مذہبیمضامین

اندھیروں سے اجالوں کا سفر

حنا خان (آکولہ)

صبح کی کرن پھوٹنے سے رات کا گھنا اندھیرا چھانے تک بہت ساری چیزیں، بہت سے واقعات ہماری نظروں سے گزرتے ہیں.

سورج کا بادل کو چیرتے ہوئے طلوع ہونا ایک مخصوص و متعین وقت میں غروب ہونا، چاند کا گھنا اندھیرے کا سینا چیرتے ہوئے اپنی مدھم سی روشنی سے سکون بخشنا، پہاڑوں کا اپنی جگہ جمے رہنا، کبھی چلچلاتی دھوپ، کبھی برسات تو کبھی کڑاکے کی سردی کا پڑنا۔ غرض خود انسان اور دیگر مخلوقات کا وجود بیدار مغز انسان کو غور وفکر کرنے پر مجبور کرتا ہے، کہ انسان کا وجود کیسے ہوا؟ خدا کی قدرت دیکھنے کے لیے دو آنکھیں، اس کی بڑائی سننے کے لیے دو کان، سخاوت کے لیے دو ہاتھ، خدمت خلق کے کاموں کو انجام دینے کے لیے دو پیر، عمل میں خلوص پیدا کرنے کے لیے دل، اللہ کی نعمتوں کے بارے میں سوچنے کے لیے دماغ، غرض اس کی ساخت کا ہر پہلو اسے اس کی تخلیق کار کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

اشرف المخلوقات کے لیے پیدا کی گئی ہر چیز اناج، پھل، پھول، پیڑ پودے، ہوا، پانی جو اس کی سانس لینا کا ذریعہ ہے۔ آخر کون ہے وہ عظیم بادشاہوں کا بادشاہ ؟ جس کے قبضے قدرت میں ہر چیز ہے، جس نے ان تمام چیزوں کا بہترین طریقے سے انتظام کیا۔ جس نے بنجر زمین پر سبزہ اگایا، زمین سے پھل ،سبزیاں، میوے اُگائے، جس نے کائنات کی ہر شئے کو انسان کی خدمت کے لیے مقرر کردیا۔

جب اس نے انسان کی تخلیق کی تو سب سے پہلے انسان حضرت آدم سے لے کر قیامت تک آنے والے آخری انسان کو جمع کیا اور ان سب سے مخاطب ہوکر فرمایا الست بي رب كم(کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں) ؟؟؟ اس وقت تمام انسانوں نے کہا تھا بے شک آپ ہی ہمارے رب ہے. لیکن جب انسان اس دنیا میں آیا تو اپنے اقرار کو بھول گیا, دنیا کی چمک دمک اور شیطانی وسوسوں نے اسے اپنے خالق سے بے خبر کردیا, اسے اس بات سے بھی غافل کردیا کہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے کیے تمام کاموں کی جواب دہی کرنی ہے …

لیکن دنیا کی رنگینیوں نے اسے اپنی طرف ایسا راغب کیا کہ وہ اسی میں گم ہوکر رہ گیا اس کی ساری کوشیشیں ساری مصروفیت صرف اس دنیاکے لیے ہوگئی , دنیا میں نام اونچا ہو, عزت شہرت سب نصیب ہو, دنیا کی ہر چیز اسے میسیر ہو بس یہی اس کی امیدیں اور خواہشیں بن گئی. اس خالق نے اسے بناتے وقت اور دنیا میں بھیجنے سے پہلے جو manual تیار کیا تھا کہ اسے کیسے زندگی گزارنی ہے, کن کاموں کو کرنا ہے ؟کن کاموں سے رکنا ہے ؟وہ اس سے بالکل بے خبر ہوگیا اور اپنی من مانی کرنے لگا, خود سے ذیادہ طاقتوروں کے آگے جھکنے لگا, خود ساختہ بت بنا کر اسے پوجنے لگا, اپنی خواہش نفس کا غلام بن کر رہ گیا, زمین میں فساد برپا کرنے لگا مختلف جرائم کا ذریعہ بن گیا مثلاً قتل و غارت گری, حق تلفی, زنا, شراب نوشی, بدکاری, جھوٹ, دھوکا دھڑی, سود کا لین دین, جہیز, والدین کے ساتھ ناروا سلوک, بے حیائی, ان تمام جرائم کو انجام دے کر اس نے خود ہی کا نقصان کرڈالا اس کی وجہ سےطرح طرح کی مصیبتیں اس کے سر آنے لگی وہ اس خالق کی سرکشی میں حد سے تجاوز کرنے لگا اور تاریخ گواہ ہے کہ جب جب کسی قوم نے اپنے تخلیق کار کی نامرمانی کی اس وقت اس قوم کو عذاب نے آدبوچا.

اسی کی ایک چھوٹی مثال “کرونا ” نامی وبا کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے …جس نے دنیا کے ہر انسان ,ترقی یافتہ ممالک, سائنس داں کو, اعلں سے اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کی ٹیم کو دانتوں میں انگلی دبانے پر مجبور کردیا , جس نے انسان کو احساس کروادیا کہ اس کی تدبیریں اس کی پلاننگ اس وحدہ لاشریک کے آگے بیکار ہے . کائنات کا ذرہ زرہ اس کے حکم کا محتاج ہے … خود کی ذات پر خود کا کوئی بس نہیں بلکہ انسان کی ہر سانس پر اس کے تخلیق کار کا حق ہے….

اس مہین سے ذرہ نے اسے خواب غفلت سے جگانے کا کام کیا, اب ضرورت ہے کہ انسان اپنی آنکھوں کو بند نہ کرے اپنے کانوں کو کھلا رکھے اوراپنے تخلیق کار کی صدا سنے , اور جہالت کے جس اندھیرے میں وہ وہ لا علمی کی زندگی گزار رہا تھا اس اندھیرے سے باہر آئے….. خود کی ذات کو شرک سے پاک کرکے اس وحدہ لاشریک کی بندگی میں لگ جائے…. کیونکہ یہں زندگی کا اصل سرمایہ ہوگا, اور یہں آخرت سے نجات کا ذریعہ بھی بنے گا…..
انشاءاللہ
اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جانے والی ٹرین میں بیٹھ جائیں. کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹرین چھوٹ جائے سوائے پچھتاوے کہ کچھ نہ رہ جائیں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!