کورونا کا بحران-عوام پریشان: حکومت، انتظامیہ اور پولیس کی بے حسی اور ظلم کی رقم ہوتی داستان
محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی، گلبرگہ
آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہندوستان اس وقت کورونا وائرس کے شدید بحران سے دو چار ہے۔ ہندوستان میں کورونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر المناک بحرانی حالات کا سبب بن رہی ہے۔ ملک کے مختلف ریاستوں اور علاقوں میں کورونا وائرس کی وبا کا قہر جاری ہے اور اس میں کمی کے بجائے دن بہ دن مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوستان کورونا وائرس کی دوسری لہر کے بعداس وقت دنیا میں کورونا کے پھیلاؤ کا نیا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ ایک دن میں تقریبا 4لاکھ 15ہزار کورونا سے متاثرین کے نئے کیسز درج کیے گئے۔ دنیا کے کسی ملک بھی میں ایک دن کے اندر اب تک کا یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ وزارت صحت نے 15مئی کوکورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں اس کے مطابق گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران 3لاکھ 25ہزارمزید افراد متاثر ہوئے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وبا کے آغاز کے بعد سے اب تک دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک دن کے اندر اتنی بڑی تعداد میں لوگ متاثر نہیں ہوئے تھے۔ تازہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا کے 192ممالک اور علاقوں میں متاثرین کی تعداد بڑھ کر 16کروڑ 19لاکھ تین ہزار 230ہوگئی ہے جبکہ 33لاکھ 57ہزار 979لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔
وزارت صحت کے جاری کردہ یہ اعداد و شمار سرکاری ہیں جبکہ بعض آزاد ذرائع کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی کیونکہ ایک تو ٹیسٹ کی سہولیات کم ہیں دوسرے اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے اس لیے بہت سے لوگوں کا گھروں میں ہی انتقال ہو جا رہا ہے۔ بیشتر ہسپتال ایسے مریضوں کی موت کے سرٹیفکٹ پر کورونا لکھنے سے بھی گریز کرتے ہیں جس سے اصل تعداد کا معلوم ہونا بڑا مشکل ہے۔پرائیوٹ ہسپتالوں میں کورونا سے ہلاک ہونے والوں کا بھی کوئی درست ریکارڈ نہیں رکھا جارہا ہے۔تقریباً تمام ہی ریاستی حکومتیں کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد ظاہر نہیں کر ررہی ہیں۔ کورونا وائرس سے اتنی زیادہ تعداد میں اموات ہو رہی ہیں کہ شمشان گھاٹوں میں آخری رسومات کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے جبکہ بعض مقامات پر قبرستانوں میں جگہ کم پڑ جانے کے باعث اجتماعی تدفین کی جا رہی ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر کے دوران ملک میں دل ہلا دینے والے مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو داخل کرانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ثابت ہورہاہے۔ لیکن اگر مریض داخل ہو بھی جائے تو اس کے زندہ واپس آنے کی کوئی ضمانت نہیں۔ نئے کیسز کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں کی تعداد بھی نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ شمشان گھاٹوں میں طویل انتظار سے بچنے کے لیے لواحقین پارکوں اور سڑکوں کے کنارے ہی اپنے عزیزوں کی آخری رسومات ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ہسپتالوں میں مردہ گھروں میں ہر طرف پڑی لاشیں عام سی بات ہو گئی ہے۔ لیکن شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں بھی ہر روز لاشوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ملک میں متاثرین کی تعداد میں یہ اضافہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب ملک آکسیجن، ادویات، ہسپتالوں میں جگہ اور دیگر طبی ساز و سامان کی شدید قلت سے دو چار ہے۔ اس دوران سعودی اور امریکا سمیت دنیا کے متعدد ممالک کی جانب سے امدادی ساز و سامان کی رسد پہنچنی شروع ہو گئی ہے۔لیکن ابھی زمینی سطح پر اس کے کوئی نتائج نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں بیڈ کے لیے لوگ اب بھی پریشان ہیں۔ آکسیجن کی کمی کی مارا ماری ہے اور اس سے متعلق ادویات کے لیے لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
کورونا کی دوسری لہر میں ملک کے تقریباً تمام ریاستیں متاثر ہوتے جا رہے ہیں تاہم سب سے زیادہ اثر انہی ریاستوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے جو پہلی لہر میں بھی بری طرح متاثر ہوئی تھیں۔ اس میں ریاست مہاراشٹر، کرناٹک، گجرات، تمل ناڈو اتر پردیش اور دہلی جیسے شہر سر فہرست ہیں۔حکومت نے یکم مئی سے 18 برس سے زیادہ عمر کے تمام افراد کو کورونا وائرس کے خلاف ویکسین لگانے کی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم کئی ریاستوں میں ویکسین کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد ملتوی کر دیا گیا ہے۔دہلی، مہاراشٹر، تامل ناڈو، مغربی بنگال، کیرالا، راجستھان اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کووڈ 19کے ٹیکے بہت کم ہیں، اس لیے اس منصوبے پر عمل کرنا مشکل ہے۔ اس کے برعکس مرکزی حکومت کا اصرار اس بات پر ہے کہ ان ریاستوں کے پاس اتنی مقدار میں ویکسین موجود ہے، کہ یہ مہم شروع کی جا سکے۔ان حالات سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا پھر بھی حالات قابو میں نہیں آرہے ہیں۔ویسے تو لاک ڈاؤن ہیلتھ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، مگر یہاں پچھلے سال کے لاک ڈاؤن نے کورونا سے زیادہ ظلم ڈھایا،پولس اور انتظامیہ نے عوم پر اس قدر ظلم ڈھایا کہ بیان سے باہر ہے کورونا اور لاک ڈاون سے پریشان عوام سے پولس اور انتظامیہ نے لاک ڈاون کی خلاف ورزی اور دیگر بہانوں سے جرمانہ کے نام پر لاکھوں روپئے وصول کئے ہیں جو عوام کے لئے مصیبت پہ مصیبت ثابت ہوئی۔
جب سے کورونا وائرس کی دوسری لہر آئی ہے، سب سے زیادہ مانگ آکسیجن گیس سلنڈر کی ہے اور موقع پرست اس کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ”لوگ آکسیجن کی کمی سے مر رہے ہیں ایسے میں پریشان لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ منافع کما رہے ہیں۔ آکسیجن سلنڈر کی ذخیرہ اندوزی اور آکسیجن کنسنٹریٹرز کی بلیک مارکیٹنگ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ ملک میں متاثرین کے لیے انتہائی ضروری آکسیجن گیس کی قلت پیدا ہوگئی اور کالابازاری بھی شروع ہوگئی ہے۔دہلی ہائی کورٹ میں ہسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کے حوالے سے ایک کیس پر سماعت ہوئی جس میں عدالت نے مودی حکومت کی سخت الفاظ میں سرزنش کی اور کہا کہ حکومت آخر عوام کی زندگیوں کے تئیں اس قدر لاپرواہ اور بے حس کیسے ہو سکتی ہے۔ہائی کورٹ کا کہنا تھا، ”حکومت زمینی حقائق سے آخر اس قدر غافل کیوں ہے؟ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے آپ لوگوں کو اس طرح مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔ بھیک مانگ کر، ادھار یا پھر چوری کر کے جیسے بھی بن پڑے، آکسیجن کا انتظام کریں، یہ آپ کا کام ہے۔”
ملک میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ملکی نظام صحت زبردست دباؤ میں ہے اور گزشتہ چند روز سے بیشتر ہسپتالوں کی جانب سے یہ شکایت عام طور پر سننے میں آتی رہی ہے کہ ان کے پاس آکسیجن تقریباً ختم ہو چکی ہے۔وزیر اعظم مودی نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ان کی حکومت آکسیجن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ریاستی حکومتوں اور نجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔اسی دوران حزب اختلاف کی جماعتوں نے کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے گزشتہ برس اسی بحران سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اسی لیے اس وقت کا ہسپتالوں کے بھر جانے اور آکسیجن کی قلت کا بحران اب شدید تر ہو گیا ہے۔ضروری طبی آلات من مانی قیمتوں پر فروخت کر رہے ہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر کچھ لوگ مریضوں کے رشتہ داروں سے بیڈ دلانے اور آکسیجن وغیرہ کے نام پر ہزاروں روپے اینٹھ کے فرار ہو رہے ہیں۔
سوچیے اگر کوئی چور مریض کی دوا کے پیسے لے کر بھاگ جائے تو کیسا لگے گا۔پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ایسے معاملات کے خلاف اقدامات کر رہی ہے۔ لیکن متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں شکایت درج کرانے کے لیے ہی کئی تھانوں کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ان دنوں بعض دواؤں کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہو گئی ہے۔ کورونا کے مریضوں کو دیے جانے والے انجیکشن ریمڈیسور کی بلیک مارکیٹ میں قیمت بیس ہزار روپے عام بات ہے۔ بعض پریشان حال افراد اپنے مریضوں کی جان بچانے کے لیے ایک انجکشن پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک میں خریدنے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ریمڈیسور کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والے کئی افراد کو گرفتار کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود لوٹ کھسوٹ کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ پولیس نے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کرنے والوں پر نگاہ رکھنے کے لیے کئی ٹیمیں بنائی ہیں۔ فرضی خریدار بنا کر دوا کی دکانوں میں بھیجتے ہیں۔ یہ ٹیمیں ہسپتالوں کے باہر بھی تعینات ہیں۔ اوراب تک کم از کم 91 افراد کو گرفتار کیا ہے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ممبئی، دہلی، لکھنؤ، کرناٹک اور گجرات میں حکام پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جس تناسب سے کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے، ان شہروں اور ریاستوں میں تمام ہسپتال اور دیگر طبی ادارے گنجائش سے زیادہ بھر چکے ہیں اور اب وہاں مزید مریضوں کی دیکھ بھال کی گنجائش باقی نہیں رہی۔اس صورت حال نے رشوت خوری کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ ملک میں ایسے وقت جب کہ ہر کوئی کورونا کے قہر سے پریشان ہے، کچھ لوگوں نے اسے پیسے کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ دواؤں سے لے کر انجکشن تک اور ایمبولنس سے لے کر آخری رسومات ادا کرنے تک ہر جگہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔
دوائیں اور آکسیجن گھر پر سپلائی کرنے کے نام پر دھوکہ دہی کے واقعات بھی مسلسل ہو رہے ہیں۔دارالحکومت دہلی میں لوگوں کو ہسپتالوں سے لاشوں کو شمشان گھاٹوں یا قبرستانوں تک لے جانے کے لیے ایمبولنس والوں کو ہزاروں روپے دینے پڑ رہے ہیں۔ ایمبولنس والے آٹھ سے دس کلومیٹر کی دوری کے لیے بھی بیس سے پچیس ہزار روپے وصول کر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ لاش کو ایمبولنس پر رکھنے کے لیے الگ سے پیسے دینے پڑ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں عوام سے ‘آپدا میں اوسر (مصیبت میں موقع) تلاش کرنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں۔ اس لوٹ کھسوٹ پر عوام کے ساتھ سیاسی جماعتیں بھی مودی کو طنز کا نشانہ بنا رہی ہیں۔کانگریس کے سینئر رہنما اور ترجمان رندیپ سرجے والا نے ایک ٹوئیٹ کرکے کہا، ”لُوٹ، لُوٹ اور لُوٹ۔ یہی کر رہی ہے مودی سرکار! کیا آپدا میں لوٹ اسی طرح جاری رہے گی؟ اب کورونا کی ویکسین پر بھی پانچ فیصد ٹیکس! کچھ تو رحم کرو مودی جی، بھگوان آپ کو معاف نہیں کرے گا!
کورونا وائرس کی دوسری لہر کے انتباہ اور وقت سے پہلے آگاہ کرانے کے باوجود حکومت نے احتیاط نہیں کی انتخابات کے لئے مغربی بنگال اور دوسری ریاستوں میں بڑی بڑی ریالیاں کیں،جس سے کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوا،اس کے علاوہ اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں کمبھ میلے کی اجازت دے کر حکومت نے باضابط طور پر کورونا وائرس کو دعوت دی۔ اس میلے میں ایک اندازے کے مطابق 46 لاکھ افراد دریائے گنگا میں اشنان کرنے آ گئے تھے۔ گو کہ اس میلے کو وقت سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا مگر وائرس نے اپنا کام کر دیا تھا اور زائرین اس کو پرساد کے روپ میں اپنا ساتھ لے کر گئے۔ چند ہی روز میں اس شہر میں 2,000 کے قریب کورونا کیسوں کا پتہ چلا گو کہ پورے ہجوم کو ٹیسٹ کرنا ممکن نہیں تھا۔ اب یہ پورا ہجوم ملک کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے۔
خود اترا کھنڈوزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت، جو چند روز قبل تک زیادہ سے زیادہ زائرین کو ہری دوار پہنچنے کے لئے اکسا رہے تھے، خود بھی کورونا کا شکار ہو گئے۔جو افراد اس میلے کے انتظام و انصرام پر مامور تھے، وہی پچھلے سال دہلی کے نظام الدین علاقے میں بنگلہ والی مسجد میں چند سو تبلیغی جماعت کے افراد کے اجتماع پر فقرے کس رہے تھے۔ ان کو کورونا جہادی اور وائرس تک کے نام دیے تھے۔ اس میں قومی میڈیا کے ایک سیکشن نے بھی ان کی بھرپور معاونت کی۔ ایسا نفرت بھرا ماحول تیار کیا گیا کہ دہلی کی بیشتر کالونیوں میں مسلمانوں کا داخلہ بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن کمبھ میلے میں کورونا کی تباہی دیکھ کر وزیر اعظم کو دھرما اچاریہ سبھا کے سربراہ سوامی اودیشا نند سے اپیل کرنی پڑی کہ وہ اب اس میلے کا اختتام کریں۔
اس وقت کورونا وائرس کی دوسری لہر نے بھارت میں ایک قیامت صغریٰ برپا کر رکھی ہے۔ سین وہی ہیں، مگر ایکشن تبدیل ہوئے ہیں۔ وہی مسلمان جنہیں کورونا کے پھیلاؤ کا مجرم بنا کر نشانہ بنایا گیا تھا آج وہی ان کے لیے مسیحا ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ اپنے مدارس، مساجد اور اسکول کووڈ مریضوں کے ہسپتالوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان ہندوؤں کی آخری رسومات بھی ادا کر رہے ہیں، جنہیں ان کے انتہائی عزیز کووڈ کے خوف سے لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔ کووڈ کی دہشت اور خوف کا یہ عالم ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں سو سے زائد لاشیں بغیر کسی آخری رسومات کے دریائے گنگا میں بہا دی گئیں یعنی مرنے کے بعد بھی یہ لوگ انسانی تکریم سے محروم رہے۔ تاہم سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس انسانیت سوز واقعے پر ملک میں رسمی غم و غصہ کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ نہ حکومت کے کسی ذمہ دارکی باز پرس ہوئی نہ کسی کو استعفی دینا پڑا، کسی کو کچھ فرق ہی نہیں پڑا،جیسے یہ واقعہ ایک عام نوعیت