کرناٹک کے اضلاع سےکرناٹک کے دیگر اضلاع سے

ہبلی: مجلس اتحاد المسلمین(ایم آئی ایم) کی انٹری سے کانگریس کی پریشانی دگنی

سابق کارپوریٹر نذیر ہونیال ایم آئی ایم میں شامل، کئی دلت لیڈربھی مجلس کا حصہ بننے تیار

ہبلی: 27/دسمبر(ایس ایم) کرناٹک کی سیاست میں کچھ نہ کچھ ناٹک وقتاََ فوقتاََ ضرور دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ بات صحیح ہے کہ سیاست دانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ امیدوار کسی ایک پارٹی سے پروان چڑھتے ہیں اور پھر دوسری پارٹیوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ماضی میں کرناٹک میں ایسے بہت سارے معاملے سامنے آئے ہیں۔ جس کی واضح مثال کانگریس وجنتا دل سیکولر(جے ڈی ایس) کی مخلوط حکومت کا تختہ پلٹنا ہے کہ کس طرح کانگریس کے اراکین اسمبلی نے بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) میں شامل ہوکر مخلوط حکومت کو گرادیا تھا۔اصل بات یہ ہے کہ کرناٹک کی سیاست میں ہمیشہ سے ناٹک ہوتا آیا ہے اور یہ اب بھی جاری ہے۔جہاں تک ضلع دھارواڑ کا معاملہ ہے یہاں کی سیاست میں گرما گرمی شروع ہوچکی ہے۔

یہاں بلدیہ انتخابات قریب ہیں اور سیکولر پارٹیاں اقلیتوں کے ووٹوں کی دعویداری کے سلسلہ میں مختلف اقدامات کرررہے ہیں۔جیسے جیسے بلدیہ انتخابات قریب آرہے ہیں اقلیتوں ( خاص کر مسلمانوں اور دلتوں ) کے ووٹ کے لئے سیاست دانوں اور پارٹیوں میں کھینچا تانی شروع ہوچکی ہے۔کانگریس پارٹی ہمیشہ سے ہی اقلیتوں کے ووٹوں کی دعویدار رہی ہے۔ وہیں جے ڈی ایس ، ایس ڈی پی آئی اور دوسری چھوٹی پارٹیوں سے ووٹ کے کٹنے اور بٹنے کا خطرہ انہیں ہمیشہ سے ہی لگا رہتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ اے آئی ایم آئی ایم (آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین) نے بھی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے جس سے کانگریس کی پریشانی میں دگنا اضافہ ہوسکتا ہے۔فی الوقت ایم آئی ایم کا ایک وفد شمالی کرناٹک کے دورے پر ہے اور یہاں ہبلی پریس کلب میں انہوںنے بلدیہ انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

وفد میں حیدرآباد سے ایم آئی ایم کے کارپوریٹر محمد سلیم کے علاوہ ریاستی سکریٹری لطیف خان پٹھان ودیگر شامل ہیں۔ہبلی میںایم آئی ایم کے دفتر کا ازسر نو افتتاح کیا گیا۔لیکن یہاں کی سیاست میں ہنگامہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ کانگریس کی جانب سے نامزد سابق کارپوریٹر نذیر ہونیا ل کانگریس سے مستعفیٰ ہوکر ایم آئی ایم میں شامل ہوچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مستقبل قریب میں کئی دلت لیڈر بھی ایم آئی ایم کے ساتھ ہاتھ ملانے والے ہیں۔ذرائع کے مطابق یہاں کے ایک مضبوط دلت لیڈر وجئے گنٹرال بھی ایم آئی ایم میں شامل ہونے والے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ایم آئی ایم کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی اس معاملہ میں کیا فیصلہ لیتے ہیں۔شہر ہبلی کی عوام بہت جذباتی ہے اور یہاں اویسی کے چاہنے والوں اور پرستارکافی تعداد میں ہیں۔جہاں اویسی کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور نوجوان اویسی کی پارٹی ایم آئی ایم سے جڑنے کے لئے بے تا ب ہیں وہیں کانگریس اپنا دم توڑتی نظر آرہی ہے۔

جب کانگریس کے ہی لیڈر کانگریس کو خیر آباد کہہ رہے ہیں اورکانگریس انہیں روکنے میں ناکام ہورہی ہے تو پھر یہاں ایم آئی ایم کا مضبوط ہونا اور لوگوںکا اس میں شامل ہونا یقینی بات ہے۔نذیر ہونیال نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کے دوران کانگریس پارٹی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آخر کار کانگریس نے مسلمانوں کا دیاہی کیاہے۔ کانگریس نے ہمیشہ سے مسلمانوں کا استحصال کیا ہے اور وہ مسلم لیڈرشپ کو پوری طرح ختم کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے اویسی اور ایم آئی ایم کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے کہا کہ ایم آئی ایم ہی وہ واحد سیکولر پارٹی ہے جو مسلمانوں اور دلتوں کے حق کے لئے آواز اٹھارہی ہے اور مستقبل میںبھی ان کی آواز اٹھاتی رہے گی۔

انہوں نے کانگریس پارٹی کو ڈوبتی ہوئی کشتی کہا اور مسلمانوں ، دلت و دیگر ہندو طبقوں سے التماس کیا ہے کہ وہ ملک کی سالمیت اور سیکولرزم کی بقاءکے لئے ایم آئی ایم کا ساتھ دیں۔ فسطائی طاقتوں کو روکنے اور ملک میں امن و امان کی بحالی کے لئے ایم آئی ایم کا مضبوط ہونا ناگزیر ہے۔ ایم آئی ایم کے ذریعہ مسلمان اپنی سیاسی شناخت پیداکرسکتے ہیں اور کسی دوسری پارٹی پر بھروسہ کرنے سے اچھا ہے کہ وہ خود ہی آگے بڑھیں اور سیاست میںاپنا وقار پیداکریں۔

بہرحال نذیر ہونیال کے اس فیصلہ سے کانگریس کو ضرور نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایم آئی ایم بلدیہ انتخابات میں اپنے کتنے امیدوار میدان میں اتارے گی۔ دوسری طرف سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا( ایس ڈی پی آئی) کی جانب سے بھی بلدیہ انتخابات میں حصہ لینے کا قوی اندیشہ لگایا جارہا ہے۔ ایسے موقع پرمسلمانوں کا اپنے ووٹوں کی تقسیم کو روکنا بہت اہم ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!