ملک کے اسلام پسند طلبہ و نوجوانوں کا یہ کارواں۔۔۔ آخر چاہتا کیا ہے!
ایس آئی او کے یوم تاسیس کے موقع پر خصوصی تحریر
کاروانِ ایس ائی او منزل بہ منزل ہے رواں
تحریر : ایس عبدالحسیب
آج ایس آئی او کا یومِ تاسیس کا دن ہے یہی وہ دن ہے جس دن ہمارے بزرگانِ دین نے اس کی بنیاد عالمی سطح پر رکھی۔
دنیا میں بہت سے ایسے بیوقوف ہیں جو ہر سال پابندی سے برتھ ڈے مناتے ہیں۔ نعوذ بااللہ آج ہم ان بیوقوفوں میں اپنا نام درج کرانے کے لئے اکٹھا نہیں ہوئے ہیں۔ ہم کوئی برتھ ڈے یا سالگرہ منانے کے لیے اکٹھا نہیں ہوئے ہیں۔ آج کا دن ہمارے لیے جشن کا دن نہیں ہے بلکہ آج کا دن ہمارے لیے یومِ تشکرکا ہے، یوم احتساب کا ہے اور یومِ تجدیدِ عہد کا دن ہے۔
شکر اس بات کا کہ ہم اس تحریک سے وابستہ ہوئے،
احتساب اس بات کاکہ اس تحریک سے وابستہ ہوکر ہم نے کیا کیا،
اور عہد اس بات کا کہ اس تحریک سے وابستگی کے وقت جو جذبات و احساسات و عزائم تھے وہ سرد نہیں ہوں گے۔بلکہ ان کی گرمی سے ہمارا سینہ آخری سانس تک دہکتا رہے گا۔
اس موقع پر سب سے پہلے میں مولانا سید ابواعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ،مولانا ابوللیث رحمتہ اللہ علیہ،مولانا صدرالدین اصلاحی رحمتہ اللہ علیہ،مولانا شفیع مونس رحمتہ اللہ علیہ،ڈاکٹر عبدالحق انصاری رحمتہ اللہ علیہ،مولانا عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ و دیگر قائدین تحریک کے درجات کی بلندی کی دعا کرتا ہوں۔ یہ ان کا وژن،ان کی محنت،ان کی قربانی اور ان کی رہنمائی ہے کہ ایس آئی او نے آج اپنے سفر کے 38 ویں سنگ میل کو کامیابی سے عبور کرلیا ہے۔
اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن، بطورِ تذکیر آئیے اس بات پر غور کرے کہ
ایس آئی او آخر ہے کیا۔۔؟؟؟؟
دوستوں، ایس آئی او ملک کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم ہے جو اپنے مشن کے تحت ہمیشہ سرگرم رہتی ہے۔
آئیے اس نام پر غور کرے۔۔۔۔۔
ایس سے ‘اسٹوڈنٹس ‘ : ہم سب جانتے ہیں کے دورِ جدید میں طلبہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس پر بہت زیادہ لب کشائی کی ضرورت نہیں ہے طلبہ تحریکات نے ملکی سیاست کا رخ بدلا ہے سیاسی پارٹیاں یونہی یونیورسیٹوں میں ہونے والے انتخابات کے لیے اتنا سرپھٹول نہیں کرتیں، انھیں علم ہے کہ یہیں یونیورسیٹوں کی یونین چلانے والوں میں سے کل ملک چلانے والے نکلے گے۔زور اس بات پر دینا ہے کہ اس دنیا میں جتنے عظیم انقلابات آئے ہیں سب میں طلبہ و نوجوانوں نے ایک عظیم الشان کردار ادا کیا ہے۔ اس کے لیے جدوجہد کی ہے اور قربانیوں کی حیرت انگیز مثالیں قائم کی ہے اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ طلبہ و نوجوانوں کے بغیر کوئی بھی انقلاب نہیں آسکتا۔
ایس آئی او چاہتی ہے کہ طلبہ جو تبدیلی کے باربردارہیں ان کی عظیم طاقت دنیا میں حق،خیر اور عدل کی نقیب و علمبرادر بنے اور سماج میں تعمیری ذرائع سے صالح تبدیلیاں برپا کرے۔
‘آئی’ سے آتا ہے ‘اسلامک’۔ یہاں پر اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ طلبائی طاقت پر ہم ہر طرح کے ڈ طلبہ کی بھیڑ اکٹھی کرلینے کے خواہاں نہیں ہے بلکہ ہم اسلامی شعور رکھنے والے طلبہ کو منظم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بنیان مرصوص بن کر کالجوں اور یونیورسیٹوں کے کیمپسوں سے لے کر گلی اور محلّوں میں حق اور عدل کے گواہ بن کر کھڑے ہوجائیں۔ہم پر اور ہمارے مخاطبین پر ہر وقت یہ بات بلکل عیاں ہونی چاہیے کہ ہم اسلامی فکر اور اسلامی اخلاقیات کے پابند ہے بالفاظ دیگر ہم ہر حال میں مسلمان ہیں چاہے گھر میں ہوں،گلی میں ہوں،نکڑ پر ہوں،کلاس میں ہوں یا کینٹین میں ہوں،آ فس میں ہوں یا کہیں اور۔
زندگی کا کوئی شعبہ اور کوئی لمحہ ایسا نہیں جہاں ہم اسلام سے آزاد ہوں۔ ہم دن چوبیسوں گھنٹے،ہفتے کے ساتوں دن،اور سال کے بارہوں مہینے اللہ کہ بندے ہیں اور اس کی دی ہوئی ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ اگر آپ
ایس آئی او سے جڑے ہے اور یہ سوچتے ہیں کے ‘ہمارے لیے کا فی ہے کہ ہم اتوار کا پرگرام اٹینڈ کرے’ تو آپ غلط سوچتے ہیں۔ آپ کی ڈیوٹی ایک ہفتہ واری پروگرام میں شریک ہوکر مطمئن ہوجانے کی نہیں ہے بلکہ چوبیسوں گھنٹہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی ہے۔ آپ مسلمان ہیں اور سالانہ،ہفتہ واری یا پنج وقتہ مسلمان نہیں بلکہ فل ٹائم مسلمان ہیں۔ گھر میں،کیمپس میں،بازار میں،آ فس میں،کینٹین میں ہر جگہ آپ اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا،عدل و قسط کے داعی، اور حق کے گواہ ہیں۔ آپ کی تنظیم کے نام میں لفظ ‘اسلامک’ یہ بتاتا ہے کہ آپ کا ہر عمل چاہے وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوں یا دوستوں کے ساتھ چائے نوشی اور ہنسی مذاق ہی کیوں نہ ہوں،ہر حال میں اسلامی ہونا چاہیے۔ زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی آپ اسلام کے پابند ہیں اور یہ بات آپ کو ہر وقت اپنے ذہن میں رکھنی ہے۔
‘او’ سے آتا ہے ‘آرگنائزیشن’۔ یہ لفظ تنظیمی قوت( اجتماعیت ) کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ہمیں سبق دیتا ہے کہ ہمارا اکیلے اکیلے نیک بن جانا کافی نہیں ہے ایک حدیث قدسی میں آیا ہے کی برائیوں کے حد سے گذر جانے کی پاداش میں کچھ بستیوں پر عذابِ الہیٰ کا فیصلہ ہوا اور جبرئیلؑ کا حکم ملا کہ ان بستیوں کو الٹ دیا جائے۔ جبرئیلؑ نے عرض کیا ۔پروردگار وہاں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جو بہت نیک اور پرہیزگارہے اور اس نے زندگی کا کوئی لمحہ بھی گناہ سے آلودہ نہیں کیا ہے اللہ تعالیٰ نے غضبناک ہوکر ارشاد فرمایا۔” اُلٹو ان بستیوں کو پہلے اس پر اور پھر دوسروں پر۔۔۔” ایسا اس لیے کہ خدا کی سر زمین پر خدا کی نافرمانیاں اس کے سامنے ہوتی رہیں لیکن نہ اس کا دل دُکھا، نہ اس نے لوگوں تک حق کا پیغام پہنچانے اور انھیں برائیوں کے دلدل سے نکالنے کی کوشش کی۔(بہیقی)
جان لیجیے،اگرآپ اکیلے اکیلے نیک ہیں اور خوش ہیں کہ میں نیک ہوں تو آپ انتہائی خطرناک سوچ میں مبتلا ہیں۔ آپ ہاسٹل میں نماز پڑھتے ہیں اور اس بات سے کوئی سروکار نہ رکھیں کہ ہاسٹل میں پچاس طلبہ اور ہیں جو نماز نہیں پڑھتے آپ خود پاکباز ہوں لیکن آپ کے ماتھے پر اس بات سے کوئی شکن نہ آئے کہ آپ کے دوست بے حیائی اور فحاشی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔آپ ظلم نہیں کرتے لیکن اس بات سے بے نیاز ہیں کہ سماج میں ظلم و ستم کا دور دورہ ہے۔ تو آپ اسلام کے مزاج سے ناواقف ہیں۔ ترمذی کی ایک حدیث ہے کہ ‘اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم نیکی کا حکم دوگے اور برائی سے روکوگے و گرنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیجے گا، پھر تم دعایئں کروگے لیکن تمہاری دعایئں رد کر دی جائینگی۔
جب ایک بار آپ امر بالمعروف و نھی عن المنکر یعنی لوگوں کو نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا شروع کریں گے تو آپ کو بہت جلد احساس ہوجائے گا کی یہ کام مل جل کر کرنے کا ہے۔منظم ہوئے بغیر دین کے احکام پر صحیح طور سے عمل نہیں کیا جاسکتا۔ ابوداؤد اور نسائی کی بہت مشہور حدیث ہے جس میں شیطان کو بھیڑیا اور انسان کو بکری سے تشبیہ دی گئی ہے۔ بھیڑیا گویا طاقتور ہے لیکن وہ کبھی بکری کے ریوڑ پر حملہ نہیں کرتا۔ رسول ﷺ کے تاریخی الفاظ میں ” تم جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ بھیڑیا ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری ہی کو کھاتا ہے”۔ یہی حال انسان اور شیطان کا ہے کہ اگر آپ نیک صحبتوں میں ہیں صالح اجتماعیت سے وابستہ ہے تو شیطان کے لیے یہ لوہے کہ چنے ثابت ہوتے ہے بصورت دیگر مکھن کی طرح نرم چارہ!
مشن اور اس کے تقاضے :
اس بات سے ہم واقف ہے کہ ایس آئی او کا مشن “الہیٰ ھدایات کے مطابق سماج کی تشکیل نو کے لیے طلبہ و نوجوانوں کو تیار کرنا”
ہم مشن اسٹیٹمنٹ کو تین حصّوں میں تقسیم کرتے ہیں؎
1) الہیٰ ھدایات کے مطابق
2) سماج کی تشکیل نو کے لیے
3) طلبہ و نوجوانوں کو تیار کرن
٭ الہیٰ ھدایات کے مطابق
یہ اس بات کا اعلان ہے کہ قرآن و سنت ہی ہمارا اساس اور بنیاد ہے اس کے علاوہ دنیا بھر میں جو افکار و تصورات و خیالات و فلسفے پائے جاتے ہیں سب کی حیثیت ثانوی ہے جو کچھ قرآن و سنت کے مطابق ہوگا وہ قابل قبول ہے، جو نہیں ہے وہ قابلِ رد ہے ہے
اس موقع سے مجھے مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کا وہ قول یاد آرہا ہے ملاحظہ فرمائے۔۔۔
یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے،
نفس کے بندے اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے،
ہوا کے رخ پر اُڑنے والے خس و خاشاک اور پانی کے بہاؤ پر بہنے والے حشرالارض کے لیے نہیں اتری ہے۔
ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگو کے لیے نہیں اتری ہے
یہ ان بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہے،جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں،جو صبغتہ اللہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں
(مولانا سید ابواعلیٰ مودودی)
2) سماج کی تشکیل نو کے لیے: یہ اس بات کا اعلان ہے کی دنیا بھر میں شرک کی بنیاد پر جو نظام برپا ہوا ہے جو سماج قائم ہوا ہیں اس نتیجے میں اللہ کی سر زمین پو جو فساد برپا ہے اس فساد سے اور ظلم سے ہم سخت نفرت کرتے ہیں اور ہم اس بڑھتی ہوئی ظلم و زیادتی کو مٹانا چاہتے ہیں ایک ایسے سماج میں جہاں حکومت کے چلتے ملک میں سرِعام عورتوں کی عصمت لوٹی جارہی ہیں،چوری دن بدن بڑھتی جارہی ہے،قتل و غارت گری عام ہورہی ہیں ایسے سماج کو ہم بدلنے کا عزم کرتے ہیں اور اس کہ مقابل میں ایک عدل والا سماج قائم کرنا چاہتے ہیں۔
3) طلبہ و نوجوانوں کو تیار کرنا : یہ تیسرا اور آخری اعلان ہے کہ ہم وسیع تر تحریک اسلامی کا ایک حصّہ ہیں جس کا نصب العین ‘اقامتِ دین’ ہے اس مقصد کے لیے طلبہ و نو جوانوں کو تیا ر کرنا ایک اہم ترین محاذ ہے کیونکہ نوجوان ہی کسی سماج کی ڈائنامکس کو بدلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ سماج میں بھی مثبت یا منفی ،صالح یا غیر صالح انقلاب آتا ہے اس میں نوجوانوں کا کردار کلیدی ہوتا ہے
یوم تاسیس کے اس موقع پر ہم ایک بار پھر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہمارا قول و عمل الہیٰ ھدایات کے مطابق ہوگا اور اسلام کی دعوت طلبہ و نوجوانوں تک پہنچانے میں اور اسلام کے مطابق سماج کی تشکیل نو کے لیے طلبہ و نوجوانوں کو تیار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے۔