شخصیاتمضامین

بسواکلیان: اسداللہ خان ذکی ایک ایسا انجنئیر، جس نے۔۔۔

ڈاکٹر ارشاد خان

ایک تھے اسد اللہ خان غالب جو اُردو زبان و ادب پر پہلے بھی غالب تھے اور آج بھی ہے۔ بسواکلیان کرناٹک کی معروف شخصیت جن کی جہد مسلسل کی بازگشت ریاستِ کرناٹک سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی ہے۔ اسد اُللہ خان ذکی وہ عظیم شخصیت ہیں جنھوں نے تعلیم کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ دور رس نگاہیں‘سخن دلنواز‘ رفعت پرواز، متحرک جو کبھی اکیلے نہیں بیٹھتے‘ ان کے نزیک جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کرجھپٹنا لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے۔

اسد اُللہ خان نے ایک اور کارہائے نمایاں انجام دیا ہے جو کہ انجینئرنگ کے طلبہ کے لئے شجر سایہ دار ہے۔ اسد اُللہ خان صاحب جو بذاتِ خود انجینئر ہیں مگر انھوں نے انجینئرنگ کے شعبہ سے علاحدہ تعلیمی میدان کو چُنا اور بسواکلیان کرناٹک میں پی۔یو اور ڈگری کالج کی بنیاد ڈالی۔ ان کی مساعی جمیلہ کا ثمرہ ہے کہ طلبہ کی کثیر تعداد زیورِ تعلیم سے آراستہ ہورہی ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔

یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اسد اللہ خان ذکی جن کا تعلق ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) سے رہا ہے، انکی تربیت میں اس تنظیم کا بہت بڑا رول رہا اور انہیں نئی فکر اور مختلف سونچ اور شعوری طور پر پختہ بنانے میں تنظیم ایس آئی او انکی رہنمائی کرتی رہی، تنظیم سے شعوری طور وابستہ رہے اور اس کی مختلف ذمہ داریوں کو انہوں نے بخوبی ادا بھی کیا۔

تعلیمی شعبہ سے جڑے رہنے کے باوجود مُختلف رفاہِ عام کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ میں نے انھیں جب بھی دیکھا کسی نہ کسی کام میں منہمک پایا جو کہ جنون کی حد تک بڑھا ہوا ہے۔ نہ انھیں سرکا ہوش رہتا ہے نہ پیر کا، کسی کی یاد دہانی پر انھیں یاد آتا کہ میں نے آج ناشتہ نہیں کیا۔۔۔ یا ظہرانہ نہیں کیا۔ اتنی فعال شخصیت قوم و ملت کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ بس ان کا مشن ہے۔
صبح چلنا، شام چلنا
چلنا چلنا مدام چلنا

اس سیمابی شخصیت نے انجینئرنگ کے بعد B.Ed کیا مگر گورنمنٹ کے منعقدہ TET امتحان میں شرکت سے ان کے ساتھ دیگر ہونہار طلبہ کو روک دیا گیا جو کہ سراسر ناانصافی ہی نہیں بلکہ حق تلفی تھی۔

وجہ؟۔۔۔ کیا انجینئرنگ کے طلبہ بحیثیت مدرس خدمات انجام نہیں دے سکتے؟ کیا انجینئر ایک کامیاب معلم نہیں بن سکتا؟۔ کیا۔۔۔صرف B.Sc‘بی.اے‘ کے طلبہ ہی ٹیچر بن سکتے ہیں؟

اس نا برابری نے انھیں بے چین کردیا۔ اس عدم مساوات کے حل کے لئے انھیں ایک ہی راستہ نظر آیا۔۔۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا۔۔۔۔ جہاں انصاف مل سکتا ہے۔۔۔ ان کی طویل قانونی لڑائی کے بعد جیت آخر حق کی ہوئی۔۔۔۔ کورٹ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے میں کہا کہ انجینئرنگ کے بعد B.Ed کرنے والے طلبہ TET امتحان میں حصہ لے سکتے ہیں، اس لیگل جنگ میں حکومت کرناٹک بھی پارٹی رہی۔ اسد اللہ خان نے عدالت کے اس فیصلہ کی حکومت سے کامیاب نمائندگی کی۔
حکومت کرناٹک نے حال ہی میں یہ اعلان کیا کہ اب انجینئرس گورنمنٹ اسکولوں میں چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک ریاضی اور سائنس پڑھاسکتے ہیں۔
بے شک اسد اُللہ خان صاحب نے ثابت کردیا کہ
میں کہاں رُکتا ہو عرش و فرش کی آواز سے
مجھ کو جا نا ہے بہت اونچا حد پرواز سے

یہ تاریخی کامیابی نہ صرف اسد صاحب کی ہے بلکہ عدلیہ پر اعتماد رکھنے والوں کی کامیابی ہے۔ ان متحرک اور فعال شخصیات کی کامیابی ہے جو ستائش کی تمنا کرتے ہیں نہ ہی صلے کی پروا‘ بلکہ حق کی آواز بلند کرنے کیلئے دامے، درمے، قدمے‘ سخنے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ان بے بس عوام کی کامیابی ہے جو منزل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اس سنگِ میل کو عبور کرنے پر میں انھیں مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے کہ،
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!