لوجہاد اور مسلمان
تحریر: توصیف القاسمی سہارنپور
ھمانشی دھون اپنے مضمون 8/نومبر 2020 کے ٹائمز آف انڈیا میں لکھتی ہیں کہ
“The term ‘love jihad’ itself came into popular discourse in 2009 after an 18-year-old eloped with her Muslim boyfriend in Karnataka,”
یعنی لوجہاد کی اصطلاح 2009 میں عوامی طور پر سنائی دی جب کرناٹک میں ایک 18/سالہ لڑکی اپنے مسلم بوائے فرینڈ کے ساتھ فرار ہوگئی تھی ۔
اپنے اسی مضمون میں وہ لکھتی ہیں کہ
“that’s been spreading wider of late. The idea that Muslim men systematically prey on docile Hindu women has been used since the 1920s by right-wing organisations, according to Delhi University historian Charu Gupta”
دہلی یونیورسٹی کی مشہور تاریخ دان چارو گپتا یہ بات انتہائی اعتماد سے کہتی ہیں کہ یہ جھوٹی خبریں بڑی پیمانے پر پھیلائی جا رہی ہیں ، یہ خیال کہ مسلمان مرد ، ہندو عورتوں کو منظم طور پر شکار بناتے ہیں ، دائیں بازو کی تنظیمیں اس پروپیگنڈے کا استعمال 1920 سے کرتی آئی ہیں ۔ ( مذکورہ مضمون محمد صغیر حسین کا ترجمہ شدہ 21 نومبر 2020 کے روزنامے راشٹریہ سہارا میں بھی چھپ چکا )
قانون سازی کا فنڈا : بی جے پی لوجہاد جیسی ٹرم کو بنیاد بنا کر ”تبدیلی مذہب“ پر روک لگانا چاہتی ہے اس مسئلہ پر قانون سازی کا ہوا کھڑا کرنا ، عالمی سطح پر مسلمہ انسانی حقوق کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ہوگی جس میں صاف لکھا ہے کہ
Everyone
has the right to freedom of thought, conscience and religion; this right includes freedom to change his religion or belief and freedom, either alone or in community with others and in public or private, to manifest his religion or belief, in worship, teaching practice and observance.
( Human rights article 9 )
یعنی ہر ایک کو آزائ فکر ، ضمیر اور مذہب کا حق حاصل ہے ، یہ حق ”تبدیلی مذہب و ایمان کی آزادی“ کو بھی شامل ہے ………
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے اتوار کو اس مسئلے پر بولتے ہوئے بی جے پی (BJP) پر الزامات عائد کئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’یہ اسپیشل میرج ایکٹ کے اور آرٹیکل 14 اور 21 کی خلاف ورزی ہوگی۔ انہیں آئین کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ نفرت کی ایسی تشہیر کام نہیں کرے گی۔ بی جے پی بے روزگاری کا شکار ہوئے نوجوانوں کو خوفزدہ کرنے کا ڈرامہ کر رہی ہے۔ (بحوالہ ANI)
متشدد ہندو ٹولہ کے سامنے قانون سازی کے لئے انٹرنیشنل سطح سے لے کر قومی سطح تک بہت سی نظریاتی و قانونی رکاوٹیں ہیں ، لیکن ملک کے اقتدار پر براجمان پارٹی ان تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے ”من چاہی“ کر رہی ہے ، انجام چاہیے جو ہو ۔ جیسا کہ گزشتہ کئی معاملات میں دیکھا جا چکا ۔ ہم کو جاننا چاہیے کہ ”من چاہا“ قانون سیکولر ڈھانچے میں فٹ بیٹھتا ہو یا نہیں ، مگر ”ہندوتوا“ کے ڈھانچے میں وہ ضرور فٹ بیٹھتا ہے ۔ اور یہ ہی حکمران پارٹی کی آئیڈیالوجی ہے ۔
لو جہاد (عشقیہ نکاح) سے مسلمان جس قدر ناواقف ہیں متشدد ہندو اسی قدر اس اصطلاح سے واقف ہیں ، لو جہاد کی دو تعبیریں ہوسکتی ہیں اور دونوں ہی تعبیریں اسلام میں حرام و ناجائز ہیں ۔
مسلمانوں کی اور ان کے تعلیم یافتہ حضرات کی ناکامی یہ ہے کہ اسلام میں غیر محرم مرد و عورت کے اختلاط سے متعلق احکامات و تصورات کے صحیح معنیٰ و مفہوم سے عام غیر مسلموں کو مطلع نہ کر سکے ، بالخصوص ہندی وغیرہ زبانوں میں تو اس موضوع پر بالکل بھی کام نہیں ہوا ، نتیجتاً متشدد ہندوؤں کو اپنا بے بنیاد پروپیگنڈا Baseless propeganda پھیلانے کا بھرپور موقع اور امیدوں سے بڑھ کر کامیابی حاصل ہوتی رہی ۔ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ضروری ہے کہ ”لو جہاد“ سے متعلق امت مسلمہ اپنے موقف کو ہندی انگلش اور دیگر علاقائی زبان میں مضبوط طریقہ سے پیش کرے تعلیم یافتہ نوجوان ویڈیوز بنائیں علماء کرام مرد و عورت سے متعلق اسلامی تعلیمات و ہدایات کو عام کریں اور ہر زبان میں کریں ۔
لوجہادکے دو مطلب : ایک یہ کہ کسی مذہبی شخصیت یا گروہ کے اشارے پر افراد امت کسی غیر مسلم لڑکیوں سے محبت کر کے نکاح کریں اور نکاح چونکہ مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اس لیے اس خاتون کو مذہب تبدیل کرنے کے لئے کہیں ، بصورت دیگر بے وفائی سے لڑکی کو ڈرائیں ۔
دوسرا مطلب : کسی بھی معتبر عالم دین نے غیر مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے کو جہاد کی طرح مقدس و محترم اور قابل ثواب چیز قرار دیا ہو ۔
ہم لوگ جانتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ ”لوجہاد“ کی مذکورہ دونوں ہی تعبیروں کا تعلق اسلام اور مسلمانوں میں خواہ کتنا ہی اجنبی کیوں نہ ہو ، لیکن ہندوؤں میں یہی دونوں مطلب بہت بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا دیے گئے ہیں اور جنونی ہندو ٹولہ جب بھی ”ہندو خطرے میں ہیں“ کا نعرہ بلند کرتا ہے تو اس کی تفصیل میں بطور اسباب کے لو جہاد ، اسلام ، اور پھر مسلمانوں سے نفرت کا اظہار ضرور کرتا ہے ۔ مشہور اداکار راج کمار کی کسی فلم کا ڈائیلاگ ہے کہ
سچائی کا منہ کالا
جھوٹ کا بول بالا
مسلمانوں کی ناکامی یہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں ٹھوس اسلامی تعلیمات و احکامات اور تصورات نہ پھیلا سکے وہ نہیں بتاسکے کہ قبول اسلام ، کسی بھی لالچ و مفاد اور دباؤ کے نتیجے میں ہو تو وہ اللہ کے نزدیک ناقابل قبول ہے اور یہ کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کبھی بھی علماء امت نے لالچ و دباؤ کے ذریعے قبول اسلام کی کسی بھی مہم کی حمایت نہیں کی ، حتی کہ اسلام کے عین حالتِ اقتدار کے زمانے میں بھی نہیں ۔ قبول اسلام کی ایک ہی شرط ہے کہ آپ ارادتاً بغیر کسی دباؤ کے ، سوچ سمجھ کر اسلام قبول کریں وہ بھی صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ۔ قرآن کا کتنا صاف اعلان ہے ” لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ “ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔
یہ بھی ہم مسلمانوں ہی کی ناکامی ہے کہ ہم مفروضہ ”لو جہاد“ کے مقابلے میں قرآن کی آیت ولا تنکحوا المشرکات کا معنی و مفہوم عام نہ کر سکے جہاں غیر مسلم عورتوں سے نکاح کو صاف منع کیا گیا ہے ، یہ بھی ہماری ہی ناکامی ہے کہ ہم اسلام کی انتہائی پاکیزہ وصاف ستھری تعلیم کا اعلان عام نہ کرسکے جو کہ در حقیقت بہت مضبوط طور پر لو جہاد کے پروپیگنڈے کا بہترین اخلاقی جواب ہوسکتا تھا ، وہ یہ کہ اللہ تعالی نے مومن مرد و عورت کو نگاہ نیچی رکھنے (غض بصر) کا حکم دیا ہے ، اسلامی تصورات کے مطابق اگر کسی مسلمان کی نگاہ اجنبی عورت پر پڑتی ہے ، تو نگاہ اول تو معاف ہے لیکن نگاہ ثانی حرام ہے وہ عورت خواہ کوئی ہو ، مسلم ہو یا غیر مسلم ، بس ماں بہن بیوی بیٹی کے علاوہ ہونی چاہئے ۔ وہ چیز جس کو آج کی مہذب دنیا میں عشق و محبت Love affair کہا جاتا ہے اس کا سرے سے اسلام میں کوئی تصور ہی نہیں ، بغرض جہاد بھی یہ چیز یعنی غیر محرم اجنبی عورتوں سے عشق و محبت حرام ہی ہے ۔