حالاتِ حاضرہمضامین

کیا حکومت تہذیبی تصادم کی فضا بنانا چاہتی ہے!

✍ ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

دار الحکومت دہلی کے پریس کلب میں سوامی نرسنگھا نند نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے جارحانہ خیالات کا اظہار کیا ، انھوں نے اسلام کو پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ بتایا، امن و سلامتی کے لیے دنیا سے اسلام کو ختم کرنے کے منصوبے کا اظہار کیا ، پیغمبر اسلام پر تند و تیز حملے کیے ، ان کی شان میں کھل کر دریدہ دہنی کی ، کھلے عام جنگ کی تیاری کا اعلان کیا اور منصوبہ بندی کا اعلان کیا ، وہ اس طرح کے پروگرام کرتے رہتے ہیں ، وہی نہیں ان کے ساتھی پشپیندر کمار بھی پورے ملک میں گھوم گھوم کر اسلام کے خلاف زہر اگل رہے ہیں ، کبھی شعائرِ اسلام کو نشانہ بناتے ہیں ، کبھی تاریخ اسلام پر تیکھے وار کرتے ہیں ، کبھی مسلم شخصیات کو نشانہ بناتے ہیں ، بھارت میں مسلمانوں کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ان کا مشغلہ ہے، یہ سارے پروگرام ضرور ایجنسیوں کی نظر میں رہتے ہوں گے، حکومت کو ان کی اطلاع ہوتی ہوگی ، دار الحکومت دہلی کے پریس کلب میں ایک انتہائی جارحانہ پریس کانفرنس ہوئی جو یقینََا حکومت کے علم میں آئی ہوگی ، اور اب تو سوامی کا قضیہ عالمی پلیٹ فورم پر گردش میں ہے ، تو کیا اب بھی حکومت اس سے ناواقف ہے؟ یا پھر حکومت اس پروپیگنڈہ مہم کی خود ہی سرپرستی کر رہی ہے۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ بی جے پی مذہب کے نام پر گندی اور استحصالی سیاست کرتی ہے ، ہندو مسلم کے کارڈ کے علاوہ اس کے پاس کبھی کوئی کارڈ رہا ہی نہیں ، یہ اس کا کامیاب ہتھیار ہے ، اسکے بغیر وہ الیکشن جیت ہی نہیں سکتی خواہ کچھ بھی کر لے ، جب کھل کر اس طرح کی پروپیگنڈ مہم چلائی جائے اور حکومت عالمی منظر نامہ پر بدنامی کا بھی نوٹس نہ لے تو سمجھ لینا چاہیے کہ دال میں کچھ کالا نہیں ہی کالی ہے ، بی جے پی نے گذشتہ سات سالوں میں جس بڑے پیمانے پر اسلامو فوبیا کو فروغ دیا ہے ، اسکے میڈیا نے جس قدر اشتعال انگیزی کی ہے ، اسکے نتیجہ میں تصادم اور لنچنگ کی جو واردات ہوئیں وہ بہت کم ہیں ، آگ میں گھی ڈالا ہی جاتا ہے کہ پورا معاشرہ اس کی لپٹوں میں جھلس جائے ۔ سوامی کا ویڈیودیکھئے تو وہ ہندو یہودی تعاون کی بات کرتا نظر آرہا ہے ، وہ مسلمانوں کے قتل عام کے لیے یہودیوں کے تعاون کی دہائی دے رہا ہے اور اسرائیل کو اپنا ہیرو بھی تسلیم کر رہا ہے.

پچھلے سالوں میں بھارت اسرائیل تعلقات کا فروغ بہت زیادہ ہوا ہے ، زرعی شعبہ میں اسرائیلی تعاون انتہاکو پہنچ چکا ہے، سیکورٹی کے شعبہ میں اسرائیلی تعاون کا حال یہ ہے کہ آج سے ۶؍سال پہلے ۷۵؍ آئی پی ایس افسران کو غزہ پٹی کے بارڈر پر لے جاکر ٹریننگ دی گئی تھی، سوامی کا اس تعاون کی دہائی دینا ہوائی تیر نہیں بلکہ اس کی جڑیں گہری ہیں ، اس نے صاف کہا ہے کہ اسرائیل ہمارے لیے رول ماڈل ہے ۔ اسلام کے خلاف یہ ہذیان گوئی کی مہم بہت پرانی ہے، اشتسراق کا پورا لٹریچر اسی کے لیے وجود میں آیا ، میدان میں شکست کھانے کے بعد عیسائیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو فکری اور ثقافتی سطح پر شکست دینا ہے چنانچہ انھوں نے مسلمانوں کی زبان سیکھی ، ان کی تہذیب ، تمدن ، ان کے علوم و فنون اور ان کے ملکوں کا مطالعہ کیا اور پھر انھوں نے تشکیک و اعتراضات کی مہم چھیڑ دی ، یہودیوں نے جب عالمی ذرائع ابلاغ پر قبضہ کیا تو اسلام مخالف پروپیگنڈہ کی مہم اور تیز کر دی، گزشتہ چار پانچ دہائیوں ہیں عالمی میڈیا میں جس قدر اسلامو فوبیا کا موضوع اٹھایا گیا اور جس قدر اسلامی دہشت گردی کا پروپیگنڈہ کیا گیا شاید کسی دوسرے موضوع پر اسکی عشرِ عشیر بھی گفتگو نہیں ہوئی.

۱۱؍۹ سے پہلے ہی صہیونی دانشور برنارڈ لوئس نے اسلام کو عالمی امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا اور اسلامی دہشت گردی کو موضوع بنایا ، اس نے اسی عنوان کے تحت تہذیبوں کے ٹکراؤ کا نظریہ پیش کیا ، ہنری کسینجر کا یہ بیان تاریخ میں رکارڈ ہے کے مغرب کو اب جس دشمن کا سامنا ہے وہ اسلام ہے اس نے ہی ۲۰۰۱؍ میں یہ کہا تھا کہ اسلامی دہشت گردی کے خلاف کل نہیں آج ہی جنگ شروع کر دینا چاہیے ، صہیونی اور مغربی مفکرین کے ایسے درجنوں بیانات تاریخ کے صفحات میں درج ہیں جن میں انھوں نے نبی اسلام کو نعوذ باللہ’’ جارح جنگجو ‘‘ کے طور پر پیش کیا ، اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب بتایا ، مسلم حکمرانوں کو ظالم و لٹیرا باور کرایا ، اسلامی تاریخ کو ظلم و جبر کی تاریخ کے طور پر پیش کیا ، عالمی پریس نے عرصہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ و متعصبانہ رویّہ اختیارکر رکھا ہے ، دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر امن و سلامتی کو برقرار رکھنا ہے تو دنیا کو اسلام سے نجات دلانا ہی ہوگا ، نہ صرف میدان میں بلکہ تہذیبی و ثقافتی سطح پر بھی مسلمانوں کو شکست دینی ہوگی ، یہ بھی بڑی عجب بات ہے کہ تہذیبی شکست بر صغیر کے مسلمانوں نے اب تک مکمل طور پر نہیں قبول کی، البتہ عالم عربی نے اس سمت میں بہت پہلے قدم رکھ دیا تھا، سب سے پہلے مصر نے فکری و تہذیبی شکست کا ثبوت دیا تھا ، اب تو سب ہی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ریس میں ہیں ، مرکز وحی میں صاحب کے ’’معتدل اسلام ‘‘ کا نفاذ ایک امر واقعہ بن چکا ہے۔

بہر حال سوامی نرسنگھا نند کے بیان کے مشمولات پر غور کرنے سے ایک بات تو صاف ہوگئی کہ وہ کچھ نیا نہیں بول رہا ہیں ،وہی گھسی پٹی باتیں ہیں جو عرصہ سے اسلام مخالف پروپیگنڈہ کا حصہ ہیں جن کو اب تک تمام اسلام دشمن مل کر بھی ثابت نہ کر سکے ، کہتے سب ہیں کہ اسلام تشدد سے پھیلا اور تلوار سے پھیلا مگر دلیل تو مستشرقین بھی نہ دے سکے ، گھسے پٹے دلائل لاتے ہیں مگر جواب کے آگے ٹہر نہیں پاتے تو منفی پروپیگنڈہ میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔

آج تک بھارت کے ایسے تمام متعصب مؤرخین اور مقررین ایک چھوٹے سے سوال کا جواب نہیں دے سکے ہیں کہ آخر اگر اسلام ایسا ہی متشدد مذہب ہے اور مسلمان ایسے ہی شدت پسند ہوتے ہیں تو بر صغیر پر مسلمانوں کی کم و بیش ہزار سالہ تاریخ میں دوسری قومیں باقی کیسے رہ گئیں ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ مسلمان اقلیت میں ہی کیوں رہ گئے۔

اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کسی مذہب اور مقدس شخصیات کو اس طرح نشانہ نہیں بنایا جا سکتا کہ اس مذہب کے ماننے والوں کو تکلیف ہو ، یہی ہمارے ملک کا قانون کہتا ہے اور یہی انسانیت کا قانون کہتا ہے ، تنقید ہو سکتی ہے ، بحث ہو سکتی ہے ، مگر مقدسات کو ، خدا کو، خدا کے رسول کی ذات کو ہذیان گوئی کا نشانہ نہیں بنایاجا سکتا ، مسلمانوں کو تو ان کا مذہب اس سے صاف روکتا ہے ، سورہ نمبر ۵؍ آیت نمر ۱۰۸؍ میں صاف حکم آیا ہے کہ کسی کی مذہبی شخٰصیات اور کسی کے دیوی دیوتا کو برا بھلا مت کہو ، میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے ، نرسنگھا نند جیسے لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اسکی اجازت کوئی بھی مذہب نہیں دیتا اور نہ ہی انسانی ضمیر اس کی اجازت دیتا ہے ،

پھر ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر یہ لوگ کھلے عام اسلام مخالف پروپیگنڈہ کیسے کر رہے ہیں ، پیغمبر ِ اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کیسے کر رہے ہیں ، کیا حکومت کی منشا شامل ہے ، کیا حکومت تہذیبی تصادم کی ذہنیت پیدا کر کے اپنا اقتدار باقی رکھنا چاہتی ہے ، کیا حکومت لنچنگ اور مسلم کش فسادات کی فضا بنانا چاہتی ہے ؟ اگر نہیں تو پھر حکومت نوٹس کیوں نہیں لیتی اور ایسے حساس معاملات میں اسکی مشنری حرکت میں کیوں نہیں آتی ؟ کیا اگر سوامی کے علاوہ کسی مولانا نے ایسا کوئی بیان دیا ہوتا تو بھی حکومت اور اسکی مشنریاں اتنی سستی دکھاتیں ؟

آخری بات اپنے شوسل میڈیا صارفین اور بالخصوس نوجوانوں سے کہنا ہے کہ ہمیں جذباتیت اور رد عمل کی نفسیات سے ہر حال میں بچنا ہے ، عالمی ذرائع ابلاغ پر جن کا قبضہ ہے وہ اپنی مہم چلاتے رہیں گے ، سوشل میڈیا سے یہ امید تھی کہ اس پر ہمارے لوگ اسلام کی مثبت تصویر پیش کریں گے مگر افسوس کہ یہاں بھی مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے اور جو کچھ ہے اس میں اکثر بے مصرف اور غیر مفید اوررد عمل کی نفسیات کا مظہر ہے ، پیغمبر اسلام کی بعثت کے بعد جو پروپیگنڈہ مہم شروع ہوئی تھی وہ جاری ہے اور جاری رہے گی ، ہم پر ذمہ داری ہے کہ ہم عام حالات میں مثبت پیغام رسانی کی بھرپور کوشش کریں ، جسمیں ہم سے بڑی چوک اور بہت کوتاہی ہورہی ہے، ضرورت ہے کہ اسلام کی مثبت تصویر اور اسلامی تاریخ کے درخشاں پہلوؤں اور پیغمبرِ اسلام کی انسانیت نوازی سے شوسل میڈیا کو بھر دیا جائے اور باقی کا کام پروردگار عالم کے ذمہ چھوڑ دیا جائے ۔نوٹ: یہ مضمون اخبار کے ہفتہ واری کالم کے لیے لکھا گیا تھا مگر اخبار کے لیے اتنی صراحت کو چھاپنا ممکن نہ ہوا اس لیے جب اخبار نے معذرت کر لی تو یہاں آپ کی نذر کیا جا رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!