بیف کھانے پر پابندی! برآمدی پر نہیں؟
سید عرفان اللہ، بنگلور
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں الحمد اللہ ہر چیز کی آزادی ہے۔ ہمارے ملک میں بولنے کی آزادی ہے۔ حکومت اگر کوئی غلط فیصلے کرے تو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی آزادی ہے۔کھانے، رہنے، خریدنے وغیرہ کئی سہولیات کی آزادی ہے۔ یا یوں کہیں چند سال قبل ہر کسی کو جمہوری اخیتار تھا اور ہر قسم کی آزادی تھی مگر ایک حکومت بدلنے کے بعد سے ہی ایسا ماحول پیدا کیا جارہا ہے کہ ایک مخصوص طبقہ ایک مخصوص قوم کے خلاف سازش کے طور پر ان کے بنیادی حقوق پر حملہ آوری ہو رہی ہے۔
پھر چاہے ایک زبان کو ان سے منسوب کرنے کے بعد کچھ سرکاری اسکولوں کو جہاں اردوزبان کو زبانِ اول کے طور پر پڑھائی جاتی ہے ان اسکولوں کو کئی وجوہات کی بنا پر بند کیا جارہا ہے اور کچھ دہائیوں سے ہندوستان کے شمالی ریاستوں میں اردو زبان کو تقریباً ختم ہی کر دینے کی کوشش اور سازش میں کئی اردو اسکولوں کو بالکل بند ہی کر ددیا گیا ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ وہاں کے اردو شعراء و ادباء بھی ہندی یا انگریزی رسم الخط میں اپنا کلام یا مضمون لکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ یہ صرف اردو کو ایک مخصوص طبقے سے جوڑنے اور پھر اس طبقے سے تعصب کی خاطراردو زبان کو ختم کرنے کی ناکام کوشش ہو رہی ہے۔
خیر اب ”بیف“ یا ”بڑے کا گوشت“ کو بھی مسلمانوں کے ساتھ منسوب کیا جارہا ہے اور اب مسلمانوں کے پیٹ پر وار کرنے خاطر بڑے کا گوشت پر حکومتِ کرناٹک کی جانب سے پابندی عائد کی گئی اس سے پہلے گجرات اور یو پی میں بھی پابندی عائد ہو چکی ہے۔ کیا بڑے کا گوشت صرف مسلمان ہی کھاتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا جمہوریت میں کھانے کی آزادی نہیں ہے؟ کیا غیر مسلم جو بڑے کا گوشت کھاتے ہیں ان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے؟ کیا بڑے کے گوشت کے نام پر صرف مسلمانوں کا استحصال نہیں کیا جا رہا؟ اگر ہاں تو پھر ہمارے سیاسی رہنما اور نام نہاد قائد کیا کر رہے ہیں؟ کیا بیف پر پابندی عائد ہونے سے صرف قصاب برادری ہی پریشان ہے؟ غرباء کا پُرسانِ حال کون؟ اگر حکومت کھانے پر پابندی عائد کرتی ہے تو پھر عوام بغاوت کیوں نہ کرے؟ کسانوں کے خلاف بل پاس ہونے پر کیا ملک میں ہنگامہ برپا نہیں ہے؟ تو پھر اس بل کے خلاف ریاست بھر میں کیوں آواز بلند نہیں ہوتی؟۔
ہمیں تو ریاستی اور مرکزی حکومت دونوں سے مطالبہ کرنا چائیے کہ گائے اور بیل کو ”قومی جانور“ کے طور پر اعلان کر دے۔ یہ کیا بات ہے کہ ملک میں بیف کھانے پر پابندی اور ملک سے ہی کئی ہزار ٹن کا گوشت بیرون ممالک کو برآمد کیا جائے؟ یہ کیا بات ہے کہ سگریٹ پینے پر پابندی مگر اسے بنانے پر روک نہیں۔ شراب پینے پر جرمانہ عائد ہوتا ہے مگر بنانے کے لئے حکومت سے ہی لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ یہ دوغلہ پن کیوں۔ ہم تمام کو حکومت سے پر زور مطالبہ کرنا چائیے کہ بیف کے نام پر غریبوں کو تنگ نہ کرے بلکہ گائے اور بیل کو قومی جانور اعلان کرے۔ اور گائے کے دودھ پر بھی پابندی عائد ہو۔
گائے کو گھروں میں نہ پالا جائے بلکہ جنگلوں میں چھوڑ دیا جائے۔ کیوں کہ یہ سڑکوں پر آکر رہگیروں کو بہت پریشان کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے ٹرافیک بھی کئی بار متاثر ہوتا ہے۔ کئی بار بیل کی وجہ سے عوام کو نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے اور کئی انسانی جانوں کا نقصان بھی ہوا ہے۔ آزاد اور آوارہ گھومنے والے جانوروں کو بند کرنے کا بھی انتظام کرنا چائیے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی بیف کے ذبحہ خانے ہیں انہیں بند کر دینا چائیے اور بیف برآمدی پر سب سے پہلے روک لگا دینا چائیے۔ اس سے عوام میں بھی بیداری آئے گی اور بے وجہ معصوم لوگ نہیں مارے جائیں گے۔ بیف برآمدی پر اگر پابندی نہیں عائد ہو سکتی ہے تو پھر معصوم لوگوں کو کیوں پریشان کیا جارہا ہے۔
صرف بیف کھانے پر پابندی کرنے سے کیا کھانے والے غرباء ہی تکلیف میں آئیں گے نہیں بلکہ کسان اور مزدور اور ہر وہ طبقہ جو اس پیشہ سے جڑا ہوا ہے وہ تمام بھی بہت تکلیف میں آئیں گے۔ https://beef2live.com/کی رپورٹ کے مطابق بیف برآمدی میں ہندوستان کا تیسرا مقام ہے۔ یعنی دنیا کی بیف کھپت میں ہندوستان کا 13.14% حصہ داری ہے۔ اور https://www.bizvibe.com/ کے مطابق ہندوستان چوتھے مقام پر آتا ہے۔
اگر جانور کو مارنا غلط ہے اور اگر بیل کا گوشت کھانا غلط ہے تو کھلانا بھی غلط ہے۔ اس کے ہڈی اور چمڑے کا استعمال بھی غلط ہے۔ صرف ایک قوم سے تعصب کی بعث ان کی غذا پر پابندی کی خاطر بیف پر پابندی یہ کیا بات ہے؟ ہم تمام کو چائیے کہ حکومت سے جواب طلب کریں اور حکومت پر دباؤ بنائیں کہ ”یا تو پورے ہندوستان سے بیف پر پابندی ہٹھائیں یا پھر پورے ملک میں مکمل پابندی عائد کریں پھر چاہے کوئی قوم یا طبقے سے تعلق رکھنے والے ہوں اور ساتھ ساتھ ہندوستان سے بیف برآمدی پر بھی پوری طرح پابندی عائد ہونی چائیے اورفوراً گائے اور بیل کو قومی جانور اعلان کر دینا چائیے۔“
صرف ووٹ بینک کی خاطر اور ہندو مسلم کے درمیان کشیدگی پیدا کر کے سیاست چمکانے کا تماشہ بند ہونا چائیے۔ ہم تمام کو اس سمیٹ ایک ٹھوس اقدام کی فکر بھی کرنی چائیے۔ ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چایئے کہ حکومت کسی کی بھی ہو اگر عوام کے بنیادی مسائل کا حل نہیں کر سکتے تو ہم ان سے جواب طلب کر سکیں۔ پیٹرول کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ سڑکوں کی حالات بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ پانی کی قلت، کوڑے کا انبار اور بیماریوں کا راج ہمارے پورے ملک میں کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ سمارٹ سٹی کے نام پر بس گڑے کھودے جا رہے ہیں اور مہنگائی کے بوجھ تلے پھر وہی غریب ہی دبا جا رہا ہے۔ آخر کب تک یہ تماشہ ہوتے رہیں گے؟
حکومت کسی بھی سیاسی پارٹی کی ہو مگر عوام کی صورتحال ہر دور میں بس وہی ہے۔ صرف وزیرِ اعظم بدلتے ہیں مگر ہندوستان کی صورت بدلنے کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔ اس پر ستم کبھی کھانوں پر پابندی کبھی ٹیکس کی بھرمار کبھی سیاسی رنجش کے چلتے تشہدد اور پھر غریب پر ظلم و ستم۔ کیا ہندوستان بس اسی لئے آزاد ہوا تھا؟ کیا ہندوستانی صرف اسی لئے کماتے ہیں کہ سیاسی لوگوں کی مان مانی جھیلیں؟ کیا قیامت تک ہم تمام بس روٹی، کپڑااور مکان جیسے بنیادی سہولیات کا رونا روتے رہیں؟ آخر کب ہمارا ملک مکمل ترقی یافتہ ملک کا درجہ حاصل کرے گا؟آخر کب یہ ہندو مسلم کی آگ بجھے گی؟ آخر کب تک؟