ارنب کو ضمانت اور صدیق کو جیل!
2صحافی 1سپریم کورٹ اور 2فیصلے
✍?: سمیع اللہ خان
سپریم کورٹ آف انڈیا میں گزشتہ دنوں دو صحافیوں کے مقدمات پر شنوائی ہوئی، جس میں سپریم کورٹ نے دو الگ الگ فیصلے جاری کیے جن کے ذریعے ایسا لگتاہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان خود عدالتِ عظمیٰ کی توہین کا تاثر دے رہےہیں
پہلا مقدمہ ارنب گوسوامی کا تھا ارنب گوسوامی ایک الکٹرانک نیوز چینل ری پبلک کے اینکر ہیں انہیں مہاراشٹر پولیس نے خودکشی کے ایک مجرمانہ معاملے میں گرفتار کیا تھا، انہیں سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ سے ضمانت نہیں ملی کیونکہ ان کی گرفتاری ایک مجرمانہ معاملے کے تحت ہوئی تھی ناکہ کسی صحافتی سرگرمی کی بنیاد پر، گرچہ ارنب گوسوامی اور ان کے چینل کی صحافت درحقیقت ایک پروپیگنڈہ مشین ہے، وہ صحافت کے نام پر سرکاری چاپلوسی کا لاؤڈ اسپیکر بنے ہوئے ہیں، اور ملک میں نفرت و زہر پھیلانے کا کام کرتےہیں، چونکہ وہ بھارتی گودی میڈیا کی صحافتی بھیڑ میں گھسے ہوئے ہیں اسلیے انہیں صحافی مجبوراً لکھا جارہاہے وگرنہ ان کا غیررسمی نام ” سَنگھی سرکاری لاؤڈ اسپیکر ” ہی ہے
ایسے نفرت انگیز اور بدتمیز انسان کو خودکشی کے ایک مجرمانہ معاملے میں گرفتار کیا جاتاہے اور ریاستی ہائیکورٹ تک اسے ضمانت نہیں دیتی، نیز مہاراشٹر اسمبلی کی طرف سے ارنب کو نوٹس کے معاملے میں سپریم کورٹ ارنب کے لیے آئین کی دفعہ ۳۲ کا حوالہ دیتی ہے اور گرفتاری والے معاملے میں اسے شخصی آزادی Personal Liberty کے نام پر ضمانت دیتے ہوئے رہا کرنے کا فیصلہ سناتی ہے
دوسرا مقدمہ ہے کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کا، جوکہ درحقیقت Practical Journalist عملی صحافی ہیں، انہیں صحافتی سرگرمی کے دوران ہی گرفتار بھی کیاگیاہے، وہ ۵ اکتوبر کو اجتماعی عصمت دری کے معاملے میں رپورٹنگ کرنے جب ہاتھرس جا رہے تھے تب یوگی آدتیہ ناتھ کی فاشسٹ اترپردیش سرکار نے انہیں گرفتار کرلیا اور ان پر UAPA جیسی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرکے انہیں جیل میں ڈال دیا، صدیق ۵ اکتوبر سے جیل میں بند ہیں مگر انہیں آئین کی دفعہ 32 کا فائدہ بھی نہیں ملا، اور 16 نومبر کو سپریم کورٹ نے ان کی کے معاملے پر سماعت کرتےہوئے انہیں ضمانت دینے سے بھی انکار کردیا صدیق کے مقدمے کو ہائیکورٹ سے حل کرانے کی نصیحت بھی دی اور خانہ پری کرنے کے لیے ایک نوٹس اترپردیش کی فاشسٹ سرکار کو بھیجا ہے۔
سپریم کورٹ میں صدیق کی طرف سے معروف سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے اچھی پیروی کی صدیق کپن کی گرفتاری پر ریاست کیرالہ کی صحافتی تنظیم Union of Working Journalist قانونی لڑائی لڑ رہی ہے، ساتھ ہی انہوں نے اسے صحافتی آزادی پر حملہ بھی قرار دیاہے، صدیق کی گرفتاری کو اکثریتی میڈیا کمیونٹی آزادانہ صحافت پر سرکاری ظلم مانتی ہے، لیکن ۱ مہینہ گزر جانے کے باوجود یہ صحافی سپریم کورٹ تک سے انصاف حاصل کرنے سے محروم ہے
انصاف کا یہ Selective معیار کیوں ہے؟
ارنب گوسوامی جیسے سرکاری بھونپو کی گرفتاری کو وزیرداخلہ امیت شاہ نے صحافت پر حملہ اور ایمرجنسی کے مظالم سے تعبیر کیا تھا، مگر امیت شاہ صاحب سمیت تمام ہندوستانی وزیروں اور سرکاری نوکروں کی زبانیں صدیق کی صحافتی آزادی پر حملے کے خلاف گنگ ہے
وہ تمام سرکاری وزراء جو پروفیسر آنند تیلتمبڑے، گوتم نولکھا، شرجیل امام، خالد سیفی، ورورا راؤ، سٹین سوامی، اکھل گوگوئی، نتاشا، دیوانگنا، عشرت جہاں، آصف اقبال، گل فشاں، سدھا بھاردواج جیسے انصاف پسند، نظریاتی شخصیات اور حقوق انسانیت کے لیے محنت کرنے والوں کی گرفتاری پر خوشی مناتے رہے وہ ارنب کی گرفتاری پر حق آزادی کی دہائی دے رہےتھے
وہ لوگ جو ہندوستان میں اپوزیشن پارٹیوں کی سرگرمیوں اور غلط سرکاری پالیسیوں سمیت سرکاری ظلم و زیادتیوں کے خلاف عوامی مظاہروں کو ملک سے غداری، دیش دروہ کی سرگرمیوں سے تعبیر کرتے نہیں تھکتے وہی بھاجپائی لوگ ارنب کی گرفتاری پر سڑکوں میں احتجاج کی کوشش کررہے تھے، لیکن ان کے احتجاج بھی آندولن کے انقلابی آہنگ اور صدائے احتجاج کی فطری اسپرٹ سے محروم بڑے ہی پھیکے پھیکے فلاپ شو تھے
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بوبڈے صاحب کو بھی صدیق کی شخصی آزادی پر حملہ نظر نہیں آیا، وہی سپریم کورٹ جسے ابھی چند روز پہلے تک ارنب گوسوامی کی گرفتاری سے آزادی کی توہین نظر آرہی تھی اسی سپریم کورٹ نے صدیق کی حقِ آزادی پر آنکھیں موند لی ہیں، سپریم صاحب ! آپ کے یہ مختلف معیار آپکا وقر طئے کر رہے ہیں ملک کے نوجوان انہیں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ریٹائرڈ ہونے والے جج کو پارلیمنٹ کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے دیکھ رہےہیں، ہم یقینًا سپریم کورٹ سے جاری فیصلوں کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ آئینی حق کے تحت ان سے اختلاف کرتےہیں کیونکہ ہمیں احترام کا کلچر بچائے رکھناہے، سپریم صاحب آپ کو غور کرنا چاہیے کہ کنال کامرا جیسے اعلیٰ تعلیمیافتہ فکری جوان آپ سے کیوں خفا ہیں؟ ہم تو جس دن دیپک مشرا صاحب چیف جسٹس بن آئےتھے اسی دن سے افسوسناک ہورہےہیں۔
ڈیئر محترم سپریم کورٹ صاحب ! پرشانت بھوشن اور راجیو دھون آپکی عدالت میں سچ بولتے ہیں اور ان جیسے دیگر سینئر وکلاء، توجہ دیجیے کہ اب ملک میں قانون کے طلباء ججمنٹ سے زیادہ ان وکیلوں کی دلیلوں کو پڑھتے ہیں، مت بھولیے کہ وہ فیصلے جو انصاف کے ایوانوں سے ملاوٹ کے ساتھ باہر آتےہیں انہیں وقتی طورپر طاقت کے زور پر تو نافذ کیا جاسکتا ہے وہ تاریخ کی عدالت میں منصفانہ درج ہوتےہیں، آج آپ سپریم کورٹ کے جن عظیم مناصب پر بیٹھے ہیں کل پڑھی جانے والی تاریخ میں آپ کا ریکارڈ زیربحث آئےگا، کل کی تعلیم گاہوں میں قانون کی کتابوں میں آپکے فیصلوں پر آنے والی نسلیں تجزیہ اور تکرار کریں گی۔
کل وکالت اور ججز کی پڑھائی کرنے والے طلباء و طالبات آپ کی ان ریکارڈ فائلوں کو پڑھیں گے یہ آپ بھی جانتے ہوں گے شاید، جیسے عدالت و انصاف کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس کے صرف اصول ہوتےہیں ویسے ہی “تاریخ” کا کوئی دھرم نہیں ہوتا، فاشسٹ طاقت کے سہارے لکھی جانے والی بے اصولیاں غیرفطری ہوتی ہیں انہیں ان کی اصل جگہ تاریخ میں مل جاتی ہے، گاندھی کے قاتل گوڈسے کی عدالتی کارروائی میں سَنگھ کے سربراہ “ساورکر ” ناتھورام گوڈسے کی پشت پر تھے اور چند سالوں پہلے طاقتور امریکی صدر اوباما نیلسن منڈیلا کے جنازے میں قطار باندھے کھڑے تھے امید ہیکہ یہ حقائق آپکی نظروں میں ہوں گے، تاریخ کی عدالت میں بھاجپائی استعمار کی عدالتی تاریخ کا عنوان ہوگا
” دو صحافی ایک سپریم کورٹ دو فیصلے “
ہم لکھتے ہیں کیونکہ کیفی اعظمی کہتےہیں :
کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے
اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے