سیاسیمضامین

آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا

مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی

مہاگٹھ بندھن دس یا تیرہ سیٹوں سے پیچھے رہ گئی ، تیرہ سیٹیں اور مل جاتیں تو مہاگٹھ بندھن کی اپنے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بن جاتی, اور اگر دس سیٹیں اور مل جاتیں تو مجلس اتحاد المسلمین کی حمایت سے مہاگٹھ بندھن کی حکومت بن سکتی تھی.

آئیے دیکھتے ہیں مہاگٹھ بندھن کی ہار کے اسباب کیا ہیں,

1- کانگریس تیس سالوں سے بہار کی حکومت سے باہر ہے ، اس کو دوہزار دس میں صرف چار سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ،اور ان میں بھی کشن گنج سے کامیاب ہونے والے تین مسلمان تھے ، دوہزار پندرہ کے مہاگٹھ بندھن میں کانگریس کو امیدواری کے لیے اکتالیس سیٹیں ملی تھیں ،اور ان میں سے ستائیس سیٹوں پر وہ کامیاب ہوئی تھی ، اس کامیابی نے کانگریس کے نخوت و تکبر کو بڑھادیا، اور وہ حالیہ الیکشن میں اپنی طاقت سے زیادہ سیٹوں کا مطالبہ کرنے لگی ، اسے صرف پچاس سیٹیں ملنی چاہیے تھیں، وہ پچاس سیٹوں سے زیادہ کی حقدار نہیں تھی.

2- بی جے پی کو چھوڑکر آئے راشٹریہ لوک سمتا پارٹی کے اوپیندر کشواہا پینتالیس سیٹوں ، اور وکاس شیل انسان پارٹی کے مکیش ساہنی پچیس سیٹوں کا مطالبہ کر رہے تھے ، جب ان دونوں کو راشٹریہ جنتادل نے زیادہ توجہ نہیں دی تو دونوں مہاگٹھ بندھن سے نکل گئے ، مکیش ساہنی تو بی جے پی کے اتحادی بن گئے اور بی جے پی نے انہیں اپنے کوٹے سے گیارہ سیٹیں دیں ،جن میں سے پانچ سیٹوں پر ان کی پارٹی کا میاب ہوئی ہے ، اور اوپیندر کشواہا اس اتحاد میں شامل ہوئے جس کے بانیوں میں اسدالدین اویسی صاحب بھی ہیں ، اس اتحاد میں اویسی صاحب کو صرف بیس سیٹیں ملی تھیں ، جب کہ اوپیندر کشواہا کو ایکسو بیس ، اور مایاوتی کو نوے سیٹیں ملی تھیں ، بقیہ تیرہ سیٹوں پر دو اور غیر مشہور چھوٹی پارٹیاں تھیں.

3- تلنگانہ میں بڑی دانشمندی اور عقلمندی سے سیاست کرنے والے بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب نے کئی غلطیاں کیں.

مجلس انیس سو پینتیس میں قائم ہوئی تھی اور اس کا مقصد مسلمانوں میں اتحاد قائم کرنا اور قوم کی خدمت کرنا تھا،
انیس سو باسٹھ سے مجلس انتخابی سیاست میں حصہ لے رہی ہے،
اسد الدین اویسی صاحب کے والد سلطان صلاح الدین اویسی انیس سو باسٹھ میں پہلی بار حیدرآباد کارپوریشن کے کونسلر منتخب ہوئے تھے ، انیس سو چونسٹھ سے انیس سو چوراسی تک وہ آندھراپردیش اسمبلی کے ممبر تھے ، انیس سو چوراسی سے دوہزار چار تک حیدرآباد سے ممبر لوک سبھا تھے ، دوہزار چار سے اسدالدین اویسی صاحب حیدرآباد سے لوک سبھا ممبر ہیں ،

اویسی صاحب تلنگانہ اور آندھراپردیش میں حیدرآباد سے باہر کہیں بھی اسمبلی کے لیے انتخاب نہیں لڑتے ، اور حیدرآباد میں بھی اسمبلی کی تمام سولہ سیٹوں پر انتخاب نہیں لڑتے ، بلکہ صرف اور صرف آٹھ سیٹوں پر انتخاب لڑتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ سات سیٹوں پر کامیاب ہوتے ہیں ، حیدرآباد شہر کے پرانے محلوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، سہ رخی اور چہار رخی انتخابات میں چار تا سات سیٹوں پر مجلس کامیاب ہوجاتی ہے ،

مگر بہار میں مجلس کے کارکنان نے ایسا سماں باندھا کہ بہار میں مسلمان سترہ فیصد نہیں بلکہ چالیس اور پینتالیس فیصد ہیں ، یا ساٹھ اور ستر فیصد ہیں ، وہ یہ بھی بھول گئے کہ بہار ایک حساس صوبہ ہے ، یہ بھی بھول گئے کہ بہار میں 1757 سے مسلم حکومت نہیں ہے ، جب کہ حیدرآباد میں 1948 تک مسلم حکومت تھی ، اور اس مسلم حکومت کے جود و سخا سے استفادہ کرنے والے لاکھوں ہندو آج بھی زندہ ہیں.

مجلس کے اسدالدین اویسی صاحب اور اختر الایمان صاحب کو چاہیے تھا کہ جس طرح سے حیدرآباد میں صرف آٹھ سیٹوں پر الیکشن لڑتے ہیں ویسے ہی مجلس کو صرف سیمانچل کی مسلم اکثریت والی اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہیے تھا ،
اور جس طرح سے مجلس حیدرآباد میں کسی سے اتحاد نہیں کرتی ویسے ہی بہار میں بھی کسی سے بھی اتحاد نہیں کرنا چاہیے تھا ،
مایاوتی اور کشواہا سے اتحاد کر کے تو مجلس نے بہت بڑی غلطی کی ہے ،
مجلس کشن گنج پارلیمانی حلقے کی چار سیٹوں پر کامیاب ہوئی ہے.
بہادر گنج سے مجلس کامیاب ہوئی ہے ، وہاں سے چالیس سالہ توصیف عالم گذشتہ چار الیکشن ہورہے تھے ، پہلا الیکشن بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور تین انتخابات سے کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے ، امور سے اختر الایمان صاحب نے پرانے کا نگریسی اور بد زبان لیڈر عبدالجلیل مستان کو ہرایا ہے ، اختر الایمان ایسے لیڈر ہیں کہ جو کشن گنج علاقے سے جس پارٹی سے بھی کھڑے ہوجائیں کامیاب ہوجائیں گے.

ارریہ کی جوکی ہاٹ سیٹ پر مجلس کے شہنوازعالم کامیاب ہوئے ہیں ، شہنوازعالم صاحب کے والد تسلیم الدین صاحب سیمانچل کے سب سے بڑے لیڈر تھے ، اور راشٹریہ جنتادل کے لیڈر تھے ، اور دوہزار چودہ میں ارریہ سے منتخب ہوئے تھے ، ان کے بڑے بیٹے سرفراز عالم دوہزار پندرہ میں جوکی ہاٹ سے منتخب ہوئے تھے ، تسلیم الدین صاحب کی وفات کے بعد 2018 میں سرفراز عالم ارریہ سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور ان کے چھوٹے بھائی شہنوازعالم ضمنی الیکشن میں جوکی ہاٹ سے ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ،
2019 میں سرفراز عالم ہار گئے ، اور آرجے ڈی لیڈر تیجیسوی یادو نے سرفراز عالم کو جوکی ہاٹ سے ٹکٹ دے دیا ،تب شہنواز عالم آخر وقتوں میں مجلس میں شامل ہوگئے ،ان کو مجلس کا ٹکٹ ملا ، دونوں بھائی آمنے سامنے تھے ،اور جوکی ہاٹ کی عوام نے چھوٹے بھائی پر اعتماد کیا.

میں نے اپنے مضامین میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مجلس کے اتحادی مہاگٹھ بندھن کو نقصان پہنچائیں گے ، اور مجلس کے اتحادی کامیاب نہیں ہوں گے ، وہ بات تقریبا ننانوے فیصد صحیح ثابت ہوئی ہے ، مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کا صرف ایک امیدوار کامیاب ہوا ہے ،
جین پورہ سے بی ایس پی کے امیدوار محمد زمان خان صاحب کامیاب ہوئے ہیں.

پورے بہار میں مجلسی کارکنان نے مہاگٹھ بندھن کے خلاف کام کیا.
مجلسی کارکنان اس سے خوش ہوسکتے ہیں کہ وہ سیکولر پارٹیوں کو ہرانے کی طاقت رکھتے ہیں ،
مجلس سے کامیاب ہونے والے پانچوں امیدواروں کو میں مبارکباد پیش کرتا ہوں ،اور امید کرتا ہوں کہ وہ ان سابق مسلم ممبران اسمبلی سے زیادہ بہتر ثابت ہوں گے جن کو وہ ہراکر آئے ہیں.
اور بہار میں حیدرآباد سے زیادہ سنجیدہ اور دانشورانہ سیاست کریں گے.
حیدرآباد کے قریب بنگلہ دیش نہیں ہے ، تلنگانہ میں بی جے پی بھی نہیں ہے ،
اور آخر میں پھر مجلسی لیڈران اور کارکنان سے گذارش کروں گا کہ مجلس کو صرف سیمانچل تک محدود رکھیں ،جس طرح تلنگانہ میں مجلس کو صرف حیدرآباد تک محدود کر رکھا ہے.
سیمانچل سے باہر کے بہت سارے مسلم لیڈران کے ہارجانے کی ایک بڑی وجہ ہندوؤں میں مجلس کا خوف بھی ہے ،
بی جے پی نے مجلس کا خوف دکھاکر ہندوؤں کو متحد کیا ہے.

مجلس اتحاد المسلمین اور اویسی صاحب کو بی جے پی کا ایجینٹ کہنے والوں سے بھی گذارش کروں گا کہ حق بات کہنے کی عادت ڈالیں ، اور جو جتنا غلط ہو ،اسے اتنا ہی غلط کہیں، اسدالدین اویسی صاحب بی جے پی کے ایجنٹ نہیں ہیں، مگر وہ تلنگانہ سے باہر غیر دانشمندانہ سیاست کرتے ہیں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!