افسانہ: فرق
حنا خان
“تنگ آگیا ہوں میں آپ کی یہ روز روز کی کٹ کٹ سے ابو!!!
کہا نہ آپ سے آفس سے آتے اگر وقت ملا تو چشمہ ٹھیک کروادوں گا, اور آپ ہے کہ تب سے ایک ہی رٹ لگائے ہیں. ہر روز کچھ نہ کچھ نئی لے کر آجاتے ہیں”
یہ لفظوں کے وہ تیر تھے جو نعمان کی زبان سے نکل رہے تھے اور احمد مرزا کے دل کو چھلنی کر رہے تھے
یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں تھی, آئے دن یہی صورت حال دیکھنے کو ملتی تھی. احمد مرزا جو اب کافی بوڑھا ہوچکاتھا ,جب بھی اپنی کسی ضرورت کا ذکر اپنے برسر روزگار نوجوان بیٹے سے کرتا تو اسے اسی طرح کی تلخ کلامی کا سامنا کرنا پڑتا…
اور احمد مرزا دل مسوس کر رہ جاتا. آج بھی وہی حالات تھے. والد سے تلخ کلامی کے بعد نعمان حسب معمول اپنی ڈیوٹی پر چلا گیا, اور بوڑھا باپ بڑے سے عالیشان گھر میں تنہارہ گیا.
احمد مرزا اپنے کمرے کی لائٹ آف کیے اداس بیٹھا ماضی کی یادوں میں گشت لگا رہا تھا… وہ اور اس کی بیوی صابرہ کو شادی کے ایک سال میں ہی اللہ رب العزت نے پھول سی بیٹی سے نوازہ تھا…. جس کی پیدائش پر احمد مرزا بہت زیادہ خوش نہ تھا بیٹی سے متعلق اس کی وہی دقیا نوسی سوچ تھی کہ بیٹی بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہوتی . وہ اس کا ذیادہ لاڈ پیار نہ کرتا, اس کی ضرورتوں و خواہشوں کو یکسر نظر انداز ہی کرتا تھا..
اور اس کی اپنی بیٹی کے تئیں نفرت اس وقت اور بھی بڑھ گئی جب اگلے چار سالوں میں اس کے یہاں ایک راجا بیٹا نے جنم لیا, اسے ہروقت وہ آنکھوں کا تارا بنا کر رکھتا تھا, اپنا سارا وقت ساری محبتیں صرف اپنے بیٹے نعمان پر لٹاتا, اس کی لیے اس کا بیٹا اس کے بڑھاپے کا سہارا اس کے خاندان کا چشم و چراغ تھا….
نعمان کی ہر خواہش کو فوری پورا کردینا اور مہک بیٹی کی معمولی ضرورت کی چیز کے لیے بھی ترسانا بس یہی تو کام تھا اس کا … احمد مرزا کے کانوں میں مرحوم بیوی کے وہ جملے گونج رہے تھے
“مہک اور نعمان دونوں ہی ہماری اپنی اولاد ہے آپ کیوں اپنے ایک ہی بچے پر اس قدر پیار لٹاتے ہیں؟؟ اور دوسرے کو محروم کردیتے ہیں دونومیں اس قدر فرق کیوں؟ بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں, مجھے ڈر لگتا ہے آپ جس وقت نعمان کو پیار کرتے ہے مہک آپکی بیٹی آپ کو اک تک ہراسی نظروں سے دیکھتی ہے…… کہیں ایسا نہ ہو اس کے پیے گئے یہ صبر کے گھونٹ آگے چل کر آپ کے لیے وبال جان جائے….”
لیکن احمد مرزا بڑی بے پرواہی سے صابرہ کی باتوں کو نظر انداز کرکے کہتے ارے…. میرا نعمان تو میرا غرور ہے!
میرے گھر کا چشم چراغ, یہ ضرور میرا نام روشن کرے گا, اور پھر یہی تو میرے بڑھاپے کا سہارا ہے, مہک کا کیا ہے اسے پرائے گھر جانا ہے وہ کہاں اپنی ہے…….
احمد مرزا ماضی کی انھیں یادوں میں گم تھا کہ اچانک موبائیل فون کی رنگ نے اسے حال میں لا دکھیلا تھا…. احمد مرزا نے بنانام دیکھے اسے کانوں سے لگا کر ہیلو!! کہا, ادھر سے مہک احمد مرزا کی بیٹی تھی والد کی یوں روہانسی آواز سن کر وہ فوراً بول اٹھی “ابو!!! کیا ہوا آپ کو ؟؟؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟ کھانا کھایا یا نہیں ؟؟؟ مہک کی اس طرح کی باتیں سن کر احمد مرزا کی آنکھوں سے مزید آنسو رواں ہوگئے……