حالاتِ حاضرہمضامین

آج کل انقلاب بِکتے ہیں…!

✍: سمیــع اللّٰہ خان

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ کے نام، فکرِ سرسیّد سے خیانت پر مبنی استدلال نا کریں

شیخ،واعظ ،وزیر اور شاعر
سب یہاں پر جَناب بِکتے ہیں
دَور تھا اِنقلاب آتے تھے
آج کل انقلاب بِکتے ہیں

آج دیکھا کہ بڑے اخبار میں بڑی بڑی سرخیوں کےساتھ یونیورسٹی سے وابستہ ایک صاحب، سعود عالم قاسمی صاحب نریندرمودی کو پکار پکار کے استقبال کہہ رہےہیں، جیسے کبھی ہوتا تھا کہ ” راجہ صاحب ” کا قافلہ گزرنے والا ہو تو بہت سارے لوگ اس تگ و دو میں لگ جاتے تھے کہ کسی طرح برسر راہ گلاب و پتیاں نچھاور کرتے وقت راجہ صاحب کی نظر ان پر بھی پڑ جائے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور اور رجسٹرار عبدالحمید صاحبان تو خیر آجکل ” بہاروں پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے ” کی عملی تصویر بنے ہیں، اب یونیورسٹی کیمپس کی بہار تو اس کے اسٹوڈنٹس ہوتےہیں جنہیں گھر بھیج کر مودی نامہ کی تقریب ہورہی ہے، ایسے میں وائس چانسلر کی بہار میں نوجوان طلباء و طالبات کا کردار ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ چکے پروفیسر صاحبان کے سر آ پڑا ہے، اس امید پر کہ کچھ حاصل ہوجائے، خیر سے چمنستان سرسیّد کے یہ پروفیسر صاحبان موقع غنیمت جان رہےہیں، اخلاقی موت کےساتھ قومی عزتِ نفسی کو روند کر قطار اندر قطار خوشامد میں مصروف ہیں،

کیا پروفیسر نقوی صاحب، کیا پروفیسر سفیان بیگ، اور کیا نعیمہ و ثمینہ صاحبان اور کیا اے۔آر قدوائی صاحب اور دیگر ماسٹر حضرات، مودی کی آمد کو پالیٹیکس سے بالاتر رکھنے کی اپیل کررہےہیں اور مودی نامہ والی صدی تقریب کو ” سرسیّد ڈے ” کی طرح منانے کی تلقین کہہ رہےہیں، یہی سننا باقی تھا شاید؟ ، کیا دارالعلوم دیوبند سے بھی نسبت رکھنے والے اور یونیورسٹی میں قرآن و سنت اور دینیات اسلام کی مذہبی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے لوگ پروفیسر سعود عالم قاسمی ہوں کہ ریحان اختر قاسمی، یا فضلاء مدارس کے لیے چلنے والے کورس، ” برج کورس ” کے نومنتخب ڈائریکٹر ” نسیم احمد ” لہک لہک کر مودی کا استقبال کررہےہیں، اور ایسے ہی اسٹاف و ٹیچرز ایسوسی ایشن والے سب کے سب مودی کے استقبال میں وائس چانسلر اور رجسٹرار کے آگے پیچھے اس طرح لگے ہوئے ہیں اور ایسی ایسی ترکیبوں سے اس تقریب میں راجہ صاحب کے سامنے خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کررہےہیں کہ: *امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کویہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں

آجکل مجھے وہ عصری دانشوران اور پروفیسر و ماسٹر صاحبان شدت سے یاد آرہے ہیں جو دارالعلوم دیوبند کی صدی تقریب میں اُس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی شرکت کی وجہ سے مولویوں اور مدارس کے طبقے کو حکومت نوازی اور بے ضمیری کی لعنت ملامت میں کبھی پیچھے نہیں رہے، یقینًا دارالعلوم کی صدی تقریب میں اندرا گاندھی کا وجود مکروہ اور غلط ہی تھا لیکن علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی صدی تقریب میں نریندرمودی کو دعوت دینے پر منہ میں دہی کیوں جم گیاہے؟ ہم تو کہتےہیں کیا مولوی کیا مسٹر کیا پروفیسر کیا مفتی، امیدِ حور پر سب فریفتہ ہیں، معیار مختلف ہوسکتےہیں البتہ مفادات کے لیے آجکل سبھی بِکتے ہیں، اور ہم جیسے عام آدمی کے حصے میں استحصال آتاہے_

ملاحظہ: بے ضَمیروں کی راج نِیتی میںجاہ و منصب خطاب بِکتے ہیںشیخ،واعظ ،وزیر اور شاعرسب یہاں پر جَناب بِکتے ہیںدَور تھا اِنقلاب آتے تھےآج کل انقلاب بِکتے ہیں جب سے ہندوستان کے ظالم وزیراعظم نریندرمودی کو وائس چانسلر صاحب نے یونیورسٹی کی صدی تقریب میں مہمان خصوصی بنایاہے تب سے علیگ برادری کے کچھ لوگ جنہیں قوم و قومیت اسی طرح سرسیّد اور فکرِ سرسیّد سے پیٹ پرستی کے سوا کوئی تعلق نہیں وہ یونیورسٹی پلیٹ فارم سے مودی کی خوشنودی حاصل کرنے والی کوششوں کے لیے سرسیّد اور ان کے حکومتی روابط سے یکطرفہ استدلال کرتے ہوئے سرسیّد سے خیانت بھی کررہےہیں *یونیورسٹی کے اساتذہ علیگ برادری اور طلباء کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سرسیّد نے اپنے وقت میں حکومتِ وقت سے کبھی بھی چاپلوسانہ تعلقات قایم نہیں کیے بلکہ انہوں نے سب سے پہلے اُس وقت کی حکومت کو یہ بتلایا کہ ان کی اپنی قوم کن وجوہات کے سبب استعماری حکمرانوں سے مشتعل اور غصے میں ہے، سرسیّد نے اپنی کمیونٹی پر انگریزی حکومت کے مظالم کی تاویل کبھی نہیں کی بلکہ وہ استعماری حکومت اور قوم کے درمیان برج بنے اور اس کا مقدمہ انہوں نے ” اسبابِ بغاوت ہند ” کے نام سے مرتب کیا،

انہوں نے اپنی قوم کی نفسیاتی اور ان کے غصے کی بھی حکومت کے ایوان میں نمائندگی کی، یہ مقدمہ قایم کرنے کےبعد ہی وہ حکومتوں کے ساتھ آگے بڑھے، انہوں نے پہلے بغاوت کے اسباب کو حکومت کے سامنے بیان کیا ناکہ خاموشي سے استقبال کرکے سودا کرلیا، اور آج قوم کی مظلومیت کا مقدمہ ان کی ضروریات اور مسائل کا مقدمہ سب کچھ پسِ پشت ڈالکر، مودی، امیت شاہ آر۔ایس۔ایس اور بھاجپا سے قوم کے غصے کی وجہ کو نظرانداز کر درباری خادمین کی طرح مودی کا استقبال کیا جارہاہے اور اس کے لیے سرسیّد سے استدلال بھی کیا جارہاہے، بے غیرتی، خیانت اور بے شرمی کی انتہاء ہے انتہاء، آپ لوگ یونیورسٹی میں رہ کر بھی سرسیّد کو نہیں جان سکے یا سرسیّد کو فروخت کررہےہیں لیکن یہ مت سمجھیے کہ پوری دنیا جاہل یا بے ضمیر ہے

وائس چانسلر اور رجسٹرار صاحبان اے ایم یو کی تاریخ میں طلباء و طالبات پر پولیس اور فورس کے ذریعے حملہ کرواکے خود کو ظالم حکومتوں کے سامنے پوری طرح فروخت کرچکے ہیں اور اب اپنا انعام پانے کے لیے صدی تقریب کو بھی نیلام کردیا، لیکن یہ جتنے اساتذہ پروفیسر اور علیگ انجمنیں اسوقت موقع پاکر سجدہ کررہی ہیں وہ یاد رکھیں کہ تاریخ میں انہیں یاد کیاجائے گا اور بدترین موقع پرستی کے ليے یاد کیاجائے گا، ان کے اسٹوڈنٹس کی نگاہوں میں ان کی اخلاقی موت واقع ہورہی ہے، دیکھیے اقبال آپ سے کیا کہتےہیں: جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہونہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہوبجلیاں جس میں ہوں آسُودہ، وہ خرمن تم ہوبیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہوہو نِکو نام جو قبروں کی تجارت کرکےکیا نہ بیچو گے جو مِل جائیں صنَم پتھّر کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!