سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ!
سلمان قادری، پربھنی
ہر طرف غلغلہ ہے کہ اللہ سے دعا کرو کہ اللہ غیب سے مدد کردے اور اسرائیل نیست و نابود ہوجائے۔
غیبی مدد نہ اسپن کے وقت آئی،
نہ خلافت کو بچانے کے لئے آئی،
نہ اسرائیل کا قیام روکنے کے لئے آئی،
نہ خانہ کعبہ پر حملہ ہوا تھا 1979تب آئی،
نہ بابری مسجد کے وقت آئی،نہ عراق، شام کے وقت آئی،
نہ میانمار کے وقت آئی، نہ گجرات کے وقت آئی، نہ کشمیر پر آئی۔۔۔
ابھی بھی غیبی مدد کی صدا؟۔
غیبی مدد آپﷺ کی پیدائش سے پہلے آئی
کیونکہ تب لوگوں کے پاس کسی نبی کی کوئی عملی زندگی کا نمونہ نہیں تھا۔
پھر غیبی مدد جنگ بدر میں آئی
جب 1000 کے مقابلے میں 313 کھڑے ہوئے۔
غیبی مدد جنگ خندق میں آئی
جب وقت کے نبی نے پیٹ پر 2 پتھر باندھے اور خود خندق کھودی۔
غیبی مدد افغانستان میں آئی،
جب بھوکے پیاسے مسلمان بے سرو سامانی کے عالم میں لڑے۔
ہاتھ بھر بھر کی توند رکھ کر چمچماتی گاڑیوں میں گھوم کر غیبی مدد کا انتظار؟ طاغوت کے نظام پر راضی اور غیبی مدد کا انتظار,سودی کاروبار گلے تک ڈوبے ہوئے اور غیبی مدد کی امید،حواس باختہ اور آبرو باختہ معاشرہ، اخلاقی آوارہ پن اور غیبی مدد کی امید، زنا خوری،رشوت،حقوق کی پامالی اور غیبی مدد کی امید، قرآن سے کوسو کی دوری،نمازوں سے غفلت، ذکوۃ سے ہاتھ کھینچ لینا اور اللہ سے غیبی مدد کی امید. کونسی ایسی برائی ہے جسکا ارتکاب ہمارا معاشرہ نہیں کر رہا ہے.کیا تعلیم یافتہ اور کیا جاہل سب ایک حمام میں…..
اللہُ اکبر۔۔
آج ہمارے پاس اللہ کے نبی ﷺ کی عملی زندگی موجود ہے کیوں ہم اس پر عمل نہیں کرتے۔ارے ہاں ! ہمیں دنیا سے محبت اور موت سے نفرت ہوگئی ہے۔اسلئے ۔
اور دعائیں صرف دعائیں وہ لوگ کریں جن کے پاس حکومتیں نہیں ہیں۔لیکن جن کے پاس حکومتیں ہیں وہ بھی دعائیں کرنے کو کہہ رہے ہیں ۔جن کے پاس فوجی طاقت اور ہتھیار ہے وہ بھی دعا دعا کر رہے ہیں ۔
چھوڑ دیجیے فلسطینیوں کو ان کے حال پر وہ روز شہید ہوکر اللہ کے پاس سرخ رو ہو رہے ہیں ۔وہ ظلم کے خلاف روز ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔وہ روز قید و بند کو جھیل رہے ہیں لیکن کبھی وہن(دنیا سے محبت اور موت سے نفرت) کو اپنے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتے۔
لیکن ہاں وقت کا مورخ یہ ضرور لکھ رہا ہے کے اپنے آپ کو اسلامی ملک کہنے والے 50 سے زیادہ ممالک ہیں۔اسکے باوجود اسرائیل بڑے طمطراق سے فلسطین کو نگلے جارہا ہے۔اور یہ سب آپس میں خطے میں اپنی دھاک بٹھانے کے لئے دست و گریباں ہے اور اسے نام مقدس جنگوں کا دے رکھا ہے۔
وقت کا مورخ آج اس ظالم حاکم کو اسکی لاکھ برائیوں کے باوجود یاد کر رہا ہے جس نے سندھ کی سرزمیں سے اٹھی ایک مسلمان عورت کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے راجہ داہر کا سر تن سے جدا کر کے حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔
وقت کا مورخ اس آرام پسند خلیفہ معتصم با اللہ کو بھی یاد کر رہا ہے
جو اپنے تخت سے ایک مسلمان عورت کی صدا پر لبیک لبیک کہتے یوں دوڑا اور گھوڑے پر بیٹھ کر ان کی مدد کو پہنچا ۔
وقت مورخ اپنی دوراندیش نگاہوں سے اس منظر کو دیکھ رہا ہے جب اسرائیل ایک ایک کر کے سارے اسلامی ممالک کہلاے جانے والے ملکوں کو تہ وبالا کر رہا ہے اور ایک دن انھیں بھی نگل جائے گا چہ جائکہ اسرائیل کا خاتمہ یقیناً ہوگا لیکن اس سے قبل اس نے مسلم ممالک کہے جانے والے ممالک کو اندرون سے کھوکلا کر دیا ہے. آج جیسا سکوت ہے ویسا ہی سکوت ان اسلامی حکومتوں پر ہے۔۔اللہ رحم کرے۔
وقت کے مورخ کو اس دھند میں ایک چمک نظر آئی
چند نفوس جن کے بال پراگندہ، لیکن چہرے نور ایمانی سے منور۔
جن کے لباس آلودہ، لیکن انداز ایسا کے باطل کانپ اٹھے۔
جن کے ہتھیار بوسیدہ، لیکن غیرت ایمانی ایسی کے پہاڑ بھی لرز اٹھے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو سورہ المومنون کی صفت والے،
یہ وہ لوگ ہیں جو سورہ المدثر والے ہیں۔
یقیناً یہ آپس میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہیں۔
یہ وہ شاہین ہیں جو اپنوں کی محفل میں ہو تو موم کی طرح نرم اور باطل طاقتوں کے لئے لوہا۔
ہو حلقئہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم.حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
وقت کا مورخ اسی انتظار میں اپنا قلم روک لیتا ہے کہ
یہ لوگ آجائے تو اپنی تحریر مکمل کرلوں
ورنہ آج کے مسلمانوں کی ہی تاریخ لکھوں گا تو
آنے والی نسلیں اپنے آبا و اجداد کا نام لینے میں بھی شرم محسوس کرے گی۔
اس لیے۔۔۔
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے