یہ الیکشن ایشو لیس ہے بھائی!
زین شمسی
جو بات بھاگوت ، سدرشن ، اڈوانی ، اٹل ، گری راج ، بالیان ، اوما ، مینکا، یوگی ،مودی پرگیہ اشاروں اشاروں میں کہتے رہے اسے بارہ بنکی کے بی جے پی لیڈر رنجیت بہادر شریواستو نے براہ راست کہہ دیا کہ مسلمانوں کی نسلوں کو برباد کرنا ہے تو مودی کو ووٹ دیجئے۔ وضاحت کرتے ہوئے اس نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں مسلمانوں کا منوبل ٹوٹا ہےیعنی وہ اوقات میں آگئے ہیں۔مزہ کی بات بھی کہی کہ چین سے شیونگ مشین منگائی جائے گی اور دس ہزار مسلمانوں کی شیونگ کراکر انہیں ہندو بنا دیا جائے گا۔
ایشو لیس الیکشن ہے بھائی، کسی پارٹی کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ مینکا گاندھی کو بھی مسلمانوں کو ڈرانا پڑ رہا ہے۔ کا م کرانا ہے تو ووٹ دینا ہوگا۔پرگیہ سنگھ ٹھاکرکو پارلیمنٹ میں بھیج کر مودی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ہندئووں کی ایک ایسی علامت بنے کہ دہشت گردی کے الزامات میں جیل میں بند ہندو بھی پارلیمنٹ جا سکیں۔ پرگیہ کو ووٹ دینے والے اس ذہنیت کو بڑھاوا دینے والے ہوں گے جس میں مسلمانوں کو مارنے والے کا بہترین کیریئر سامنے ہو۔یہ سیاست کی سب سے نچلی سطح ہے۔ پلوامہ کے شہیدوں پر سیاست نہیں ہو سکی تو ہیمنت کرکرے کی شہادت کو دائو پر لگا دیا گیا۔
دراصل آپ کا ہیرو ان کے لئے ویلن ہوتا ہے اور ان کا ہیرو آپ کے لیے ویلن۔ غازی اور باغی کا سلسلہ برسوں سے چلا آرہا ہے۔ لیکن یہ ملک کے اندر ہی ہونے لگے تو خطرہ کی گھنٹی ہے۔ پرگیہ سنگھ کو سمان دے کر مودی نے ہندئوں کو شرمسار کیا ہے۔ جس ہیمنت کرکرے نے ممبئی حملہ میں ہیرو کا کام کیا وہ آج دہشت گردکے شراپ کاشکار ہو رہا ہے۔
نفرت اور دہشت کی سیاست نے سماج کو نہ صرف بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ اس کے ڈھانچہ کو نیست و نابود کرنے کافیصلہ لے لیا ہے۔جیل میں صابر علی کی پیٹھ پر اوم گودکر یہ بتایا جا رہا ہے کہ جیل میں بھی تم محفوظ نہیں ہو۔ ملک کے چیف جسٹس کو جب یہ احساس ہو جائے کہ ملک کا آئین خطرہ میں ہے تو پھر بات بہت سنجیدہ اور پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
اسی لئے الیکشن شروع ہونے سے قبل ہی میں نے لکھا تھا کہ ابھی کچھ مت دیکھئے ، صرف یہ دیکھئے کہ اس سرکار کو کون ہرا رہا ہے ، بس اسے ہی ووٹ دیجئے۔ لیکنالیکشن شروع ہوتے ہی کانگریس ، آر جے ڈی اور دیگر پارٹیوں کو کوسنا شروع کر دیا گیا، اور خود کو دو تین سیٹوں پر محدود کر دیا گیا۔
جس طرح ووٹ دینا آپ کا حق ہے اسی طرح امیدواروں کو ٹکٹ دینا کسی بھی پارٹی کا حق ہے۔ آپ کے پاس نہ کوئی پارٹی ہے اور نہ ہی اتنی سیاسی طاقت کہ آپ کسی بھی پارٹی کو اپنے من پسند امیدواروں کو ٹکٹ دینے پر مجبور کر سکیں تو اسی سسٹم میں یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ کیا کر سکتے ہیں۔
مودی حکومت میں مسلمانوں میں بیداری آئی ہے کم از کم وہ کچھ سوچنے سمجھنے لگے ہیں ، ڈر ہے کہ ان کی یہ سرگرمیاں مودی کے جانے کے بعد پھر بریانی کی دیگوں کی خوشبو میں مست نہ ہو جائے۔