بلکہ ایک حدیث میں تو بغیر حرفِ تشبیہ کے الْمَرْأَةُ ضِلَعٌ (احمد : 21339) “عورت تو مجسّم پسلی ہے ” کہا گیا ہے
عورت کو پسلی سے تشبیہ دینا اس کی عیب جوئی کے مقصد سے نہیں ہے ، نہ اس کے ذریعے عورت کی کسی خامی اور نقص کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، بلکہ اس کے ذریعے مردوں کی توجہ ایک اہم حقیقت کی طرف مبذول کرائی گئی ہے _ وہ یہ کہ جو چیز جیسی ہو اسی طرح اسے استعمال کرنا اور کام میں لانا دانش مندی ہے _ بلا ضرورت اس میں کوئی تبدیلی کرنے سے بگاڑ آجاتا ہے اور وہ کام کی نہیں رہتی _
جسمِ انسانی کے تمام اعضاء مخصوص جسامت ، حجم اور ہیئت رکھتے ہیں _ ان کے مفوّضہ افعال کی انجام دہی کے لیے یہ ضروری ہے _ اگر اس میں کچھ فرق آجائے تو ان سے مطلوبہ افعال و منافع حاصل نہیں ہوسکتے _ یہی معاملہ جسم کی ہڈّیوں کا ہے _ کچھ لمبی ہیں کچھ چھوٹی ، کچھ موٹی ہیں کچھ پتلی ، کچھ گول ہیں کچھ چپٹی _ ہر ایک سے اسی صورت میں منفعت وابستہ ہے _ اس میں کچھ فرق آجائے تو جسمِ انسانی کو مطلوبہ فائدہ نہیں حاصل ہوسکتا ، بلکہ انسان کو کوئی نہ کوئی مرض لاحق ہوجائے گا _ پسلیوں کو پتلا اور ٹیڑھا بنایا گیا ہے _ تمام پسلیاں مل کر ایک پنجرہ بناتی ہیں ، جس کے اندر اہم ترین احشاء (دل ، پھیپھڑے ، جگر وغیرہ) محفوظ رہتے ہیں _ پسلیوں کا ٹیڑھا رہنا ضروری ہے _ اگر پسلیوں کی کجی ختم ہوجائے تو اندرونی اعضاء کی حفاظت مطلوبہ طریقے سے نہیں ہوسکتی _ گویا پسلیوں کا ٹیڑھا ہونا ان کا عیب نہیں ، بلکہ حسن ہے _
یہی حال عورت کا ہے _ خاندان کی تشکیل ، شوہر کا بھرپور تعاون اور اس کے ساتھ حسنِ رفاقت ، گھر کی دیکھ بھال اور نگرانی ، حمل ، وضعِ حمل ، رضاعت ، بچوں کی پیدائش و پرداخت اور دیگر کاموں کے لیے اسے مخصوص صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں اور اس کا مخصوص مزاج اور مخصوص نفسیات بنائی گئی ہے _ شوہر کے لیے ضروری ہے کہ ان کی رعایت کرے ، عورت پر بے جا جبر کرکے ، دھونس اور دھمکی کا مظاہرہ کرکے اور اس پر رعب جماکر اس میں تبدیلی کی کوشش نہ کرے _ اگر وہ ایسا کرے گا تو عورت کو تکلیف پہنچے گی ، اس کے جذبات مجروح ہوں گے اور ازدواجی زندگی میں خوش گواری باقی نہیں رہ سکے گی _ یا تو عورت خاموشی کو لازم پکڑ لے گی ، یا بات بات پر لڑنے جھگڑنے لگے گی ، بالآخر نوبت علیٰحدگی اور طلاق تک پہنچ جائے گی _
خلاصہ یہ کہ عورت میں نقص نکالنے اور عیب ڈھونڈنے کے لیے اِس حدیث سے استدلال کرنا درست نہیں ہے _ اگر انسانی مزاج میں ٹیڑھ پن ممکن ہے تو یہ مرد میں بھی ہوسکتا ہے اور عورت میں بھی _ ایسا نہیں ہے کہ عورت مجموعۂ نقائص ہے اور مرد تمام نقائص سے پاک صاف _ مرد ہو یا عورت ، ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہیے ، پھر جو کم زوریاں اور نقائص اپنی ذات میں نظر آئیں انہیں دور کرنے کی اسے کوشش کرنی چاہیے _