حالاتِ حاضرہسماجیمضامین

حکومت اور کسان

محمد اظہر شمشاد مصباحی عبدالحمید نگر برن پور بنگال

ہندوستان کا ماحول دیگر ممالک سے قدرے مختلف ہے اگر آپ امریکہ کو  دیکھیں یا کسی بھی ملک کی طرف جہاں جمہوریت قائم ہے تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں کے حکمراں اپنے عوام کا بھر پور خیال رکھتے ہیں اور اپنے عوام کے سامنے سر خم کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے ابھی کچھ ہی دن پہلے امریکہ میں ایک مظاہرہ کے دوران عوام اور پولیس آمنے سامنے تھی پر قابل غور بات یہ ہے کہ وہاں کی پولیس لاٹھی چارج کرنے کے بجائے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئی جب ان سے اس بابت پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ہی عوام پر ڈنڈے کیسے برسا ئیں ہماری لڑائی دشمنوں سے ہے نہ کہ اپنے لوگوں سے اب آپ ملک ہندوستان کی طرف نظر اٹھائیں چاہے وہ CAA, NRC کا مظاہرہ ہو یا پھر کوئی بھی حکومت مخالف مظاہرہ ہو پولیس اپنی بربریت اور حدیں پار کرنے میں بالکل پیچھے نہیں رہتی اور اس پر تفصیل کی ضرورت نہیں کہ پولیس حکومت کے زیر اثر ہی یہ تمام امور انجام دیتی ہے.

ہندوستانی کسان پچھلے کئی دنوں سے حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں اور جو بل حکومت کسانوں پر تھوپنا چاہتی ہے اسے واپس لینے کی مانگ کر رہے ہیں اسی تناظر میں کسانوں نے 26 جنوری کو ٹریکٹر ریلی نکال کر حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے اب یہ امر قابل دید ہوگا کہ اس پر حکومت کا کیا رد عمل ہوتا ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے صاف طور پر یہ بات کہہ دی ہے کہ دلی کون آۓ گا اور کون نہیں اس کا فیصلہ حکومت کرے بہت پہلے لال بہادر شاستری نے ایک نعرہ دیا تھا جو آج بھی لوگوں کے زبان پر رواں ملتا ہے جے جوان جے کسان مگر موجودہ حکومت کے رویے کو دیکھ کر گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دبے زبان یہ کہنا چاہ رہی ہو مر جا جوان مر جا کسان.

کیوں کہ اس طرح کا بل پیش کرنا جو کسانوں کو پسند ہی نہیں اور ان کے خلاف ہے محض حماقت ہے ایسا نہیں ہے کہ کسی بچے سے اس کا باپ  یا کوئی دانا احمق سے یہ کہے کہ اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے لیکن تمہیں ابھی اس کا علم نہیں جب تم بڑے یا سمجھ دار ہو جاؤگے تو تمہیں سمجھ آئے گا جیسا کہ موجودہ حکومت جتا رہی ہے کیونکہ اتنے سارے لوگ جو آندولن کر رہے ہیں بچے نہیں یا مظاہرے میں صرف جاہل لوگ نہیں بلکہ پڑھے لکھے عقلمند اور سمجھ دار لوگ بھی موجود ہیں اگر ہم کسی آزاد عقلمند شخص کو کوئی چیز دیں اور وہ اسے پسند نہ کرے اگر چہ اس میں اس کے لیے بھلائی ہو تو یہ اس کی مرضی ہے اسے وہ چیز پسند نہیں وہ نہیں لینا چاہتا اب اگر ہم اس کے ساتھ زبردستی کریں اور اسے اس  چیز کو لینے پر مجبور کریں تو یہ بالکل غلط اور احمقانہ حرکت ہوگا بالکل اسی طرح جب کسانوں کو یہ بل منظور نہیں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ بل واپس لے لے نہ کہ زبردستی ان پر تھوپنے کی مذموم کوشش کرے جب کہ اس بل میں کسانوں کے لیے بھلائی نہیں بلکہ نقصان ہے

ہمارے پیارے ہندوستان میں خصوصاً دو طرح کے لوگ خاص یعنی celebrity ہوتے ہیں ایک کرکٹرز اور دوسرے فلمی اداکار جن کے لاکھوں کروڑوں فین مداح ہوتے ہیں مگر یہ لوگ محض کیمرے کے نقلی ہیرو ہوتے ہیں اصلی ہیرو ہمارے جوان اور کسان ہیں جو اپنے خون اور پسینے کو بہا کر ہماری حفاظت اور ہمیں تندرست رکھنے میں شب وروز کوشاں رہتے ہیں اس لیے ہمارا یہ فریضہ بنتا ہے کہ جب پچھلے کئی دنوں سے وہ حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہیں تو ہم ان کا ساتھ دیں خاص کر ان لوگوں کو ان کا ساتھ دینا چاہیے جن کی بات اثر رکھتی ہے مگر محض چند لوگوں کو چھوڑ کر کسی نے آواز بلند کرنا تو در کنار ان کے لیے ہمدردی کا ایک جملہ بھی نہیں کہا.

مزید برآں کچھ انتہا پسندوں نے تو ان کوششوں کو خالصتان سے تعبیر کر کے داغدار کرنے کی فضول کوشش کرنے سے بھی دریغ نہ کیا اس سے غافل کہ آج جو بل کسان مخالف ہے ایسا ہی مستقبل قریب میں کوئی بل پاس ہو جو آپ کہ مخالف ہو تو اس وقت کف افسوس ملنے کے کوئی چارۂ کار نہ ہوگا لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میںیہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے اس لیے ہم تمام لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم پر زور انداز میں کسانوں کا ساتھ دیں اور حکومت کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ کسان مخالف بل واپس لے اور یہ ثابت کر دیں کہ ہم اپنے اصلی ہیرو کے ساتھ ہمیشہ کھڑے ہیں

اپنی گویائی کو تلوار بھی کر سکتے ہیں
قصر شاہی کو یہ مسمار بھی کر سکتے ہیں
ہے حکومت سے گزارش سنیں باتیں ان کی
زندگی ورنہ یہ دشوار بھی کر سکتے ہیں
دے کے دھرنا پر امن طور سے دنیا والوں
اپنی راہوں کو یہ ہموار بھی کر سکتے ہیں 
جس پہ ہے ناز اسی کرسی کو واپس اظہرلے کر
تم کو بے مختار بھی کر سکتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!