حالاتِ حاضرہمضامین

فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے

مرزا انور بیگ، میرا روڈ۔ ضلع تھانہ

علامہ اقبال نے برسوں پہلے کہا تھا کہ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔

یہودی پنجہ کیا ہے اس سے سبھی واقف ہیں کہ یہ ان کا سرمایہ ہے جس نے یورپ اور امریکہ کو جکڑ رکھا ہے۔ یہ ممالک بہادر چاہ کر بھی اسرائیل کی مخالفت نہیں کر سکتے کیوں کہ جانتے ہیں اس سے ان کی معیشت برباد ہونے کا خطرہ ہے۔ علامہ اقبال کی دور رس نگاہوں نے قیام لندن کے دوران اس کا مشاہدہ کر لیا تھا اور اس سے قوم کو بھی آگاہ کردیا تھا۔ ممالک آزاد ہوتے رہے اور کرہ ارض پر مسلم ممالک وجود میں آتے گئے لیکن حقیقت میں وہ آزاد ہوۓ ہی نہیں تھے کیونکہ ان کی معاشی نبض انہی استعماری طاقتوں کے ہاتھ میں تھی جن کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔

اس بات کو محسوس کرنے والی نظر صرف ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی تھی۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ امریکہ کس طرح اپنے مخالفین پر پابندیاں عائد کر دیتا ہے کیونکہ عالمی سطح پر اس کی کرنسی سے کاروبار ہوتے ہیں اور جن ممالک پر پابندی لگاتا ہے پھر اس کی کرنسی کا امریکی ڈالر سے تبادلہ نہیں ہو پاتا اس لئے اس ملک کے لئے مشکلیں کھڑی ہو جاتی ہیں اور امریکی عالمی غنڈہ گردی اسی بل بوتے پر قائم ہے۔ طیب اردوغان نے اسی کے پیش نظر ایک تجویز رکھی تھی کہ ہمیں سونے کے ذریعے تجارت کو فروغ دینا چاہیے ۔ اگر اس تجویز پر صرف مسلم ممالک عمل پیرا ہو جائیں تو بھی بہت بڑا انقلاب آ سکتا ہے اور اس کی کامیابی کے ساتھ ہی بہت سے دیگر ممالک بھی مثلاً چین روس وغیرہ بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ اس کے لئے ایک ایسا بینک قائم ہو جہاں ممبر ممالک کا سونا رکھا ہو اور جس طرز پر کرنسی نوٹوں سے رقوم کا تبادلہ کیا جاتا ہے اسی طرز پر سونے کو ایک دوسرے ملک کے دفتر میں تبادلہ کیا ہے۔ یہ کوئی مشکل عمل نہیں ہے اور یہود کے پنجے سے اپنی رگ جاں چھڑانے کا ذریعہ ہے۔

یہود ایک مادہ پرست قوم ہے۔ اس کی تاریخ رہی ہے کہ زرا سی دنیاوی لالچ میں اس نے مذہب سے اور انبیاء سے غداری کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس کے نزدیک صرف دولت دنیا ہے اور اگر یہی دولت اس سے چھن جائے تو جو آج اس کے حمایتی ہیں وہ ان سے گردن پھیر لینے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگائیں گے۔ یہودی قوم آج تک دوسروں کی حمایت کے سہارے ہی زندہ ہے اور حمایت جاری رکھنے جانے کے لئے وہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے اسی میں معاشی ہتھکنڈہ سب سے اہم ہے اور اسی پر ضرب لگانا ضروری ہے۔ بعض ہمدرد اس قسم کی رائے دیتے ہیں کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے لیکن یہ بائیکاٹ مردے کے سر سے بال اتارنے جیسا ہے۔ اصلی معاشی ضرب اسی طرح لگے گی جس کا مشورہ ترکی صدر رجب طیب اردوغان نے دیا تھا۔

علامہ اقبال نے اسی جانب اس نظم میں اشارہ کیا تھا جب کہ کرہ ارض پر چند مسلم ممالک تھے اور آج سو سے زیادہ ممالک موجود ہیں۔
علامہ اقبال کی نظم
فلسطِینی عر ب سے
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دَوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یَہود میں ہے
سُنا ہے مَیں نے، غلامی سے اُمتوّں کی نجات
خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!