حالاتِ حاضرہسیاسیمضامین

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں مودی کی تقریر۔۔۔

✍: سمیــع اللّٰہ خان

یاد کیجیے جب نریندرمودی اپنی پہلی میعاد مکمل کرکے آنے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آئے تھے اور پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں مودی نے اقلیتوں کو ” حسین جمہوریت ” کے خواب دکھائے تھے پارلیمنٹ میں مودی نے اقلیتی حقوق پر ایسا خوشنما بھاشن دیا کہ ایک سے ایک اہل جبہ و دستار اور انٹلکچوئل مسلم شخصیات لمبے لمبے لیٹرپیڈ کے ذریعے مودی کو اس خطاب پر مبارکباد دے رہے تھے، ہر کوئی اس فراق میں تھا کہ کس طرح اُس کا لیٹرپیڈ راجہ صاحب کی نظروں سے گزر جائے _

آج بھی آپ لوگ دنا دن مودی کے وہ “جملے” چلائیے جن سے بچوں کا دل بہلتا ہو، باقی اصل میں، مودی نے دو ذومعنی جملوں میں آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی والی اپنی تقریر میں مسلمانوں کے کان کھینچ دیے ہیں

۱۔ مسلم خواتین میں تعلیمی اور حقوق کی بیداری کے لیے بیت الخلاء والی اپنی کوششوں کا ذکر کرکے مودی نے ہندوتوا پر عائد اُس الزام کو کاؤنٹر کیا ہے جس میں یہ کہا جاتاہے کہ قدیمی ہندوتوا عہد میں ہندو خواتین کو ٖبدترین صورتحال میں غلام رکھا جاتا تھا، مودی نے اس کا جواب دیا ہیکہ ہندو۔نہیں تم مسلمانوں کی خواتین 2014 تک بیت الخلاء سے بھی محروم تھیں

۲_ مودی نے فرمایا: ” جو دیش کا ہے اُس پر ہر ہر دیش واسی کا حق ہے” اس ایک جملے کے اندر وزیراعظم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو مسلمانوں کی قومی میراث قرار دینے والی ڈیمانڈ کو ریجیکٹ کردیا، مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی / Minority انسٹیٹیوٹ کی پوزیشن دلوانے والی جو پرزور بحث تھی اس کو ناصرف یکسر مسترد کیا بلکہ مودی کا یہ ضابطہ نما جملہ یکساں سوِل کوڈ اور آنے والے وقتوں میں ہندوستان کے اندر مختلف قسم کے اقلیتی حقوق اور رعایتی مائناریٹی انسٹیٹیوٹ کے مستقبل کی طرف اشارہ ہے
یہ دو جملے نہایت خوش کن انداز میں دیے گئے ہیں جن کو ہندوتوا ۔ آر۔ایس۔ایس اور اور اس کے تھنک ٹینک کے طریقہٴ کار کا اندازہ ہے وہ ضرور اس کےذریعے سمجھ جائیں گے کہ آج کی تقریر کے ذریعے مودی نے ایک نمائندہ قومی اقلیتی ادارے میں اپنی آئندہ اقلیتی سیاست کے متعلق عندیہ دیاہے
وزیراعظم نریندرمودی کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تقریر پر علیگ و غیر علیگ مسلمانوں کا لبالب حال دیکھ کر ایسا لگتاہے سچ میں ہندوستان کے مسلمان بہت زیادہ قابلِ رحم حالت میں ہیں، یا تو یہ لوگ واقعی بھولے/بیوقوف ہیں یا پھر ان کے اشرافیہ نے اپنے تشخص کی بقاء اور اس میں ارتقاء کی جگہ غلامی کا تہیہ کرلیاہے اور اشراف کی دیکھادیکھی علمی طبقہ بھی اپنا ذہن بنا چکاہے

سرکاری والے سیکولر مسلمان مودی کے “تاریخی” خطاب سے نکال نکال کر وہ “جملے” پھیلا رہے ہیں جن میں مودی نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعریف کررکھی ہے، اور یہ خوش ہورہے ہیں کہ مودی نے مسلم یونیورسٹی کی تعریفوں کے پل باندھ دیے،وہ اتنے سامنے کی سیاست بھی نہیں سمجھ پارہے کہ مودی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی تقریب میں یونیورسٹی کو گالی دینے نہیں تعریف کرنے ہی آئے تھے
اس طرح سے چیزوں کو صرف اسلیے پھیلایا جاتاہے تاکہ ماحول بنے، اور پھر انٹلکچوئل کانفرنسی طبقے سے ہوتے ہوئے قدآور لوگ اقلیت نواز ڈرامائی “مودی۔نامہ” پر تہنیتی لیٹرپیڈ جاری کرنے لگیں اور پھر حکومتی ایجنسیاں اپنے طورپر انہیں عالمی میڈیا اور عالمی حقوق انسانی فورمز پر کیش کرسکے، کہ دیکھیے نریندرمودی ۔ امیت شاہ آر۔ایس۔ایس اور بھاجپا کےمتعلق جو پروپیگنڈہ مسلم۔مخالف اسلام دشمنی، مسلمانوں پر ستم اور اسلاموفوبیا کا ہے وہ صرف پروپیگنڈہ ہے وگرنہ تو. ہندی مسلمانوں کے نمائندہ فورمز اور انٹلکچوئل شخصیات مودی جی سے خوش ہوتے رہتےہیں

مودی کی پارلیمنٹ والی اقلیت نواز تقریر کے بعد سے آج تک بیشمار مسلمانوں کو ماب لنچنگ میں قتل کیا گیا، کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کا دہانہ کھول دیا گیا، ہندوستان کے مسلمانوں کو NRC اور CAA کے ظالمانہ امتحان میں جھونکا جارہاہے، آئین ہند کا بھگوا کرن جاری ہے، مسلمانوں کے قیمتی اور اعلیٰ دماغ ابھرتے ہوئے نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیاگیا، مقتدر شخصیات پر این۔آئی۔اے اور پولیس ایجنسیوں کے ذریعے ایسے چھاپے مارے جارہےہیں جیسے وہ علمی و ملّی شخصیات نا ہوں، بازار کے غنڈے ہوں، کروڑوں مسلمانوں کے غیرسیاسی مرکز تبلیغی جماعت کی شبیہ پر زہر پھینکا گیا، ان کے دلوں میں بسنے والے اداروں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء و طالبات پر پولیس اور سیکوریٹی فورسز کے ذریعے فائرنگ کا دہانہ کھول دیاگیا، کسی کی آنکھ پھوٹی، کسی کا سر پھٹا، کسی کا ہاتھ ٹوٹا، یہ سب تب ہے جب کہ اُس سیشن کی پارلیمانی تقریر کا آپ نے لپک لپک کر استقبال کیاتھا اور پھر سے آج وہ اپنے پاپ چھپانے اسی مسلم یونیورسٹی کے فورم پر پہنچے ہیں جس پر پولیس کے ذریعے حملہ کروایا تھا اور وہ اسی فورم کو استعمال کرکے اپنی شبیہ بھی صاف کررہےہیں اور آپ؟

آپ کل بھی راجہ صاحب کے خطاب میں مست تھے آج بھی لیٹرپیڈ جلدازجلد پرنٹ کروانے کے لیے جھپٹ رہے ہیں، ہم کل بھی اقلیتی خوشنمائی والے پارلیمانی جملوں پر پرامید نہیں تھے نا آج کے ڈرامے پر یقین رکھتےہیں
آپکی نظر میں ہمارے جیسے لوگ، منفی، جذباتی اور مایوس ہیں کیونکہ آپکو نسل پرستوں سے زیادہ کچھ نہیں جان کی امان پانے کی امیدیں ہیں اور ہمیں تاریخ میں کوئی ایک بھی نظیر نسل پرست ظالمانہ استعمار کی طرف سے انسانیت کے لیے خیرخواہی والی نہیں ملتی_

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!