نافرمان اولاد، ذمہ دار کون!
حلیم اطہر سہروردی، گلبرگہ
اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ معاشرہ کا سب سے بھیانک اور خطرناک مسئلہ نافرمان اولاد ہے آج اکثریت کی یہ شکایت ہے کہ ان کی اولاد نافرمان ہے اپنی من مانی کرتی ہے بے راہ روی کا شکارہے اوراس لعنت کا شکار لڑکے اور لڑکیا ں دونوں ہیں جو ماں پاب کے مقام و مرتبے سے یکسرغا فل ہیں، فرمانبرداری کے جذبہ سے عاری ہیں اور عزت و احترام کا تو کوئی تصورہی نہیں ہے یہ حالات عالمی سطح پر عام ہیں اورسبھی نئی نسل کی نافرمانی، سرکشی اورباغیانہ رویہ سے بے حال ہیں لیکن اس کے ذمہ دار کون ہیں کیوں نئی نسل نافرمان سرکش اور گمراہ ہورہی ہے کیا اس کے وجوہات ہیں اور اس کے سد باب کیلئے کیا کرنا ضروری ہے اس طرف توجہہ دینے کی کسی کو توفیق نہیں ہورہی ہے۔
اس کا اصل سبب جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہ کہ ہر انسان صرف اپنے حق کی فکر میں ہے لیکن اپنا فرض ادا کرنے کی کوئی فکر نہیں ہے۔آج ہر انسان اپنے حقوق کیلئے لڑرہا ہے لیکن اپنے فرض سے غافل ہے اپنا حق حاصل کرنے کیلئے تو کسی بھی حدتک جانے تیار رہتا ہے اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے لیکن جب فرض ادا کرنے کا معاملہ آتا ہے شرمناک حدتک اس سے فرارکی کوشش کرتا ہے حقوق کے حصول اور و فرائض کی ادائیگی میں یہ عدم توازن اور بے اعتدالی ہی آج معاشرتی انحطاط اور نوجوان نسل کی اخلاقی زوال کا سبب ہے۔
اولاد کی گمراہی کا بنیادی سبب والدین کی غفلت اور اولاد کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و تہذیب کی ذمہ داریوں میں کوتا ہی ہے اولاد کے نیک اور بد ہونے میں والدین کا زبردست رول ہوتا ہے۔والدین جس طرح اولاد کی پرورش و تربیت کریں گے اولاد اتنی ہی لائق اور فرمانبردار ہوگی اس لئے کہ بچے نقال ہو تے ہیں اور والدین ہی ان کے سب سے قریب ہوتے ہیں لہٰذا جو بھی کام وہ والدین کو کرتے دیکھتے ہیں اسی کو قبول کرلیتے ہیں دوسرے معنوں میں والدین اولاد کے لئے آئینہ ہیں وہ آئینہ میں جو عکس پاتے ہیں وہی اپنا لیتے ہیں اگر والدین با اخلاق اچھی عادتوں اور خوبیوں کے حامل ہیں تو اولاد بھی ان خصوصیات کو اپنے اندر سمولیتے ہیں اور اگر والدین کی خصوصیات اس کے برعکس ہوں تو اولاد میں بھی وہی خصوصیات منعکس ہوتی ہیں عصر حاضر میں تو والدین کو اتنی فرصت ہی نہیں کہ اولاد کی جانب توجہہ دے سکے انہیں تو بس دنیا بنانے کی فکر لگی ہوئی ہے اکثر جگہ صبح ہوتے ہی ماں باپ دونوں ملازمت کیلئے نکل جاتے ہیں اور بچے یا تو گھر والوں کی گود میں پلتے ہیں یا آیا انہیں سنبھالتی ہے اور شام کو تھکے ہارے آتے ہیں تو اولاد کی طرف توجہہ دینے کی طاقت باقی نہیں رہتی، کہیں باپ کے ملازمت کیلئے گھر سے نکلتے ہی ماں بھی اپنی پارٹیوں، سہلیوں اور اپنی مصروفیات میں مشغول ہو جاتی ہے اور اولاد دوسروں کی گود میں پرورش پاتی ہے کہیں گھر میں ماحول تناؤ کا شکار رہتا ہے والدین میں نااتفاقی اور توتو میں میں چلتی رہتی ہے جس کا اثر اولاد پر پڑتا ہے اور اس کی طبعیت میں منفی پہلو پر ورش پانے لگتے ہیں۔
اولاد کی نافرمانی اور سرکشی والدین کیلئے بہت بڑا صدمہ ہے لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ان کی پرورش اور تربیت میں والدین نے سنجیدگی سے شب و روز خصوصی توجہہ اور لگن سے ان کو اطاعت گذار اور سعاد تمندبنانے کی کوشش کی ہے یا بجائے اس کے اپنا سارا وقت اپنے معاملات اور مسائل زندگی سے نپٹنے میں لگا دیا اوراپنا معیار زندگی کو بلند کرنے میں صرف کردیا ظاہر ہے جس اولاد کو ماں باپ کا مرتبہ ان کی خدمت و اطاعت سے واقف کروانے والی تعلیم ہی نہ دی گئی ہو وہ والدین کی فرمانبرداری اور ان کے حقوق کیا جانیں، اگر والدین نے اپنا فرض ادانہیں کیا اور اولاد کو نظر انداز کرکے محض اپنی زندگی کو سنبھالنے اور معیار بلند کرنے میں لگے رہے اور ان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں اور ان کے جذبات سے بے پرواہ اپنے معاملات میں الجھے رہے تو ایسی اولاد فرمانبردار کیسے بن سکتی ہے اولاد جس طرح اپنے وجود کے لئے والدین کی محتاج ہے اسی طرح اپنی نشونما پرورش اور تربیت و نگرانی کیلئے بھی والدین کی محتاج ہے بچے کی عمر کا ابتدائی دور نہایت نازک ہوتا ہے اس دور میں اگر والدین کی سرپرستی اور نگہبانی حاصل نہ ہو تو وہ ایک طرح سے کشمکش کا شکار ہو جا تا ہے۔
والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ والدین اولاد کے لئے نمونہ ہیں آئیڈئیل ہیں۔بچے والدین سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں اور ان کا اثر قبول کرلیتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ والدین کو اولاد کی صحیح تربیت کیلئے ہر اس عمل سے اجتناب کرنا ہوگا جو اولاد کے لئے مضر ثابت ہو سکتا ہو اولاد کی نافرمانی اور سر کشی کی سب سے اہم وجہہ دین سے دوری ہے۔مثلاً بچے بالغ ہونے کے باوجود نہ نماز پڑھ رہے ہیں لڑکیاں پردہ نہیں کر رہی ہیں سب آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں اور ماں باپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں برائے نام کبھی کچھ کہہ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو اپنی ذمہ داری ادا کر دی۔
یاد رکھئے! ہم نے اپنی ذمہ داری واقعۃً ادا نہیں کی ہم نے اس فریضے میں زبردست کوتاہی کی اور برابر کوتاہی کرتے چلے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں اولاد دین سے دور ہو رہی ہے۔پہلے بچہ جب صبح کو آنکھ کھولتا تو باپ کو فجر کی نماز کی تیاری کرتے اور ماں کو جائے نما ز پر پا تا تھا لیکن آج صبح ہوتے ہی کہیں ملازمت پر وقت پر پہنچنے کی گڑبڑ ہوتی ہے تو کہیں صبح ہوتے ہی ٹی وی ریڈیو شروع ہو جاتے ہیں۔اولادکی صحیح تربیت کیلئے والدین کو سنجیدگی سے اس کو اللہ کی جانب سے عطا کی گئی اہم ذمہ داری سمجھتے ہوئے ان کی صحیح اور اسلامی طرز پر تعلیم تربیت کا اہتمام کرنا چاہئے گھرکے ماحول کو صاف ستھرا اور خوشگوار ہونا چاہئے نمازوں کی پابندی کی تلقین کرنی چاہئے ٹی وی کے نقصانات سے آگاہ کرنا چاہئے اور ہر وہ چیز جس سے نقصان ہو اس سے متعلق موقع محل کے حساب سے اولاد کو واقف کراتے رہنا چاہئے ان پر نظر رکھنی چاہئے ان کے روزمرہ کے معاملات سے واقفیت حاصل کرنا چاہئے روزانہ ان سے دن بھر کی مصروفیت سے متعلق سوال کرنا چاہئے اگر گھر آنے میں انہیں دیری ہورہی ہے تو وجہہ معلوم کر کے اس کی تصدیق بھی کرلینی چاہئے اسکول کالج یا اسپیشل کلاسس کا بہانہ بنا کر کہیں اولاد کسی غلط کا م میں تونہیں پھنس رہی ہے اس کی فکر کرنی چاہئے ان کے دوستوں سے متعلق بھی دیکھنا چاہئے کہ وہ کس ذہن و فکر کے ہیں کیونکہ جس ذہن و فکر کے لوگوں میں آپ کی اولاد رہیگی اس کے اثرات اس پر پڑیں گے اگر لڑکی ہے تو یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے ان کے پاس موبائیل فون ہیں تو پتہ کرنا چاہئے کہ وہ کس استعمال میں آرہے ہیں۔
ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جانا ہے ہم پر صرف اپنی ذات کی ذمہ داری نہیں ہے کہ صرف اپنی ذات کو شریعت کا پابند بنائیں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند بنالیں بلکہ گھر والوں کی ذمہ داری اور اولاد کی ذمہ داری بھی ہمارے اوپر ہے اپنے تمام ما تحتوں کی ذمہ داری بھی ہمارے اوپر ہے اور ماتحتوں میں سب سے پہلے بیوی بچے ہیں۔قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ (جیسے ایندھن ڈالنے سے آگ اور تیز ہو جاتی ہے اسی طرح انسان اور پتھر ڈالنے سے وہ جہنم اور تیز ہو جائے گی) اس جہنم پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو سخت طبیعت کے ہیں تند خو اور مضبوط اور طاقتور ہیں (کوئی ان کو ہٹا کر اور جہنم سے نکل کر بھاگ نہیں سکے گا) جو اللہ تعالیٰ ان کو حکم دے دیتے ہیں وہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس چیز کا ان کو حکم دیا جاتا ہے وہ اس کو کرلیتے ہیں۔
اس جہنم سے بچنے کا حکم دیا جارہا ہے کہ تم خود اس آگ سے بچو اور اپنے گھر والوں کو بھی اس سے بچاو اور اس جہنم سے بچنے کا راستہ یہی ہے کہ ہم بچوں کے حقوق بھی ادا کریں جو حقوق شریعت نے مقرر کئے ہیں اور یہ حقوق بچے کے پیدا ہوتے ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک اور صورتحال یہ بھی ہیکہ فی زمانہ اکثر والدین اپنی اولاد کی دینی و اخلاقی تربیت کی طرف توجہہ نہیں دیتے بس اتنی فکر ہوتی ہیکہ اپنی اولاد اور بچوں کا کیرئیر اچھا ہو جائے ان کی آمدنی اچھی ہو جائے اور معاشرے میں ان کا ایک مقام بن جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی اولاد جس کو کامیاب کرنے کی فکر تھی۔ وہی اولاد ماں باپ کو بوجھ سمجھتی ہے۔ آج آپ خود معاشرے کے اندر دیکھ لیں کہ کس طرح اولاد اپنے ماں باپ کی نافرمانی کر رہی ہے اور ماں باپ کے لئے عذاب بنی ہوئی ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ ماں باپ نے ان کو صرف اس لئے بے دینی کے ماحول میں بھیج دیا تاکہ ان کو اچھا کھانا پینا میسر آجائے اور اچھی ملازمت مل جائے اوران کو ایسے بے دینی کے ماحول میں آزاد چھوڑ دیا جس میں ماں باپ کی عزت اور عظمت کا کوئی تصورنہیں ہے جس میں ماں باپ کے حکم کی اطاعت کا بھی کوئی لحاظ نہیں ہے وہ اگر کل کو اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے کرتا ہے تو اب ماں باپ بیٹھے رو رہے ہیں کہ ہم نے تو اس مقصد کے لئے تعلیم دلائی تھی مگر اس نے یہ کرلیا۔
ارے بات اصل میں یہ ہے تم نے اس کو ایسے راستے پر چلایا جس کے نتیجے میں وہ تمہارے سروں پر مسلط ہو تم ان کو جس قسم کی تعلیم دلوارہے ہو اور جس راستے پر لے جارہے ہو اس تعلیم کی تہذیب تو یہ ہے کہ جب ماں باپ بوڑھے ہو جائیں تو اب وہ گھر میں رکھنے کے لائق نہیں ان کو نرسنگ ہوم میں داخل کر دیا جاتا ہے اور پھر صاحبزادے پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے۔
آج جب لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی اولاد کو بھی دین کی تعلیم دو کچھ دین کی باتیں ان کو سکھاو ان کو دین کی طرف لاو گناہوں سے بچانے کی فکر کرو تو اس کے جواب میں عام طور پر بکثرت لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اولاد کو دین کی طرف لانے کی بڑی کوشش کی مگر کیا کریں کہ ماحول اور معاشرہ اتنا خراب ہے کہ بیوی بچوں کو بہت سمجھایا مگر وہ مانتے نہیں ہیں اور زمانے کی خرابی سے متاثر ہو کر انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کرلیا اور اس راستے پر جارہے ہیں۔ اور راستہ بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اب ان کا عمل ان کے ساتھ ہے ہمارا عمل ہمارے ساتھ ہے اب ہم کیا کریں۔ اور دلیل میں یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی توآخر کافر رہا اور حضرت نوح علیہ السلام اس کو طوفان سے نہ بچا سکے اسی طرح ہم نے کوشش کرلی ہے وہ نہیں مانتے تو ہم کیا کریں؟
یہ بات ویسے اصولی طور پر تو ٹھیک ہے کہ اگر ماں باپ نے اولاد کو بے دینی سے بچانے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کرلی ہے تو انشاء اللہ ماں باپ پھر بری الذمہ ہو جائیں گے اور اولاد کے کئے کا وبال اولاد پر پڑے گا۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ماں باپ نے اولاد کو بے دینی سے بچانے کی کوشش کس حد تک کی ہے؟ اور کس درجے تک کی ہے؟ ہمارا اپنا سلوک بھی جو ہنم اپنے والدین سے روا رکھتے ہیں اس کا بھی اثر اولاد پر پڑتا ہے، یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اولاد کی تربیت کے ساتھ ساتھ والدین سے حسن سلوک کا بھی نمونہ انہیں دکھانا ضروری ہے،ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو گے توتمہا ری اولاد بھی تمھارے ساتھ حسن سلوک کرے گی۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریافت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کس طرح کیا جائے؟ تو انھوں نے فرما یا: ان پر اپنا مال خرچ کرو اور وہ جو حکم دیں اس کی تعمیل کر و،ایسی فرمانبرداری کا مظاہرہ ہمیں اپنے والدین کے ساتھ کرنا ہوگا جس کی پیروی اولاد بھی کرے گی۔دور حاضر میں اولاد سے متعلق والدین کی ذمہ داری پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی اولاد پر خصوصی توجہہ دیں اور ان کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق و جذبات کا بھی خاص خیال رکھیں،اگر اولاد میں یہ احساس پیدا ہوجائے کے والدین اس کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ہیں تو ایسی اولاد میں بغاوت اور سرکشی و نافرمانی کا جذبہ آجائیگاجو گذرتے وقت کے ساتھ نفرت میں بدل جائیگا اور ایسی اولاد سے پھر فرمانبرداری کی امید بھی نہیں رکھ سکتے۔
اس لئے ضروری ہیکہ اولاد کے حقوق اس کے جذبات و احساسات کا بھی ضاص خیال رکھیں،اگر گھر میں ایک سے زائد بچے ہوں تو ان میں توازن برقرار رکھیں اکثر ایسی شکایتیں رہتی ہیں کہ بچوں میں یہ احساس پیدا ہوجاتا ہیکہ دوسرے بھائیوں اور بہنوں کے مقابلہ اس کو کم پیار اور توجہہ مل رہی ہے اس معاملہ میں بھی خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔اولاد کی تعلیم تربیت نہایت اہم ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے انبیاء، صحابہ اور اولیاء و صالحین کی پاک جماعت بھی رب العزت سے صالح اولاد کی دعا کیا کرتے تھے اولاد کے صالح ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ان کی تربیت ان اصولوں پر کی جائے جو دین اسلام نے بتائی ہیں اورجن پر انبیاء، صحابہ اور اولیاء و صالحین نے کی ہے تاکہ اولاد نہ صرف فرمانبردار ہو بلکہ ایسی تاریخی اور باکمال شخصیتیں وجود میں آئیں جو عالم اسلام اور دنیا کے لئے مثال بنیں۔